کبھی کبھی اپنی شان میں بھی قصیدہ پڑھ لینا چاہیے۔ کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اپنا کتھارسس ہی ہو جاتا ہے۔ اس وقت میڈیا کا جو چلن ہو گیا ہے‘ اس میں اس طرح کی کوشش شاید رفعِ شرکے لئے بھی کارآمد ہو سکتی ہیں ابھی دو چار دن پہلے 92نیوز نے اپنی سالگرہ منائی۔ یہ یوں تو ہمارے ٹی وی چینل کی سالگرہ تھی۔ اخبار کی نہیں۔ مگر یہ مجموعی طور پر اس ادارے کے لئے ایک سنگ میل تھا۔ میں نے نوائے وقت ‘ حریت ‘ جنگ بڑے بڑے اداروں میں کام کیا ہے اور لکھا ہے اور ہمیشہ ایک بات کا طلب گار رہا ہوں کہ بس مجھے ایڈیٹوریل فریڈم حاصل ہو۔ میرے رب نے یہ آزادی مجھے ہمیشہ دی ہے۔ جب میں نے 92نیوز میں کالم لکھنا شروع کیا تو صرف ایک بات پر اعتماد تھا کہ اخبار کے ایڈیٹر ارشاد عارف مجھے اچھی طرح جانتے ہیں‘ ان کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک سال بعد اخبار کی سالگرہ کے موقع پر میں نے خود یہ اعلان کیا کہ مجھے اس اخبار میں کلی ایڈیٹوریل آزادی حاصل رہی ہے۔ آج مجھے ایک اور بات بھی کرنا ہے۔ بات بہت اہم ہے مگر پہلے ایک جملہ معترضہ ہو جائے۔ اور وہ یہ کہ میں ہمیشہ اس بات کا پرچارک رہا ہوں کہ دنیا میں آزادی کا کوئی تصور ایسا نہیں ہے جو ذمہ داری کے بغیر ہے۔ میں آزاد ہوں‘ اس لئے کہ میں ذمہ دار ہوں اور میں ذمہ دار ہوں تو میں آزاد ہوں۔ یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ ذمہ داری کا یہ تصور غالباً اس زمانے کے مروجہ فلسفوں سے آیا جب میری نسل کے لوگ شعور کی آنکھ کھول کر پروان چڑھ رہے تھے۔ خاص کر علمی فضائوں میں فلسفہ جمہوریت کا تذکرہ تھا اور اس میں بھی ژاں پال سارتر کا طوطی بولتا تھا۔ برطانیہ کے بوڑھے فلسفی برٹرینڈرسل نے جب ویت نام کے جنگی جرائم پر ٹربیونل بنایا تو اس فرانسیسی نژاد فلسفی کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔ الجزائر فرانس سے آزادی چاہتا تھا ‘ سارتر اس کا حامی تھا۔ اس نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ الجزائر میں جو ظلم بھی ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ پھر اس فقرے نے وسعت پکڑی اور اس عظیم فلسفی نے کہا کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ میں نے اس ایک فقرے سے زندگی میں بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت فائدہ کمایا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں ادیبوں کی محفل میں جا کر حلقہ ارباب ذوق میں اعلان کیا کہ سقوط ڈھاکہ کی ساری ذمہ داری حلقہ ارباب ذوق پر عائد ہوتی ہے اور اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ اس بیانئے کو میںنے ایک مضمون کی شکل میں طول دیا اور اس کی خوب خوب داد وصول کی۔ سارتر کو بھی اس کی داد ملی کہ جب اس کی اس ’’وطن دشمنی‘‘ پر گرفتاری کا مطالبہ ہوا تو فرانس کے جلیل القدر صدر جنرل ڈیگال نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ کیا میں سارے فرانس کو گرفتار کر لوں سارتر ہی فرانس ہے۔ ان دنوں یہ حال تھا کہ میں نے اقبال کی بعض نظموں کی تشریح بھی اس حوالے سے کر رکھی تھی اور ایسے یہ فلسفوں کے گرد گھوم پھر کر یہ تاثر قائم کیا تھا کہ میں پھر آزاد ہوں اگر میں ذمہ دار ہوں۔ اس کی سادہ سی تشریح وہ ہے جس کا میں صحافت میں طلب گار ہوں‘ اگرچہ اس نکتے کی شاخیں تو بہت دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یوں کہہ لیجیے ان دنوں مارٹن بیوبر‘ کرکیگاڑ ‘ ہیڈیگر ‘ سارتر ‘کامیو ہمارے حلقوں میں ایسے چلتے تھے جیسے ریوڑھیاں بٹ رہی ہوں۔ میں نے مذہب کا کوئی حوالہ دانستہ نہیں دیا تاکہ ہمارے آزاد خیالوں کے ماتھے پر شکنیں نہ آئیں۔ یہ ساری تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ ایڈیٹوریل آزادی میری پیشہ ورانہ ضرورت ہی نہیں‘ میری روح کا فلسفیانہ تقاضا بھی ہے۔ اس لیے میں وہاں لکھتا ہوں جہاں مجھے لکھنے کا مزہ آتا ہو۔ اور یہ مزہ اس وقت تک نہیں آ سکتا جب ذمہ داری کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے مجھے آزادی حاصل نہ ہو۔ ایک بات چلتے چلتے کہہ دوں کہ ذمہ داری احساس کر کے لکھنا ایسے ہی مزہ دیتا ہے جیسا شریعت کی پابندی کرنے سے کسی صاحب دل کو حاصل ہوتا ہے۔ آزادی میری طریقت ہے۔ ذمہ داری میری شریعت۔ بس اب اتنا ہی رہنے دیجیے۔ میں نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ میں ایک دوسری بات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میڈیا پر اس ابتلا کے دور میں جب بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے‘ کوئی اگر اپنے قدموں پر قائم رہا تو 92میڈیا گروپ ہے۔ یہاں نہ تنخواہوں میں کٹوتی ہوئی نہ کارکنوں کو فارغ کیا گیا۔ عرض کیا نا کہ اب یہ راز نہیں رہا کہ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے ہیں۔ مگر اس نسبتاً کم عمر ادارے نے طے کیا ہے کہ نہ وہ کسی کو بے روزگار کریں گے نہ تنخواہوں میں کمی کریں گے ‘جو لوگ میڈیا کی اصل صورت حال سے واقف ہیں صرف وہی اندازہ کر سکتے ہیں یہ کتنی بڑی بات ہے۔ یہ میڈیا زندہ رہا اور ضرور زندہ رہے گا تو ایسے ہی اولوالعزم اداروں کے طفیل زندہ رہے گا۔ آزادی اظہار صرف افراد کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ اداروں کی قوت ارادی بلکہ قوت ایمان کا بھی امتحان ہے۔ میں اس دن جب سالگرہ کی تقریب میںشرکت کرنے کے لئے دفتر آیا تو ہر ایک نے بڑی مسرت اور خوشی میں ڈوبے ہوئے جذبات کے ساتھ یہ خبر سنائی ۔ اسے بھی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اس کا اظہار کروں میں نے صحافت پر بڑے کڑے وقت دیکھے ہیں۔ ایوب خاں کے دور میں تو میری صحافت نے پائوں پائوں چلنا سیکھا تھا مگر اس کے بعد کا سارا زمانہ تو مجھ پر شعور کی سطح پر بیتا ہے۔ یحییٰ خاں کے زمانے کی آزادی پھر بھٹو کے دور کی سختیاں۔ آغاز ہی ایسا ہوا کہ بھٹو صاحب نے پہلے دن ہی ایک صحافی زیڈ اے سلہری کو برطرف کیا اور جو ابتدائی کام کئے اس میں زندگی اور اردو ڈائجسٹ پر پابندی لگا کر اس کے ایڈیٹروں کو گرفتار کر کے ان کی صحافت پر تاحیات پابندی لگاناتھا۔ قریشی برادران اور مجیب شامی مارشل لاء کی عدالت کے روبرو تھے۔ میری عمر اس وقت 25سال ہو گی دیکھنے میں دبلا پتلا تھا۔ نئے رسالے کے لئے ڈیکلریشن آغا شورش کشمیری کی مہربانی تھا۔ پریس کے لئے ایئر مارشل نور خاں کی نوازش تھی‘ مقدمہ ایم انور بارایٹ لاء مقرر ہوئے تھے۔ یہ سب کام مجھے کرنا تھے جیسے بھی کئے۔ احباب کی جیل میں ملاقاتیں بھی کرائیں اور پرچہ بھی نکالا۔ اسلام آباد میں پارلیمنٹ میں جا کر لابنگ بھی کی۔ یہ سب ہم نے جھیلا ہے۔ یہی نہیں کراچی جا کر جیل بھی کاٹی ہے۔ یہ سب سختیاں اپنی جگہ۔ صحافت مگر زندہ رہی۔ میں ان باتوں کا تذکرہ کم کم ہی کرتا ہوں۔ احباب کہتے ہیں‘ داستان حیات لکھو۔ مگر مجھے اس میں عجز و انکسار کا خون ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور کبر کی بو آتی ہے۔ بعد کے دور بھی کوئی آسان نہ تھے۔ میں نے جہاں کام کیا صحافت کو نوکری نہیں سمجھا۔ اس سے لطف اٹھایا ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ ہم سے پہلوں نے تو سخت آمریت کا دور دیکھا۔ قیام پاکستان کے بعدانگریز کے جانشینوں کی سختیاں جھیلی ہیں۔ یہ اس ملک کی تاریخ ہے اور کئی نسلیں اس تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔ میں بھی اور مجھ جیسے بہت سے اور اس سیل رواں میں بہتے ہوئے کنکر روڑے ہیں۔ یہ طوفان رکتا نہیں‘ سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ملک کا مقدر پھر اسی کی زرخیزی سے جنم لیتا ہے۔ شاید ایسا ہی ہے۔ ایسے میں چند لفظ میں نے اگر اس قصیدہ گوئی میں صرف کر دیئے ہیں تو اسے بھی احساس ذمہ داری کا نتیجہ سمجھئے۔ یہ اور کچھ نہیں ہے۔