محترم حسین مجروح کی طرف سے ارسال کردہ سہ ماہی ’’سائبان‘‘کا تازہ شمارہ موصول ہواتو ایک ہی نشست میں آدھے سے زیادہ پڑھ ڈالا،سرورق سے لے کر طباعت تک اور پھر موضوعات کا تنوع اس قدر جاندار اور توجہ طلب ہے کہ مدیر کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔مجروح صاحب کی یہ بنیادی خوبی ہے کہ وہ جس کام کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں‘اس میں کتنے ہی مسائل کیوں نہ ہوں‘اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے ہیں۔سائبان سے قبل ’’ادبِ لطیف‘‘کی اشاعت اور سرکولیشن کو بڑھانے میں بھی مجروح صاحب نے جیسے دن رات کام کیا‘قابلِ توجہ بھی ہے اور قابلِ دادبھی۔جب سے سائبان تحریک اور سائبان ادبی بیٹھک کی بنیاد رکھی ہے‘اس کے پھیلائو اور ادیبوں کی فلاح کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔کتب پر تقاریب سے لے کر مشاعروں‘سیمینارز اور شخصیات کے ساتھ نشستوں تک،ادبی بیٹھک کی رونق پورے عروج پر ہے۔ فیصل آباد‘کراچی‘بہاول نگر‘بہاولپور‘رحیم یار خان سمیت درجن سے زائد شہروں میں اس ادبی و فلاحی تنظیم کی شاخین کھولی جا چکیں‘محترم حسین مجروح ہر ہفتے کسی نہ کسی شہر اور گائوں میں سائبان کا پرچم اٹھائے قلم کاروں کی کتب کی اشاعت اور ان کی بہبود کے لیے کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔سائبان تحریک کے تحت جہاں دیگر اہم ادبی کام جاری ہیں وہاںبنیادی نوعیت کا کام’’سائبان‘‘شمارہ ہے جو ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے‘پہلے دو شمارے بھی اپنے طور پر منفرد اور اہم تھے اور اب تیسرے شمارے کی اشاعت سے مجروح صاحب کی ادارتی صلاحیتیں مزید نکھر کر سامنے آئیں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اسے احباب کی طرف سے اہم کتب اور رسائل و جرائد موصول ہوتے رہتے ہیں‘کئی ایک پر کالم بھی لکھتا ہوں تاکہ اپنے قارئین کو بھی اچھی کتب‘رسائل اور مضامین سے متعارف کروا سکوں،سائبان کا انتخاب بھی اسی غرض سے کیا۔شمارے کا آغاز ڈاکٹر ریاض مجید اور علی محمد فرشی کی حمدیہ اور نعتیہ نظموں سے ہوتا ہے‘افسانوی حصے میں شامل خالد فتح محمد‘ڈاکٹر طاہرہ اقبال‘محمود قاضی اور آغا گل کے ادبی شہ پاروں نے اس رسالے کی اہمیت و روشنی کو دو چند کر دیاہے۔خالد فتح محمد اور طاہرہ اقبال نے اردو فکشن کی تاریخ و روایت کو معبتر بنانے میں انتہائی بنیادی کردار ادا کیا ‘شمارے میں شامل خالد فتح محمد کے افسانے ’دریائے درد کے پار‘ اور طاہرہ اقبال کے افسانے’نوکر بچہ‘نے انتہائی لطف دیا۔حضرت عرفان جاوید کی کہانی’گاماں مندریاں والا‘نے تو کمال کر دیا‘کچھ روز قبل ہی فاضل مصنف کی مشہور زمانہ تصنیف ’عجائب خانہ‘پڑھی ہے‘ابھی اس کے نقش تازہ تھے کہ ایک اور شاندار فن پارہ پڑھنے کو مل گیا۔عرفان جاوید کو جب جب پڑھا‘ان کے لئے دل سے دعا نکلی۔شمارے کا ایک اہم حصہ غزلوں کا ہے جس میں انور شعور‘خورشید رضوی‘شاہدہ حسن اور جلیل عالی سمیت کئی اہم قلم کار شامل ہیں۔