یہ تقسیم ہند سے پہلے 1944ء کا ذکر ہے۔ امرتسر میں ایک بہت بڑا آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہو رہا تھا۔ کسی صاحبِ ذوق نے مشاعرے کے منتظمین سے مل کر ایک پندرہ سولہ سال کے ’’لڑکے‘‘ کا نام بھی لکھوا دیا۔ لڑکے کو جب کلام سنانے کے لیے بلایا گیا تو اس نے اپنی پرسوز آواز میں ترنم کے ساتھ غضب کی غزل پڑھی اور مشاعرہ لوٹ لیا۔ یہ لڑکا آگے چل کر ساغر صدیقی کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے اشعار مشاعروں، ایوانوں اور جلسوں میں گونجنے لگے۔ آج تک ساغر کے اشعار باذوق لوگوں کو ازبر ہیں۔ زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پانی ہے سزا یاد نہیں میں نے پلکوں سے دریار پہ دستک دی ہے میں وہ سائل ہوں، جسے کوئی صدا یاد نہیں ساغر صدیقی 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ ساغر کے گھر میں بدترین غربت تھی۔ اس غربت میں سکول یا مدرسے کی تعلیم کا امکان نہ تھا۔ محلے کے ایک بزرگ حبیب حسن کے ہاں ساغر آنے جانے لگے۔ انہوں نے ساغر کو ابتدا کی تعلیم دی۔ ساغر کا دل انبالہ کی عسرت و تنگدستی سے اچاٹ ہو گیا تو وہ تیرہ چودہ برس کی ہی عمر میں امرتسر آ گیا۔ یہاں ساغر نے لکڑی کی کنگھیاں بنانے والی ایک دکان پر ملازمت کر لی اور کنگھیاں بنانے کا فن بھی سیکھ لیا۔ اس دوران شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ساغر اپنے اشعار بے تکلف دوستوں کو سنانے لگا۔ 1944ء والے امرتسر کے مشاعرے نے راتوں رات ساغر کو شہرت کو بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد ساغر لاہور و امرتسر کے مشاعروں میں بلایا جانے لگا۔ شاعری ساغر کے لیے وجۂ شہرت کے ساتھ ساتھ وسیلۂ روزگار بھی بن گئی اور یوں نوجوان شاعر نے کنگھیوں کا کام چھوڑ دیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور آ گیا۔ ساغر نے اصلاح کے لیے لطیف انور گورداسپوری کی طرف رجوع کیا اور ان سے بہت فیض پایا۔ 1947ء سے لے کر 1952ء کا زمانہ ساغر کے لیے سنہری دور ثابت ہوا۔ اسی عرصے میں کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا رہا۔ فلمی دنیا نے ساغر کی مقبولیت دیکھی تو کئی فلم پروڈیوسروں نے ان سے گیت لکھنے کی فرمائش کی اور انہیں معقول معاوضہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ 1952ء کے بعد ساغر کی شاعری خوش نصیبی میں منزلوں پر منزلیںمارتی ہوئی آگے سے آگے بڑھتی رہی اور ساغر کی بدنصیب شخصیت خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔ وہ بھنگ شراب، افیون اور چرس وغیرہ استعمال کرنے لگا۔ اسی عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتی اور ساغر غزل، نظم، قطعہ اور فلمی گیت ہر صنف سخن میں شاہکار تخلیق کرتا جاتا۔ اس دور مدہوشی کے آغاز میں تو لوگ انہیں مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی اس دوران 1958ء کا مارشل لاء لگ گیا اور جنرل ایوب خان سربراہِ مملکت کے طور پر برسراقتدار آ گئے۔ ساغر کو یہ خبر ملی تو اس نے ارتجالاً کہا کیا ہے صبر جو ہم نے ہمیں ایوب ملا ایوب خان تک ساغر کا یہ کلام پہنچا تو انہوں نے دورۂ لاہور کے دوران شاعر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ پولیس والوں نے ساغر کو بہت ڈھونڈا کیونکہ اس کا کوئی ٹھور ٹھکانہ تو تھا نہیں۔ پولیس والے تقریباًً مایوس ہی ہو گئے مگر رات کو انہیں ایک پان والے کی دکان پر ساغر نظر آ گئے۔ ساغر نے پولیس والوں کے ساتھ صدر کے پاس جانے سے انکار کر دیا البتہ سگریٹ کی ڈبیا کے اندر سے سفید کاغذ نکالا اور اس پر درج ذیل شعر لکھ کر صدر ایوب کو بھیج دیا۔ جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے ’’عجیب مدہوش‘‘ شاعر تھا کہ جو عالمِ بے خودی میں بھی اپنے دور کے غم و آلام سے انتہائی با خبر تھا۔ ذرا یہ شعر دیکھیے: چراغِ طور جلائو بڑا اندھیرا ہے ذرا نقاب اٹھائو بڑا اندھیرا ہے ایوب خانی دور میں کہا گیا یہ شعر بھی دیکھیے: دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں مجھے حیرت ہے کہ وہ شاعر کہ جسے صدرِ مملکت سے لے کر عام شہری تک جانتا تھا اور اس کے کلام کا قدردان تھا۔ وہ شاعر انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارتا رہا۔ عالمِ مدہوشی میں راتوں کو دکانوں کے تھڑوں یا فٹ پاتھوں پر پڑا رہا اور بالآخر گمنامی کی موت مر گیا۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے خوش ذوق ادیبوں نے، کہ جو مناصبِ جلیلہ پر فائز تھے، ساغر صدیقی جیسے گوہر نایاب کو گدڑیوں میں رلتے دیکھا اور ان کے اندر درد مندی کی کسی لہر نے کوئی انگڑائی نہ لی اسی طرح باذوق اور درد مند لاہوریوں نے فٹ پاتھوں پر پڑے عظیم شاعر کو واپس زندگی کی مین سٹریم میں لانے کی کوئی کاوش نہیں کی۔ اسے سوسائٹی کی ظالمانہ بے حسی کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ ساغر صدیقی کی اس مدہوشی میں کئی نام نہاد شاعر اس کے لیے نشے کے ٹیکے اور پڑیاں لاتے اور اس سے غزلیں لے جاتے اور مشاعروں میں اپنے شام سے پڑھتے۔ عالم مدہوشی میں بھی ساغر صدیقی کے ہاں خانۂ دل میں واپسی کی خواہش تھی جبکہ ’’دوستوں‘‘ نے اپنے ظالمانہ رویے سے یہ خواہش پوری نہ ہونے دی۔ ہم وہاں تھے کہ جہاں ساغر و مینا تھے مدام دوستو! لوٹ کے آئے ہیں تمہاری خاطر