20 نومبر2015ء کے دن تل ابیب نے سکھ کا سانس لیا جب امریکہ میں اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں تیس برس کی سزا کاٹ کر جوناتھن پولار ڈ جیل سے باہر آیا اس اسرائیلی ایجنٹ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جوناتھن پولارڈ 1987ء میں گرفتاری کے وقت انتیس برس کا ایک بھرپور جوان تھا اور جب وہ تیس برس بعد جیل سے باہر آیا تو اسکی ہڈیوں سے گوشت لٹکنے لگا تھا سر کے بڑے حصے سے بال غائب اورداڑھی کے بال مکمل طور پر سفید ہوچکے تھے یہ دو ’’دوست ‘‘ ممالک کے درمیان ایسا نزاعی معاملہ تھا جس نے اسرائیل کو عالمی سفارتی سطح پر سخت ہزیمت کا شکارکیا ،امریکہ میںیہودی کمیونٹی کے اثر ورسوخ کے باوجود اسرائیل اپنے جاسوس کو امریکی جیل سے رہا نہیں کروا سکا تھاجوناتھن کی رہائی کے لئے اسے پورے تیس برس انتظار کرنا پڑا جوناتھن پولارڈ امریکی بحریہ میں انٹیلی جنس تجزیہ کار تھا اس نے اسرائیل کوخفیہ دستاویزات فراہم کی تھیں ،پولارڈ 1979ء میں امریکی بحریہ میں بھرتی ہوا تھابلکہ یہ کہاجائے تو زیادہ درست ہو گا کہ اسے اسرائیل نے امریکی بحریہ میں بھرتی کرایا ملازمت کے کچھ ہی عرصے بعد پولارڈ نے خفیہ دستاویزات اسرائیل کو بھیجنا شروع کردیں یہ سلسلہ چھ برس 1985ء تک اسکی گرفتاری تک جاری رہا ،پولارڈ گرفتار ہوا توابتداء میںاسرائیل نے اسے اپنا جاسوس ماننے سے انکار کردیا لیکن 96ء میں اسی اسرائیل نے پولارڈ کو شہریت بھی دی اور یہ اعتراف بھی کیا کہ وہ ان کا ایجنٹ ہے، امریکہ اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کے باوجود پولارڈ کا تنازع کبابوں میں ہڈی اور اسرائیل کے لئے شرمندگی کا سبب بنا رہا تقریبا ایسی ہی صورت حال کا سامنا نئی دہلی کو بھی کلبھوشن جادھو کی گرفتاری کی صورت میں کرنا پڑا ہے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن کی پاکستان میں جاسوسی پر گرفتاری نے بھارت کی امن پسند کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ہندوستان پاکستان کے لئے بالخصوص اور دیگر پڑوسیوں کے لئے بالعموم چانکیہ کی سام(گفتگو) دھام (لالچ)ڈنڈ(سزا) اور بھید (بلیک میل ) کی پالیسی پر عمل پیرا ہے وہ پاکستان کو اندرونی معاملات میں الجھا کراسے دنیا سے الگ تھلگ کر دینا چاہتا ہے اس مقصد کے لئے کبھی وہ ایف اے ٹی ایف کا فورم استعمال کرتا ہے اور کبھی سکیورٹی کونسل میں واویلا مچاتا ہے اسے امریکہ اسکے حواریوںاوراسرائیل کی مکمل سپورٹ حاصل ہے کہ اسوقت امریکہ کا درد سراور ہدف چین ہے جسکی لائف لائن سی پیک پاکستان سے گزر رہی ہے وہ ہندوستان کی مددسے اس لائف لائن پر اپنا بھاری جوتا رکھناچاہتا ہے بحیرہ عرب میں چینی بحری جہاز اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے اس سارے کھیل میں امریکہ کے اپنے مقاصد ہیں اور بھارت کے اپنے لیکن گدھے کی کمر گدھا کھجاتا ہے کہ مصداق دونوں ہی ایک دوسرے کے کام آرہے ہیں اور افغانستان کی مثال ماسٹر جی کی خوشنودی کے لئے جاڑے کی دھوپ میںمٹھی چانپی کرنے والے خوشامدی طالب علم کی سی ہے اسے جو جو کہاجارہا ہے وہ ویسا ویسا ہی کررہا ہے اس خطے میں دو ایٹمی ملکوں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے دنیا لاعلم نہیں ہے اور لاتعلق بھی نہیں رہ سکتی ہے اس تناظر میں اگر افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل افتخار