ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے مگر وہ نین کہ تونے تھے جو نشیلے کئے ادھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگ ادھر خیال نے پنچھی تمام نیلے کئے ہمارے دوست غلام محمد قاصر نے کہا تھا آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے۔ اصل میں یہ نیلا پن آسمان کا ہو، سمندر کا ہو یا آنکھوں کا ،گہرائی ظاہر کرتا ہے اور وسعت بھی۔ آسمان کی وسعت پر چاند اور سورج تو جلوہ آرا ہوتے ہیں مگر ہمارے ستارے بہت اچھے لگتے ہیں کہ کبھی کبھی یہ ہماری آنکھوں سے بھی ٹوٹتے ہیں۔ قدرت نے تو انہیں آسمان کے چراغ بنایا ہے مگر یہ مقدس مقام کی حفاظت پر بھی مامور ہیں۔ جہاں تک ستاروں کی خوبصورتی کا تعلق ہے تو یہ ہمیں بچھڑ جانے والے دوستوں کی یاد بھی دلاتے ہیں۔ آج ہمارے دوست ڈاکٹر کبیر اطہر کی ایک پوسٹ پڑھی کہ جس میں انہوں نے اپنا مشاعرہ عدیم ہاشمی کے نام کیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کبیر خود بھی باکمال شاعر ہیں اور ان کا ہمارے دوست عدیم کو خراج تحسین پیش کرنا ہمیں اچھا لگا اور ہم عدیم کی یادوں میں کھو گئے کیا بانکا شاعر تھا جسے ایک غزل نے راتوں رات دنیائے اردو میں مشہور کر دیا تھا: سانحہ ایسا بھی ہو گا یہ کبھی سوچا نہ تھا سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا معلوم نہیں ان سے ہماری ملاقات کب ہوئی مگر مزاج کے اشتراک سے یوں لگا کہ ہم کب کے ایک دوسرے سے آشنا ہیں جب میں گیت لکھ رہا تھا تو ٹی وی والے کہتے عدیم ہاشمی کے بعد سعد ہی میں موزوں گیت نگار ملا ہے کہ میں ان کی فرمائش پر لکھ دیتا۔ ایک دن ٹی وی پر ہی عدم ہاشمی مجھے ملے تو کہنے لگے چلو میرے ساتھ تمہارے لئے ایک تحفہ رکھا ہوا ہے۔ تب میرے پاس موٹر سائیکل ہوتی تھی۔ ہم خالد شریف کے پاس ان کے ادارے ماورا پر پہنچے تو عدیم نے اپنا تازہ شعری مجموعہ ترکش محبت کے الفاظ لکھ کر تھما دیا۔ اس ترکش میں بہت تیر تھے جو ہمیں گھائل کرتے رہے۔ وہاں سے ہم نے فیصلہ کیا صدر جایا جائے کہ شہزاد احمد سے انہیں بہت محبت تھی۔ شہزاد احمد کے گھر ڈرائنگ روم میں عدیم کا بنایا ہوا شہزاد احمد کا پورٹریٹ آویزاں تھا جس کے نیچے شہزاد احمد کا ایک مصرع تھا۔ میں اس لئے ہوں کہ اک شخص دیکھتا ہے مجھے راستے میں عدیم نے کہا یار دہی بڑے کھاتے ہیں۔ ہم ریڑھی کے قریب رکے عدیم نے اس سے کہا یار ایک پیارے میں مرچ بالکل بھی نہیں ڈالنی میں نے مذاق سے کہا کہ ان کے حصے کی مرچیں میرے پیالے میں ڈال دو۔ اس نے ایسے ہی کیا مگر جب پیالے اس نے ہمیں تھمائے تو پیالے بدل گئے۔ عدم نے پہلا چمچ منہ میں ڈالا اور پھر اوہ اوہ اور سی سی کرتا ہوا اس بندے کو کوسنے لگا۔ پھر ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ کیا کمال کے دن تھے کیا کیا اس نے شعر کہا تھا کہ لکھنے بیٹھوں تو کالم کم پڑ جائے: تمام عمر کا ہے ساتھ آب و ماہی کا پڑے جو وقت تو پانی نہ جال میں آوے کہا مجھ کو بنایا ہے تو پھر یہ دوسرے کیوں ہیں جواب آیا تمہیں ان دوسروں سے پیار کرنا ہے اس نے کہا اوپر اٹھائیں نیلگوں آنکھیں عدیم وہ خلا کا رنگ سارا آسمانی کر گیا عدیم کاشعر میں نے قصداً لکھا کہ یہ نیلاہٹ شاید ہمارے شعرا کی قدر مشترک ہے ایک اور بات یاد آئی کہ جن دنوں عدیم زید ہسپتال میں تھے وہاں فاخرہ بتول بھی آئی ہوئی تھی۔ کچھ باتیں میں نے عدیم سے کہیں کہ وہ مخالفت میں بڑوں کو معاف کر دیں کہ وہ خود بڑے شاعر ہیں۔ اپنے سے چھوٹے کی نصیحت سن کر وہ مسکراتے رہے اور جب میں واپس آنے لگا تو بولے سعد کل پھر آنا کل پھر غیبتیں کریں گے۔ میں نے کہا آپ کی صحت کے لئے غیبت بھی کر لیں گے۔پھر ہم نے قہقہہ لگایا۔ تب انہوں نے اپنے سرہانے کے نیچے سے وہ شعری مجموعہ نکالا جسمیں انہوں نے اساتذہ کی زمینوں میں لاجواب غزلیں کہی تھیں‘ بڑی محبت سے مجھے عطا کیا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر ایک ہے میری انا ایک انا کس کی ہے کس نے دیوار اٹھا دی میری دیوار کے ساتھ اس نے کہا عدیم مرا ہاتھ تھامنا چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے عدیم ہاشمی بہت ہی اوریجنل شاعر تھے ۔ بیس پچیس سال تو باہر رہے۔ اپنے ہم عصروں میں وہ ممتاز رہے۔ انہوں نے آغوش سیریل بھی لکھا تھا جس میں ان کی مشہور غزل تھی: کٹ ہی گئی جدائی بھی یوں تو نہیں کہ مر گئے تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے عدیم ہاشمی حاضر جواب بھی بہت تھے اور شوخ بھی خود پر بھی ہنسنا جانتے تھے ان کے دو تین اشعار کے ساتھ کالم تمام کرتے ہیں: بچھڑ کے اس سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ اڑا دیے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے بہت نزدیک آتے جا رہے ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا دور سے جان لیا میں نے کہ گھر تیرا ہے بیلیں لپٹی ہوئی دیکھیں جہاں دیوار کے ساتھ اپنے پیارے دوست کے لئے ڈھیروں دعائیں کہ اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔ آمین ٭٭٭٭٭