صفحہ دہر کی تاریخ میں بے شمار دریتیم ہستیوں نے اپنے نشان قدم کو چھوڑا ہے انہیں میں سے ایک خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمۃ کی ہستی ہے ،آپ کی ولادت باسعادت 5ذی الحجہ 971ھ بمطابق 15جولائی 1592ء کو کابل میں ہوئی،ابتدائی تعلیم علاقہ کے مکتب میں حاصل کرکے مشہور زمانہ شخصیت ملاصادق حلوانی کے حلقہ درس میں داخل ہوکر علوم متداولہ سے فراغت حاصل کی۔ آپ کے خاندان کے لوگ اعلیٰ عہدوں پر متمکن تھے جس کی وجہ سے ان سب کی خواہش تھی کہ بعد فراغت آپ بھی حکومت سے منسلک ہوکر کسی عہدے سے متعلق ہوجائیں لیکن مشیت ایزدی کہ آپ کی توجہ حقیقت ومعرفت کی طرف رہی۔آپ مرشد راہ نما کی تلاش میں مختلف بزرگان دین کی خدمت میں حاضر ہوے لیکن اطمینان قلب نہ حاصل ہوسکا،آخرا آپ امیر عبداللہ بلخی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوے ،جب یہاں پہنچے توآپ کو سکون وقرار حاصل ہوا اور منازل روحانیہ میں ترقی ہوئی لیکن دل کو سیرابی حاصل نہ ہوسکی اور پیر کامل کی تلاش جاری رہی چنانچہ آپ نے ابتدائے جوانی میں غیرمنقسم ہندوستان کی جنت نشاں وادی کشمیر میں باباولی سے فیض حاصل کیا۔خواجہ محمد اعظم لکھتے ہیں ’’خواجہ دو سال تک شیخ بابا ولی علیہ الرحمۃ کی صحبت میں رہے ۔بعد ازاں سنبھل میں شیخ الٰہ بخش سنبھلی کی خدمت میں حاضر ہوے ،تلاش مرشد میں وہ جا بجا گئے آخر کار دہلی پہنچے اور چشتیہ سلسلہ کے نام ور بزرگ شیخ عبدالعزیز کی خانقاہ میں مقیم رہے اور ان کے صاحب زادے شیخ قطب عالم کی خدمت میں رہ کر عبادت الٰہی میں مشغول رہے ‘‘شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا’’ایک رات شیخ قطب العالم پر منکشف ہوا کہ حضرت خواجہ کا حصہ بخارا میں ہے ۔وہ اسی وقت باہر آئے اور خواجہ سے کہا کہ آپ کو مشائخ بخارا بلاتے ہیں،روانہ ہوجائیے یہ سن کر خواجہ اسی وقت روانہ ہو گئے اور ماوراء النہر میں سمر قند کے مضافات میں امکنہ نامی آبادی کے قریب مولانا خواجگی کی خدمت میں پہنچے ،انہوں نے آپ کو سلسلہ نقش بندیہ کی تعلیم دے کرخلافت عطا فرمائی اور ہندوستان واپس جانے کا حکم فرمایا‘‘صاحب زبدۃ المقامات نے لکھا ’’مولانا خواجگی کے قدیمی دوستوں نے اتنی جلدی خلافت دینے پر شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ اس کا معاملہ تربیت کمال کو پہنچا ہوا تھا فقط تصحیح احوال کی ضرورت تھی،ماوراء النہر سے واپس کے دوران حضرت خواجہ باقی باللہ پہلے لاہور پھر دہلی آئے اور قلعہ فیروزی میں قیام فرمایا اس دوران آپ کو اللہ تعالیٰ نے خوب بلندیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت مجد الف ثانی نے آپ کی بیعت کی‘‘(زبدۃالمقامات) آپ کی رحم دلی کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ شہر لاہور میں سخت قحط پڑا تو کئی روز تک آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا،جب آپ کے سامنے کھانا لایا جاتا تو فرماتے کہ ’’یہ بات انصاف سے بعید تر ہے کہ کوئی تو گلی کوچے میں بھوک پیاس سے جان دے دے اور ہم یہاں پر کھانا کھائیں اوراس طرح سے سارا کھانا مسکینوں کو بھیجوا دیا کرتے تھے ۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور