بھارتی ریاست آسام کی بی جے پی حکومت تمام مدرسوں کو آئندہ پانچ ماہ کے اندر مکمل طور پربند کرنا چاہتی ہے ۔ اس سلسلے میں وہ جلد ہی قانون لانے والی ہے۔ آسام حکومت کاکہنا ہے کہ حکومت کا کام مذہبی تعلیم فراہم کرنا نہیں ہے۔آسام کے اقتدار پر قابو پانے والی بی جے پی حکومت کے ذریعہ پہلے سرکاری گرانٹ’’سالانہ امداد‘‘ سے چلنے والے مدرسوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اوراس اقدام کے بعد وہ ان تمام مدارس پر بھی بندش لگائے گی جو حکومتی گرانٹ نہیں لے رہے ۔آسام میں 6 سو سے زائد سرکاری مدرسوں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سازش کے تحت مدرسوں کو بند کرنا ان طلباء کے ساتھ نا انصافی ہو گی ۔ آسام میں دو طرح کے مدرسے ہیں۔ ایک سرکاری گرانٹ سے چلتے ہیں اور دوسرے نجی تنظیمیں چلاتی ہیں۔ آسام کے 614 مدارس حکومت آسام سے سالانہ گرانٹ لے رہے ہیں۔جبکہ ریاست میں تقریباً 900 پرائیویٹ مدرسے ہیں جو سرکاری گرانٹ نہیں لے رہے۔آسام میں دینی مدارس کی بندش اور ان کی بندش کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اگلے پانچ ماہ میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس لئے صاف ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ ووٹوں کو پولرائز کرنے کی کوشش ہے۔ بھارتی ریاست آسام کے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تادم تحریر ریاست کے کئی دینی مدارس کوبلڈوزرکے ذریعے سے گرا دیا جن میںکبائتری گاؤں میں واقع ’’ مرکز المعارف قرآنی‘‘ مدرسہ بھی شامل ہے ۔ مدرسے کی عمارت عالیشان تھی جو مضبوط مٹیرئل سے بنائی گئی تھی۔ اس مدرسے کی عمارت کھڑی کرنے سے قبل مٹی کی جانچ کرائی تھی اور تمام حکومتی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پنچایت کے نان آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی منظوری بھی حاصل کی تھی ۔اس مدرسے میں عربی تعلیم کے ساتھ ساتھ آسام بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے تحت آٹھویں جماعت تک بچوں کو کتابیں بھی فراہم جاتی تھیں، اورسائنس، انگریزی جیسے مضامین کے اساتذہ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں تھیں۔ مدرسہ’’ مرکز المعارف قرآنی‘‘ صرف اورصرف عوامی چندے سے بنایاگیا تھا۔مدرسہ مینجمنٹ کمیٹی کے اعداوشمار کے مطابق اس مدرسہ کی تعمیر میں تقریباً تین کروڑ روپے خرچ ہوئے اور یہ رقم اس گاؤں کے لوگوں سے چندہ کے طور پر ملی۔ یہ مدرسہ صرف گاؤں کے لوگوں کی مدد سے چل رہا تھا۔گاؤں کے لوگوں نے اپنے کھیتوں کی فصلیں خصوصی طور پرچاول کی فصل بیچ کر اس مدرسے کی تعمیر کے لیے پیسے دیے تھے۔چندہ اکٹھا کیا گیا اور اس مدرسے کی دو منزلہ عمارت بنوائی گئی تھی لیکن چند گھنٹوں میں سب کچھ تباہ ہو گیا۔ گاؤں کے لوگ مدرسے کے مسمار ہونے سے بہت غمگین ہیں، میں نے خود اس مدرسے میں پڑھا ہے۔ جس دن اسے گرایا گیا تویہاں کے لوگوں نے کھانا نہیں کھایا۔ مدرسہ کے منہدم ہونے کے بعد میں نے گاؤں کے بہت سے لوگ سے بات کی یہاں کا کوئی شخص کسی جہادی تنظیم کی حمایت نہیں کرتا بلکہ گاؤں کے لوگ جہادی سرگرمیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پولیس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی مدرسے کے ٹوٹنے سے غمزدہ ہے۔اسی طرح آسام کے ضلع پیٹاکے گاؤں جوشیہٹی پاڑہ میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ’’جامع الہدیٰ اسلامک اکیڈمی ‘‘کے نام سے ایک مدرسے کو منہدم کر دیا گیا ۔یہ مدرسہ تین سال سے چل رہا تھا۔ کئی دوسرے گاؤں کے بچے بھی یہاں پڑھتے تھے وہاں کے لوں کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے تھے کہ جرم کرنے والے کو سزا ملے لیکن مدرسہ گرا دیا گیا۔ ’’آل آسام مینارٹی سٹوڈنٹس یونین ‘‘کے صدر رضا الکریم واویلامچا رہے ہیں کہ آسام کے مدارس پر کی گئی کارروائی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔لیکن کون اس کی سنے گا اورکون دادرسی کرے گا۔کیونکہ آسام کے وزیر اعلیٰ تمام مدارس کو بند کرنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ مدارس کوخوف دلانے کے لئے مدارس کے انہدام کی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔آسام حکومت جلد ہی ایک سرکاری پورٹل قائم کرنے جا رہی ہے جس پر اماموں اور مدرسہ کے اساتذہ کو خود کو رجسٹر کرنا ہو گا۔آسام میں مدارس کی تاریخ آزادی سے پہلے کے دور کی ہے۔ لیکن بعد کے دنوں میں یہ الزامات لگائے گئے کہ دور دراز علاقوں کے کچھ مدارس جن میں باقاعدہ سکول نہیں ہیں، ان مدارس میں بچوں کو بنیاد پرست اسلام کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ آسام حکومت نے حال ہی میں ریاست میں چلنے والے تقریبا ً700 سرکاری مدارس کو عام سکولوں میں تبدیل کیا تھا لیکن اس وقت ریاست میں ایک ہزار سے زیادہ پرائیویٹ مدارس چل رہے ہیں، جن پر ریاستی حکومت جلد ہی ریگولیشن لانے پر غور کر رہی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کے تیار کردہ ناپاک منصوبے کے تحت آسام کے مدرسوں کو بندکیا جا رہا ہے۔آسام میں مدرسہ کا تعلیمی نظام بہت پرانا ہے اور انہیں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے کئی افراد آج بھارت کے مختلف حصوں میں اعلیٰ عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔کسی بھی تعلیمی ادارے کو بند کرنے کا مطلب طلبا ء کو نقصان پہنچانا ہے۔ اس طرح کے فیصلے طلباء کے مفاد کے لئے نہیں لئے جاتے بلکہ ان سب کے پیچھے سیاست کار فرما ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علاقائی سیاستدانوں کے لیے ہمیشہ ایسے ہی مسئلے ووٹ بٹورنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام حکومت کا تازہ فیصلہ سیاسی نفع ونقصان کو دھیان میں رکھ کر کیا گیا ہے، کیونکہ چند ماہ بعد ہی ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔خالص ہندو مسلم سیاست کے ذریعے ووٹروں کو اپنی طرف لانے کی کوشش کے تحت بی جے پی مدرسوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