بولے تو لفظ باعث الزام ہو گئے ہم چپ رہے تو اور بھی بدنام ہو گئے تھی تندوتیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سرشام ہو گئے زندگی حادثات سے تو عبارت ہے۔ ویسے حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ کہ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔ سب یوسف رضا گیلانی کی جیت کو ایک بڑا اپ سیٹ کہہ رہے ہیں آپ ذرا سا غور کریں تو یہ ہرگز اپ سیٹ نہیں کہ پرورش لوح و قلم کسی نے کی ہے۔ سینٹ کے الیکشن برپا ہونے سے پہلے جو اپ سیٹ تھا یعنی جس طرح سے خان صاحب اپ سیٹ نظر آ رہے تھے اس سے بہت کچھ عیاں ہو رہا تھا ۔آپ خان صاحب کو اتنے بے نیاز اور لاپرواہ نہ سمجھیں وہ بہت کچھ جان گئے تھے۔ انہوں نے پی ڈی ایم کے ترجمان کا بالائی رابطہ پسند نہیں کیا تھا۔ اگرچہ نفسیاتی سطح پر حکومت نے کھیل اچھا کھیلا مگر ان کا صدارتی ریفرنس کہ کھلے عام ووٹنگ ہو اور شفافیت پر زور سب کچھ واضح کر رہا تھا کہ دال میں کالا ہے یہ تو سیاست دان ہیں۔ ہمیں توکسی محبوب کا یقین نہیں: وہ مجھ کو چھوڑگیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے تو خان اب یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ کچھ بے ضمیر لوگ آپ کو دغا دے گئے اصل میں وہ آپ کے تھے ہی نہیں وہ برے وقت کے لئے آپ کے ساتھ تھے۔ وہ بے ضمیر نہیں بلکہ ان کے ضمیر کی ساخت ہی ایسی ہے۔خان صاحب اس میں آپ کا واقعتاً کوئی قصور نہیں۔ دیکھیے یوسف رضا گیلانی کوئی اچھا کردار نہیں رکھتے‘ یہ سب کو معلوم ہے ۔ موجودہ صورتحال میں ایسا ہی شخص آئیڈیل لگتا ہے۔ بلکہ یوسف رضا گیلانی ہی نہیں ان کے ساتھ زرداری کی نیک نامی بھی تھی۔ کریلا اور نیم چڑھا۔یہ صلاحیت صرف زرداری میں پائی جاتی ہے کہ کون کتنے میں بکے گا ۔ میرا خیال ہے اتنی خوشی تو گیلانی کو وزیر اعظم بننے کی نہیں ہوئی تھی جتنی سینیٹر بننے کی ہوئی ہے کہ اصل میں انہوں نے ایک وزیر اعظم کو شکست دی۔ پیپلز پارٹی والے تو زرداری کے لئے شعر پڑھیں گے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا آپ زرداری صاحب کا اعتقاد تو دیکھیں کہ رزلٹ سے پہلے کسی نے امید کا پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہمیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ کرم کرے گا۔ ان کا ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ وہ صدقہ بھی دیتے ہیں۔ وہ وعدے کو بھی قرآن و حدیث نہیں کہتے۔ بہرحال اس وقت حکومت کے حمایتی کھمبے نوچ رہے ہیں۔ مگر کام ہو چکا۔دوسری بات یہ ہے کہ کچھ پی ٹی آئی ارکان وعدوں کے پورا نہ ہونے کے باعث بھی ناراض تھے تیسرا فیکٹر سب سے زیادہ اہم وہ سرائیکی فیکٹر۔ یہ لسانی رابطے رشتہ داریوں میں بھی ڈھلے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود سرائیکی صوبہ تو یوسف رضا گیلانی بھی وعدے کے باوجود نہیں بنا سکے۔ سپریم کورٹ کا مشورہ بھی دیر سے آیا اور الیکشن کمشن اس پر عمل اتنی جلدی کیسے کرتا۔