اسلام آباد میںچشم کشا شواہد کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اسے نظر انداز کیا جانا ممکن نہیں ،ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بار صرف ہندوستان اور افغانستان پر الزامات عائد نہیں کئے بلکہ ثبوت بھی سامنے رکھے ہیں ،انہوں نے بتایا ہے کہ گوادر کے پی سی ہوٹل سے لے کر کراچی کی اسٹاک ایکسچینج پر حملے تک مجرموں کے کھرے افغانستان میں واقع ہندوستانی قونصل خانوں تک پہنچاتے ہیں جو وہاں دہشت گردی کے 66ٹریننگ کیمپ چلا رہے ہیں ،2018ء میں بلوچ علیحدگی پسند اسلم عرف اچھو کی قندھار میں خودکش حملے میں ہلاکت کا آج تک کابل وضاحت نہیں دے سکا کہ بلوچ لبریشن آرمی کا یہ کمانڈر افغانستان میں کون سی نیکیاں کمارہاتھا ؟ میجر جنرل افتخار نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ پریس کانفرنس میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بھارت پاکستان میں اجرتی قاتلوں کی مدد سے ٹارگٹ کلنگ کروا رہاہے انہوں نے ٹارگٹ کلرز دہشت گردوں اور ان کے ہینڈلر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ بھی سنا دی ،انہوں نے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول کے تانے بانے بھی پڑوسی ملک میں جا کر ملتے تھے پی سی گوادر میں حملے کے کھرے بھی افغانستان میں موجود ہندوستانی قونصل خانوں کے روابط تک لے جاتے ہیں اس نیوز کانفرنس میں سب سے چونکا دینے والی بات گلگت بلتستان اور دیگر اہم شہروں میں نومبر کے بعد ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی کا انکشاف ہے فوجی ترجمان کی نیوز کانفرنس کو وہاں موجود ووزیر داخلہ کی بھرپور تائید حاصل تھی فوجی اور سیاسی نمائندوں کی مشترکہ نیوز کانفرنس ملکی دفاع کے لئے ریاست کی دو ہم قوتوں کے ایک پیج پر موجود ہونے کا بھی اظہا ر تھا،بھارت کی سازشی کوششوں کے سامنے اب فل اسٹاپ لگانے کا وقت آچکا ہے اور یہ کام محض ایک پریس کانفرنس سے تو ہونے سے رہااس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارت خود کانا ہے عالمی این جی اوز کی رپورٹیں اس کے خلاف ہیں،پھرمقبوضہ کشمیر،منی پور،ناگالینڈ ،پنجاب میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ڈھکی چھپی نہیں،انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے وہ دنیا کا بدترین ملک کا ایوارڈ لے چکا ہے اس کے باوجودوہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے جال میں پھنسانے کے لئے کیا کیا نہیں کررہا،پھرسلامتی کونسل میں اسکا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن وہاں بالی ووڈ سے لے کر نیوز چینلز تک ان سب کا بیانیہ ایک ہی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی نرسری ہے اس الزام کے جواب میں ان کے پاس کچھ نہیں جبکہ ہمارے پاس کل بھوشن کی صورت میں ناقابل ثبوت ہے پھر ہماری خارجہ پالیسی اتنی مدافعانہ کیوں ؟ دوسری جنگ عظیم کے بعددنیا میں صرف تین چار حاضر سروس فوجی افسر ہی کسی ملک میں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں ان میں ایک کل بھوشن بھی ہے ہمیں بھارت کے حوالے سے مدافعانہ نہیں جارحانہ خارجہ پالیسی ترتیب دینا ہوگی ،مسلسل مہم چلانا ہوگی ملکی اور انٹرنیشنل میڈیا کواس حوالے سے بریف اور مصروف کرناہوگاسفارتخانوں کو متحرک کرنا ہوگا لیکن پتہ نہیں یہ سب ہم کب کریں گے !!