قارئین میں طے کر چکا تھا کہ میں آج ’’کوئی بات نہیں پاکستان‘ شاباش افغانستان‘‘ کے عنوان سے حالیہ منعقد کردہ ایشیا کپ کے بارے میں ایک کالم باندھوں گا لیکن یکدم ہر جانب سے خبریں آنے لگیں کہ پاکستان کی دنیا بھر میں بہت بدنامی ہو گئی ہے تو اس بندھے ہوئے کالم کو بھینسوں نے کھول دیا۔ حالانکہ عام حالات میں ہمارے دیہات میں جب کسی کی بھینسیں چوری ہو جاتی تھیں تو کہا جاتا تھا کہ فلاں کی بھینسیں کھل گئی ہیں اور یہاں بھینسوں نے بہ نفس نفیس‘ میرا بندھا ہوا کالم کھول دیا۔ یعنی میں کالم کا آغاز کرنے کو تھا کہ نیو یارک سے ایک مصور دوست کا فون آ گیا وہ کہنے لگا۔ تارڑ صاحب آپ نے یہ کیا ظلم کیا۔ آپ نے وزیر اعظم ہائوس کی معصوم بھینسوں کو وہاں سے نکال دیا۔ فروخت کر دیا۔ پہلے ان کا دودھ پینے والے کو خلائی مخلوق نے نکال دیا اور ابھی بھینسیں اس کی جدائی کے سوگ میں اداس اداس تھیں تو آپ لوگوں نے ان بے چاریوں کو بھی وزیر اعظم ہائوس سے نکال دیا۔ بھینسوں کی یہ فروخت یقینا پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ہیومن رائٹس ہوتے ہیں ایسے ہی بفلو رائٹس بھی ہوتے ہیں جن کی آپ نے خلاف ورزی کی ہے‘‘ اب میں تو حیران‘ جنگل بیابان پریشان کہ میرا یہ دوست بے وجہ مجھ پر چڑھائی کر رہا ہے تو میں نے ذرا غصے میں آ کر کہا: اوئے مصور۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تو بھینسوں کے بارے میں اتنا جذباتی واقع ہوا ہے۔ اب عمران خان کو کم از کم بھینس کے دودھ سے کچھ شغف نہیں ہے تو اس نے فروخت کر ڈالیں۔ اس میں میرا کیا قصور ہے’’تو مصور نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا’’ان بھینسوں کی فروخت سے دنیا بھر میں پاکستان کی بڑی بدنامی ہوئی ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ یو این او میں ان کی فروخت کے حوالے سے ایک قرار داد مذمت پاس کر دی جائے۔ بڑی بدنامی ہوئی ہے‘‘میں نے سوچا کہ شائد امریکہ میں اس لیے بدنامی ہوئی ہے کہ وہاں کے ایک مشہور شہر کا نام ’’بھینس‘‘ ہے یعنی ’’بفلو‘‘ ہے۔ مجھے یاد ہے میرا ایک قریبی دوست مشتاق بٹ جلال پور جٹاں سے نکل کر امریکہ شفٹ ہوا تو ’’بفلو‘‘ میں جا آباد ہوا اور ہم اس سے کہا کرتے تھے‘ مشاق جلال پور جٹاں چھوڑنا تھا تو امریکہ میں کسی کام کے شہر میں قیام کرتا وہاں بھی ’’بھینس کالونی‘‘ کا باشندہ ہو گیا۔ ابھی میں مصور کے احتجاجی فون سے سنبھلا نہ تھا کہ ٹورنٹو سے بھٹی صاحب کا فون آ گیا’’تارڑ صاحب آپ کا کیا خیال ہے کہ چند بھینسیں فروخت کرنے سے پاکستان کے بجٹ کا خسارہ پورا ہو جائے گا۔ یہ آپ نے کیا ظلم کمایا‘ بھینسیں بیچ دیں۔ ابھی پچھلے دنوں ہی تو آپ نے اپنے ایک کالم میں مارخور کی بجائے بھینس کو اپنا قومی جانور قرار دینے کی مہم چلائی تھی اور اب ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ بھینسوں کے ہمراہ ایک کٹا بھی تھا۔ اس معصوم کٹے کو بھی جانے کن قصابوں کے حوالے کر دیا۔ ویسے تارڑ صاحب آپس کی بات ہے کٹے کا گوشت بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ یاد رہے سردار سمیع نے اپنے فارم پر دعوت کی تھی تو ہمیں کٹا کھلایا تھا۔ اچھا آپ تو زبان و بیاںاور محاوروں پر بہت عبور رکھتے ہیں تو جب کہا جاتا ہے کہ کٹا کھل گیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ بھٹی صاحب کی عمر کے بارے میں میں یونہی کہا کرتا تھا کہ وہ غالب کے جنازے میں شریک ہوتے تھے۔ اگرچہ تب ایک چھوٹے سے بچے تھے تو وہ اکثر بہک بھی جاتے تھے اور کینیڈا کی تنہائی میں لگتا تھا کہ کچھ زیادہ ہی بہک گئے ہیں تو میں نے گزارش کی کہ بھٹی صاحب آخر بھینسوں کی فروخت سے آپ اتنے اپ سیٹ کیوں ہیں۔ کہنے لگے تارڑ صاحب قومی وقار کا سوال ہے۔ ان کی فروخت کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی بڑی بدنامی ہوئی ہے تو میں نے زچ ہو کر کہا’’بھٹی صاحب‘‘ آسٹریلیا ‘ امریکہ‘ بھارت‘ کمبوڈیا وغیرہ میں روزانہ لاکھوں بھینسیں فروخت ہوتی رہتی ہیں تو ان کی دنیا بھر میں بدنامی نہیں ہوتی۔ پاکستان میں چھ سات بھینسوں کی منڈی لگائی گئی تو ہماری بدنامی ہو گئی۔ کون نابالغ شخص یہ کہتا ہے ؟‘‘بھٹی صاحب کی آواز میں لکنت آ گئی کہنے لگے’’ جب سے یہاں آیا ہوں پاکستانی چینلز کو دیکھتا آ رہا ہوں تاکہ موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں باخبر رہ سکوں تو ایک تو مجھے لگتا ہے کہ ساری شکست خوردہ بلیاں‘ باگڑ بلے کے پیچھے پنجے جھاڑ کے پڑ گئی ہیں کہ ہائے ہائے چالیس دن ہو گئے ابھی تک تبدیلی کا برخوردار پیدا نہیں ہوا۔ بھلا کہیں چندے سے بھی ڈیم بنتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ دکھ انہیں وزیر اعظم ہائوس کی بھینسوں کے فروخت کئے جانے پر ہوا ہے۔ شائد یہ سامری کے بچھڑے کی مقدس پھوپھیاں تھیں۔ تو بلاول بھٹو نے بیان دیا ہے کہ ان بھینسوں کو فروخت کرنے سے دنیا بھر میں پاکستان کی بڑی بدنامی ہوئی ہے۔ بچہ خود بہت انٹرنیشنل ہے کہتا ہے تو سچ ہی کہتا ہو گا۔‘‘ ویسے بلاول نے قومی اسمبلی میں جو تقریر کی تھی اس کا قائل ہوں لیکن کیا اس زرداری نے زندگی بھر کسی بھینس کو قریب سے بھی دیکھا ہے یا اس کے تھنوں کو پسا کر (بھینس کے) دودھ کی دھاریں حلق میں اتاری ہوں۔ سبحان اللہ۔ نہ لندن اور دوبئی کی جائیدادیں۔ نہ فرانس کے قلعے اور سوئس اکائونٹ اور نہ ہی پاکستان کے ہر شہر میں بلاول ہائوس نہیں بلاول قلعے۔ ان سے تو کچھ بدنامی نہ ہوئی۔ چھ سات بھینسوں کی فروخت سے دنیا بھر میں پاکستان منی کی مانند بدنام ہوگیا۔ مختلف ٹی وی چینلز پر ان بھینسوں کے بارے میں اتنا واویلا کیا جا رہا ہے جیسے یہ ان کی ذاتی ملکیت تھیں۔ کوئی عزیز داری تھی۔ اب کھل گئی ہیں۔ میرے پڑھنے والے خوب جانتے ہیں کہ میں نے انسانوں کی نسبت پرندوں اور جانوروں سے زیادہ محبت کی ہے۔ اور بھینسوں کا تو ہمیشہ شیدائی رہا ہوں۔ میرا عزیز دوست غلام رسول جو پنجاب کی لینڈ سکیپ مصور کرنے میں کمال رکھتا تھا ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ تارڑ۔ تم ذرا نوٹ کرو پنجاب کو جتنے بھی مصور پینٹ کرتے ہیں وہ بھینسوں سے اجتناب کرتے ہیں کہ بھینس کو کینوس پر تصویر کرنا بہت مشکل ہے۔ صرف استاد اللہ بخش اس ہنر میں یکتا تھے اور ان کے بعد یہ ناچیز۔ اور واقعی یہ اونٹ نہیں یہ بھینس ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ اونٹ کی تصویر بنانا بہت آسان ہے ایک لمبی سی گردن بنا کر اس کے آخر میں دو موٹے ہونٹ بنا دیے اور اگر کسی نے اعتراض کیا کہ لمبی گردن اور موٹے ہونٹ تو زرافے کے بھی ہوتے ہیں تو کہا گیا کہ ذرا دیکھئے اس کے بدن پر دھاریاں نہیں ‘اونٹ ہے۔ جپسی مجھ سے ملنے کی خاطر پاکستان آئی تو میں اسے اندرون شہر لے گیا۔ رنگ محل چوک کے قریب سوہے بازار کی جانب سے بھینسوں کا ایک ریوڑ آیا تو وہ اتنی خوفزدہ ہوئی کہ چمٹ چمٹ گئی ۔کہنے لگی‘ تم نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ پاکستان میں جنگلی بھینسیں یوں کھلے عام پھرتی ہیں۔ بہرحال میں ان بھینسوں کا شکر گزار ہوا۔ میرے ابا جی بچپن میں دریائے چناب میں تیر کر اس جزیرے پر جاتے تھے جہاں میرے دادا جان اپنے مویشیوں کے ساتھ ڈیرہ ڈالے ہوتے تھے اور ان کا ناشتہ لے کر جاتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دریا پار کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ آپ پار جاتے کسی مویشی کی دم پکڑ لو لیکن کبھی بھینس کی دم نہ پکڑو کہ وہ یکدم ڈبکی مار کر پانیوں کے اندر چلی جاتی ہے۔ میرے پاس بھینسوں کی خصلت اور ان کے نفسیاتی مسائل کے حوالے سے نہائت نادر معلومات ہیں اور میں بتا نہیں سکتا کہ آخر بھینسوں کی آنکھوں میں اداسی کیوں ہوتی ہے۔ زندگی نے وفا کی تو میں کبھی نہ کبھی ایک ’’بھینس نامہ‘‘ لکھوں گا۔ اور آخر میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بھینس جو فروخت کر دی گئی ہمارا قومی سرمایہ تھی۔ ہمارے وزرائے اعظم ان کے آگے بین بجایا کرتے تھے انہیں ہر صورت واپس لایا جائے۔ پھر سے وزیر اعظم ہائوس میں سجایا جائے کہ وہ ایک ورک آف آرٹ تھیں اور ان سیاسی تجزیہ نگاروں کو جو ان کی فروخت کے غم میں نڈھال ہو رہے ہیں‘ان کا دودھ پلایا جائے۔ جاپان کی شعری سلطنت میں سب سے مقبول ہائیکو کی صنف ہے۔ ایک زمانے میں جیسے میں آج بھینسوں پر طبع آزمائی کر رہا ہوں اس صنف پر بھی یونہی طبع آزمائی کی تھی۔ مثلاً: کنول کا پتہ۔لرزش میں ایک مینڈک ابھی براجمان‘ تالاب میں کود گیا اور سب سے پسندیدہ ہائیکو کچھ یوں تھی گلی کی گیلی اینٹوں پر گوبر کے ڈھیر بھینسیں یہاں سے گزری ہیں