احمد صفی کی تحریر’مصور رے برن اور اکبر الٰہ آبادی ‘انتہائی اہم ہے‘اکبرؔ نے مصور رے برن کی پینٹنگ سے متاثر ہو جو اشعار کہے تھے‘اس کی کہانی کیا ہے‘اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے۔یہ ایک تاریخی نوعیت کا مضمون ہے جو اکبر ؔکی دریافت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔عبد الرحمن چغتائی کے فن اور مینر ازم پر منور محی الدین کا مضمون بھی غیر معمولی ہے‘منور محی الدین بھی بنیادی طور پر مصور ہیں‘مصوری کی دنیا کو دریافت کرنے کے دوران انھیں جو بھی نایاب چیزیں میسر آتی ہیں‘اس پر نوٹ لکھ کر سائبان کو باقاعدگی سے بھجواتے ہیں۔اس شمارے میں محمد خالد اختر کے مکاتب مع حواشی بھی خاصے کی چیز ہیں۔کشور ناہید‘سرمد صہبائی‘پروین طاہر اور ناہید قمر کی نظمیں بھی کئی دفعہ پڑھیں‘ہر دفعہ نئی سرشاری سے دو چار ہوا۔پاکستان میں فنِ تعمیر کی روایت و ارتقاء پر معروف آرکیٹیکچر ڈاکٹر غافر شہزاد کا مضمون بار بار پڑھے جانے کے قابل ہے‘غافر صاحب نے آرکیٹیک کی دنیا میں بہت نیا کام کیا ہے‘کئی اہم کتب ان کے کریڈٹ پر ہیں۔مذکورہ شمارے میںظفر سپل کا جمالِ فلسفہ پر مضمون بھی اہم ہے۔ اس شمارے کا سب سے انتہائی غیر معمولی حصہ ممتاز مشرقیت دان اور نقاد ایڈورڈ سعید کا ایک یادگار مصاحبہ ہے جو شاید پہلی دفعہ اردو میں قارئین تک پہنچ رہا ہے۔یہ مصاحبہ گوری ویسواناتھن کے ساتھ ہے جسے امجد رئوف نے ترجمہ کیا ہے،یہ مصاحبہ ہمارے ادبی ناقدین کے لیے از حد ضروری ہے تاکہ ایک روشن دماغ نقاد کے تنقیدی مزاج سے متعارف ہو سکیں ۔ترجمے کا پورشن بھی انتہائی جاندار ہے‘اردو کے علاوہ علاقائی زبانوں کو جس طرح اس شمارے میں اہمیت دی گئی‘اس پر دادضروری ہے۔سندھی کہانی کو نور الہدیٰ شاہ‘پنجابی کہانی کوحمید رازی‘براہوی کہانی کو افضل مراد اور سرائیکی کہانی کو جاوید آصف نے ترجمہ کیا۔علاقائی زبانوں کے ترجمے سے اس شمارے کی اہمیت میں یقینا اضافہ ہوا کیونکہ پاکستان میں جہاں اردو انگریزی جنگ انتہائی تکلیف دہ ہے‘وہاں لسانی و علاقائی تعصب نے بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔مجروح صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اس لسانی کشمکش کو ختم کرنے اورتمام زبانوں کے ادیبوں کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ذاتی طور پر اس مجلے سے بہت کچھ سیکھا‘بہت اہم تحاریر‘شاعری اور افسانے اس مجلے کے توسط سے ملیں‘اس عنایت پر جنابِ مدیرکا ممنون ہوں۔ برادر عفیف طہٰ نے جس عرق ریزی سے اس رسالے کی اشاعت کے لیے کام کیا اور ادارتی ٹیم نے جیسے دن رات محنت کی‘سب کو داد اور امید ہے اردو کے قارئین کے لیے یہ شمارہ انتہائی غیر معمولی ثابت ہوگا۔ شمارے میں شامل ڈاکٹر خورشید رضوی کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں: اب سخن میں نہ علاقہ نہ قرینہ ٹھہرا زلزلے آئے تو چھت ٹھہری نہ زینہ ٹھہرا پار اترنے کے جو خواہاں تھے وہ غرقاب ہوئے نہ سمندر ہی تھما اور نہ سفینہ ٹھہرا سب پہ اک مہر فنا ثبت ہوئی آخر کار نام ٹھہرا نہ انگوٹھی پہ نگینہ ٹھہرا اب ضمیروں میں ندامت کی روش ختم ہوئی تھی ہوا تیز ،نہ ماتھوں پہ پسینہ ٹھہرا