کی سب اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی علم حق بلند کرتا ہے تو اس کو روشن خیال طبقہ متشدد اور نافہم کہہ کر ٹال دیتاہے اور اگر حکمۃً بھی کسی فتنے کے سدباب کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جاے تو یہی طبقہ انہیں صلح کلی کہہ کر قہوہ خانے کا عنوان بنادیتا ہے شاید انہیں تمام وجوہات کی بنیاد پر اسلام اور مسلمان دونوں خارجی فتنوں میں کم اور داخلی فتنوں کے چیلنجز میں زیادہ گھرے ہوئے ہیں یقینا ایسے پُر فتن حالات میں مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے خواجہ باقی باللہ کی ذات گرامی قدر ہمارے لیے ایک مستقل آئین کی حیثیت رکھتی کہ آپ اس دور میں دینی قیادت کے فرائض انجام دے رہے تھے جس دور میں فتنہ اکبری دین الحاد نے مذہب وملت کے درمیان بے شمار خرافات کو جنم دے دیا تھا،اگر چہ اس سے عوام الناس پر کوئی خاص اثرنہ پڑا تھا لیکن درباریوں کے طور طریقے بگڑ چکے تھے ،اونچے طبقوں میں خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں جس سے اس بات کا اندیشہ تھاکہ عامۃ الناس بھی اس سے متاثر ہوجائیں جس کے سد باب کے لیے فوری طور پر کوئی نظر نہیں آرہا تھا جو شیخ امان پانی پتی علیہ الرحمۃ وغیرہ کے مرید تھے وہ فتنہ اکبری کی مذہبی بوالعجبیوں کے ساتھ کھڑے تھے اور جو شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے زیر اثر تھے انہوں نے گوشہ تنہائی،درس وتدریس اورذکر اللہ کو جائے امن سمجھا تھا،اس وقت کے صدرالصدور شیخ عبدالنبی کو ان کے آپسی اختلاف نے بے اثر کردیا،ملا محمد یزدی جون پوری اور علمائے پنجاب اکبری تعزیری کاروائیوں کے شکار ہوگئے ۔اس طرح سے حالات کی اصلاح اور فتنہ کی سرکوبی حسب ضرورت کسی سے نہ ہو سکی۔ایسے دردناک ماحول اور اکبری دربار میں دین کی قربان گاہ بننے کے وقت صرف ایک بزرگ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے مستحکم اور مضبوط محاذ قائم کرکے فتنہ اکبری کو لگام دینے کی بھر پور کام یاب کوشش فرمائی۔آپ نے اپنی روحانی صفائی و پاکیزگی،حکمت اور عظمت کردار سے اکبری ارکان سلطنت،صدور مملکت اور علما و مشائخ کو مسخر فرمایا جس سے ہندوستان میں اسلامی روحانیت کی ایسی پرزور لہر چلی کہ فضائِ اکبری کے نت نئے رجحانات وخیالات کا فروغ پانا ناممکن ہوگیا۔آپ کا طریق کار عین مقتضائے حال کے موافق تھا۔اصفیا میں اس طریق کارکی سب سے زیادہ پرزور ترجمانی سلسلہ نقش بندیہ کے افراد نے کی۔ نتیجۃًہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آپ کا جوہر آپ کی اخلاقی پاکیزگی اورمصلحت شناسی تھی آپ کو ابتداء ً ہی بتا دیا گیا تھا کہ ’’حاصل سلوک،تہذیب الاخلاق ہے ‘‘اسی لیے آپ نے سای کوششیں تزکیہ نفس اور روحانی پاکیزگی پر مرکوز رکھیں۔اس بات سے بھی کسی کو مجال انکار کی چنداں گنجائش نہیں کہ آپ کو علمی دنیا میں تاریخ نے وہ مقام نہیں دیا جو آپ کے معتقد شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کو دیا اور نہ ہی زورِ قلم میں وہ مرتبہ جو مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو ملا لیکن امر اصلیہ رُشد و ہدایت میں آپ منفرد اور یکتائے روزگار رہے ۔