افغانستان کے سابق وزیر اعظم اور حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار گلبدین نہ صرف ایک جنگجو کمانڈرہے بلکہ وہ سیاسی ،مشاورتی ، مجلسی اور مذہبی شخصیت بھی ہیں۔اسلام آباد میں اعلی حکومتی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں میں انھوںنے افغانستان میں قیام امن کے لئے جاری کوششوں میں موجود کوتاہیوں کی نہ صرف نشاندہی کی ہے بلکہ مسائل کے حل کے لئے تجاویز بھی دی ہیں۔ اعلی حکومتی شخصیات کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے ساتھ ملاقات اور گفتگو میں بھی انھوں نے اپنے موقف کو بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کیا۔میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران انھوں نے شکوے اور شکایتیں بھی کی اورچند ایک انکشافات بھی ۔ افغانستان میں امن کے لئے جاری کوششوں پر تمام تر تحفظات کے باوجود ساتھ دینے کے عزم کا اظہارکیا۔موجودہ امن مذاکرات میں انھوں نے پاکستان کے کردار کوکھولے دل کے ساتھ تسلیم کیا۔افغان جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے پر انھوں نے پاکستان سے شکوہ بھی کیا ۔ حکمت یار نے یہ انکشاف بھی کیا کہ افغانستان پر حملے کے بعد ایران بھی امریکا کا ساتھ دیتا رہا۔انھوں نے ایک طرح سے پاکستان کو خبردار بھی کیا کہ امریکا قابل اعتماد دوست نہیں ۔وقت آنے پر وہ اسلام آباد کی بجائے دہلی کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ حکمت یار نے نوے کی دہائی میں افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا ء کے بعد خانہ جنگی کا ذمہ دار بھی امریکا کو ٹہرایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ جن لوگوں نے جہاد میں حصہ لیا تھا ۔ سوویت یونین کو شکست دی تھی۔ وہ افغانستان کے حکمران رہے۔انھوں نے انڈیا کو خبر دار کیا کہ وہ افغانستان میں ماضی کے کردار سے باز رہیں۔گلبدین نے اسلام آباد پر واضح کیا کہ دنیا کی طاقت ور ریاستوں کی اب بھی کوشش ہے کہ اپنے مفادات کی جنگ افغانستان میں لڑیں۔انھوں نے اس خدشے کا اظہاربھی کیاکہ امریکا کی اب بھی کوشش ہے کہ افغانستان کی سرزمین چین اور ایران کے خلاف استعمال کریں۔انڈیا کی بھی خواہش ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہے۔ حکمت یار نے کابل حکومت پر بھی تنقید کی ۔ انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیا کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کی کوشش ہے کہ موجودہ امن مذاکرات کامیاب نہ ہو۔جواز انھوں نے یہ پیش کیا کہ ڈاکٹر اشرف غنی اپنا اقتدار بچانے اور انڈیا کے اکسانے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔حکمت یار نے مطالبہ کیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی انتظامیہ کا جواز باقی نہیں اس لئے وہ مستعفی ہو ں اور افغانستان میں مستقل قیام امن کیلئے تمام سرکردہ افغان رہنمائوں پر مشتمل حکومت تشکیل دینا چاہئے تاکہ افغانستان کے لوگ خود اپنے لئے نظام حکومت اور طرز حکومت کیلئے لائحہ عمل بنا سکے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حکمت یار گلبدین نے کھل کر اپنا موقف پاکستان کے سامنے رکھا ہے ۔ انھوں نے غیر مشروط طورپر افغانستان میں قیام امن کیلئے جاری کوششوں کا ساتھ دینے کا بھی عہد کیا ہے ۔ حکمت یار نے ایک طرف اگر چہ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے پاکستان کو صلاح و مشورے دئیے ہیں تو دوسری طرف انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے بھی اسلام آباد سے چند مطالبات کئے ہیں۔ حکمت یار گلبدین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے کاروباری برادری کو سہولیات دیں۔ انھوں نے حکومت پر واضح کیا کہ اس وقت افغانستان کے سرمایہ کار مشرق وسطیٰ اور ترکی میںبیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ وہ پڑوس میں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ انھوں نے پاکستان سے گزارش کی ہے کہ افغانستان کے سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ کاری کے لئے ان کو بینک اکاونٹس کھولنے اور جائیداد خریدنے کی اجازت دی جائے۔ویزے کی شرط ختم کی جائے۔ صرف پاسپورٹ پر آنے جانے کی اجازت دی جائے۔مہاجر کارڈ پر بھی آمدورفت کی سہولت کا انھوں نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے۔اگر چہ پاکستان کی حکومت نے ان مطالبات پر ان کو یقین دہانیاں کرائی ہے لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان اور حکمت یار کے موقف میں بڑی حد تک یکسانیت ہیں ۔پاکستان نے بھی گزشتہ برس تجویز دی تھی کہ افغانستان میں چند برسوں کے لئے تمام افغان قوتوں پر مشتمل عبوری حکومت قائم ہو نی چاہئے جو کابل کے لئے مشترکہ طور پر نظام حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دیں لیکن افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس تجویز کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔ امریکا نے اس تجویز پر خاموشی اختیار ی کی تھی، حالانکہ پاکستان نے جس وقت یہ تجویز دی تھی وہ ایک بہترین موقع تھا،اس لئے کہ ڈاکٹر اشرف غنی مدت صدارت پوری کر چکے تھے۔ موجودہ صورت حال میں عبوری حکومت کا قیام ممکن دکھائی نہیں دے رہا ہے اس لئے کہ ڈاکٹر اشرف غنی اپنی دوسری مدت پوری کرنے سے قبل ایسا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ امن کی کوششیں جاری ہے ۔ صورت حال امریکی صدارتی انتخابات کے بعد واضح ہو جائے گی لیکن حکومت پاکستان کو حکمت یار گلبدین کے اس مطالبے پر کہ افغانستان کے سرمایہ کاروں کو سہولت دیں ضرور غور کرنا چاہئے۔امن مذاکرات میں پاکستان کے کردار کا ہر کوئی معترف ہے ۔ اسلام آباد کی کوشش ہے کہ ہر حال میں کابل میں امن کاقیام ضروری ہے۔ اسلام آباد عملی طور پر اس کے لئے کوششیں بھی کر رہا ہے ۔ کابل میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان وہاں خاصے سرگرم ہیں ۔ انھوں نے رواں مہینے سابق صدر حامد کرزئی، سابق وزیر خارجہ اور جمعیت اسلامی کے رہنما صلاح الدین ربانی ، وزیر خارجہ حنیف اتمر، پاکستان کے لئے نمائندہ خصوصی عمر دائود زئی ، سابق سفیر ڈاکٹر عمر زاخیوال،محمد محقیق اور دیگر رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ امکان یہی ہے کہ مستقبل میں اور بھی افغان رہنما اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ ان تمام ملاقاتوں اور دوروں کا مقصد مجوزہ نظام پر افغانستان کے سرکردہ سیاسی رہنمائوں کو اعتماد میں لینا ہے ۔اگر چہ تھرٹی تھری پرسنٹ (33فیصد) فارمولے کی باز گزشت سنائی دے رہی ہے لیکن اصل صورت حال امریکی صدارتی انتخابات کے بعد واضح ہو گی ۔