اصل میں جب برا وقت آتا ہے تو ہر طرف سے چیزیں غلط ملط ہو جاتی ہیں پھر یہ کہ برا وقت تنہا نہیں آتا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ یعنی ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کیا کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا بدقسمتی دیکھیں کہ اللہ کو جان دینے والے اور جھوٹی قسمیں اٹھانے والے شہر یار آفریدی نے اپنے ہاتھ سے اپنا ووٹ ضائع کر لیا۔اس نے علی حیدر گیلانی کے سکھائے ہوئے طریقہ پر نہیں بلکہ بیلٹ پیپر پر اپنے دستخط کر دیے۔ عمران خاں اس پر بھی بہت برہم ہوئے کہ یہ کسر باقی رہ گئی تھی۔ بہرحال سندھ میں اس خوشی پر 3روز کا جشن منایا جا رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے جسد خاکی میں جان پڑ گئی ہے بلکہ پی ڈی ایم جو کہ مرجھا چکی تھی دوبارہ سرسبز ہو گئی ہے۔ بہار ان کو راس آ گئی ہے مگر یہ گل زرداری نے کھلائے ہیں۔ فرخ حبیب نے عجیب بات کہی کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی ثابت کرتی ہے کہ اپوزیشن کرپٹ نظام چاہتی ہے۔اب بتائیے اس سے زیادہ فضول بات کیا ہو گی کہ جناب نظام تو موجود ہے جس نے عمران خان کو بھی اپنی راہ پر چلنے نہیں دیا ۔ اسی نظام نے ثابت کر دیا کہ آپ کا مینڈیٹ آپ کا مینڈیٹ نہیں تھا۔ ہائے ہائے عدم ہاشمی کہاں کہاں یاد آتا ہے: سانحہ ایسا بھی ہو گا یہ کبھی سوچا نہ تھا سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا ویسے یہ جو کہا جاتا ہے کہ وفاداریاں بیچنے والے بے وفا لوگ۔ دیکھیے وفا اگر کوئی چیز ہے تو پھر یہ بک بھی سکتی ہے ویسے بکنے کے بعد بکنے والا شخص خریدنے والے کے لئے تو وفادار ہوتا ہے،جب تک کہ کوئی اور اس کی وفا سے متاثر ہو کر زیادہ قیمت نہ لگا دے۔بہرحال جفا بری چیز مگر شاعر تو محبوب کی جفا پر بھی مر مٹتے ہیں۔ یہ وفا اور جفا تو بے معنی چیزیں ہیں اصل میں ’’ہوا‘‘ ہے جو دراصل ہماری خواہش: ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے اب عمران خان صاحب اعتماد کا ووٹ لینے جا رہے ہیں مگر اپوزیشن والے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت نے خود سینٹ کے الیکشن کو معیاربنایا اور آخری وقت تک اس مقابلے کو حکومت بمقابلہ اپوزیشن بنائے رکھا اب اپوزیشن جیت گئی ہے تو ان کے پاس اپنے منصب پر بیٹھنے کا جواز نہیں۔ حکومت کے اس استدلال پر کہ ووٹ چوری ہوئے اور خریدے گئے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اب اعتماد کے ووٹ کے لئے خزانے کا منہ ایک مرتبہ پھر کھولا جائے گا۔دوسرا وہ حکومتی مشینری پریشر کے لئے استعمال کریں گے۔ عوام کو حفیظ شیخ زہر لگتا ہے ایک بات عارف نظامی نے بھی کی ہے کہ یہ عمران کی شکست اور زرداری کی فتح ہے۔ ویسے ایک مرتبہ زرداری کے باعث عمران فتح یاب بھی ہو چکے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس گیدڑ سنگھی کا علم نہیں جو زرداری کے پاس مگر وہ اس لیاقت کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی فضیلت کے قائل ہیں۔ ایک بات ذھن میں ضرور رکھیں پیپلز پارٹی مین سٹریم یعنی قومی دھارے میں پھر سے آ رہی ہے۔باری کسی کو بھی مل سکتی ہے اس پر زیادہ نہ سوچیے ایک شعر اور اجازت یہ شعر فرخ محمود کا ہے: باہر کی آندھیاں تو لرزتی رہیں مگر اپنا چراغ اپنی ہوا نے بجھا دیا