ایم کیو ایم کا کارندہ زبیر چڑیا کارخانے کے ویئر ہائوس میں آگ لگا چکا تھا۔ اس کے ساتھ آئے پانچ اور مشکوک آدمیوں نے بھی آگ لگانے میں اس کا ساتھ دیا۔ ان میں سے تین بلوچ دکھائی دیتے تھے اور باقی دو سندھی۔ آگ لگانے کے بعد زبیر چڑیا نے ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج حماد صدیقی کو اپنے مذموم مشن میں کامیابی کی نوید سنائی اور کہا کہ آپ کے حکم کے مطابق 25کروڑ کا بھتہ نہ دینے والے اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔ آگ سے ویئر ہائوس میں موجود سامان جلنے لگا عینی شاہد ارشد کا کہنا ہے کہ اس لمحے اس نے اپنے 25,20ساتھیوں کو بتایا کہ ویئر ہائوس میں آگ لگ چکی ہے۔ اگر اسے وہیں پر ہی نہ بجھا دیا گیا تو یہ دوسرے تیسرے فلور تک پہنچ جائے گی۔ یہ فلور ورکروں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس روز چونکہ تنخواہ ملنی تھی سو‘ کارخانے میں ورکروں کی حاضری معمول سے زیادہ تھی۔ ارشد کا کہنا ہے کہ ہم بیس پچیس ساتھیوں نے اپنی سی کوشش کی کہ آگ ویئر ہائوس میں ہی بجھ جائے اس دوران آگ لگانے والا ایم کیو ایم کا کارندہ فیکٹری کیفے ٹیریا میں کھڑا ہماری بے بسی پر قہقہے لگاتا رہا۔ آگ اب ویئر ہائوس سے پھیلتی ہوئی فیکٹری کے دوسرے فلور تک پہنچ رہی تھی جہاں ورکروں کی ایک بڑی تعداد تنخواہ ملنے کے انتظار میں موجود تھی۔ جس روز تنخواہ ملتی، ورکر معمول سے زیادہ خوش نظر آتے۔ ان کے تھکن آلود چہروں پر اطمینان اور خوشی تھی کہ آج پیسے لے کر گھر جائیں گے۔ کچھ پکا کر کھائیں گے مہینے کی آخری تاریخوں میں تو باورچی خانے میں بس روکھی سوکھی ہی دستیاب ہوتی ہے۔ وہ سب آنے والی قیامت سے بے خبر تنخواہ سے جڑی ہوئی ضرورتوں اور خرچوں کا حساب کتاب کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ جب بھڑکتی ہوئی آگ اس فلور پر پہنچی تو آگ سے بچنے اور جان بچانے کی فکر میں‘ ہرکوئی ایگزٹ ڈور کی طرف بھاگا۔ ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ آگ آگ کی آوازیں۔ فلور کو بھرنے لگیں۔ ایگزٹ کے دروازوں کو بھاگتے ہوئے ورکروں کو وہاں سب دروازے بند ملے۔ وہ تمام دروازے جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ایسی کئی منزلہ عمارتوںمیں رکھے جاتے ہیں تاکہ آگ لگنے یا کسی دوسری ایمرجنسی کی صورت میں کثیر المنزلہ عمارت میں موجود مکینوں کو بحفاظت باہر نکلنے کا راستہ مل سکے۔ علی انٹرپرائز چونکہ اپنا مال ایکسپورٹ کرتی تھی تو یہاں انٹرنیشنل اور ایمرجنسی نیشنل لیبر قوانین کے مطابق‘ ورکروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ایگزٹ ڈور یعنی باہر نکلنے کے دروازے خصوصی طور پر رکھے گئے تھے۔ لیکن اس روز یہ عجیب واقعہ ہوا کہ آگ کے بھڑکتے شعلوںسے اپنی جان بچانے کے لئے دیوانہ وار ایگزٹ ڈور کی طرف بھاگتے ورکروں کو ہر ایمرجنسی دروازہ بند ملا۔ گویا یہ ان کی موت کا پروانہ تھا۔ پیچھے بھڑکتے شعلے۔ آگے بند دروازے۔ ایک قیامت کا سماں تھا۔ یوں لگتا تھا جس قیامت کا آسمانی کتابوں میں ذکر ہے۔ آج وہی قیامت بپا ہو گئی ہے۔ لیکن یہ کیا کہ جزا اور سزا سے پہلے وہ زندہ اس بھڑکتے ہوئے جہنم میں جل رہے تھے۔11ستمبر 2012ء کو رات آٹھ بجے تک پاکستان کے تمام ٹی وی چینلوں پر صرف بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں آگ لگنے کی خبر چل رہی تھی۔ الیکٹرانک میڈیا کی لائیو کوریج جاری تھی۔ متاثرین کے لواحقین اس انہونی پر دھائیاں دے رہے۔ امید کی ایک رمق دل میں باقی تھی شاید ان کا پیارا آگ کے اس جہنم سے معجزاتی طور پر زندہ سلامت باہر نکل آئے۔ پورے کراچی کے فائر بریگیڈ علی انٹرپرائز کے آگ میں لپٹے کارخانے پر موجود تھے۔ آگ بجھانے کی حتی المقدور کوششیں جاری تھیں۔رات گئے تک صرف بائیس افراد کے آگ میں جھلس کر مرنے کی خبر پر ٹی وی چینل جاری تھی۔ اس وقت تک اسے حادثاتی طور پر لگنے والی آگ قرار دیا جا رہا تھا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ ایم کیو ایم کا ہی ایک کارندہ عشرت العباد گورنر کے عہدے پر تھا۔ عشرت العباد نے باقاعدہ انتہائی افسوسناک لہجے میں متاثرین بلدیہ ٹائون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے ساتھ ہر تعاون کوتیار ہیں۔دوسری طرف سو سے زائد ریسکیو ورکر آگ میں جلنے والوں کی زندگیاں بچانے کے لئے اپنی زندگیاں دائو پر لگائے ہوئے 24گھنٹے آگ بجھانے کے عمل میں مصروف رہے۔ اس عمل کے دوران کارخانے کی بیرونی دیوار توڑ کر آگ کو بجھایا گیا لیکن اس وقت تک کتنی ہی قیمتی زندگیوں کے چراغ بجھ چکے تھے۔ مرنے والوں کے لواحقین جلے پائوں کی بلی کی طرح ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کے مردہ خانہ میں اپنے پیاروں کو تلاش کرتے پھرتے تھے اور خوب صورت چہروں والے زندگی سے بھر پور ان کے پیارے انہیں ایسی ناقابل یقین حالتوں میں ملتے کہ جیسے جلی ہوئی‘ کوئلہ بنی گھڑیاں پڑی ہوں۔کتنے ہی ورکر ایسے بھی تھے جو تیسرے فلور پر دھواں بھر جانے کے باعث دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے۔ ان کے لواحقین اس دوہرے کرب سے بچ جو راکھ میں خدوخال تلاش کرنے والوں کو سہنی پڑی۔تمام رات ٹی وی چینلز کی خصوصی نشریات بلدیہ ٹائون کے سانحے پر تازہ اپ ڈیٹ دیتی رہیں۔ صبح کے قریب اندازہ ہو چکا تھا کہ جان سے جانے والوں کی تعداد بیسوں میں نہیں‘ سینکڑوں میں ہے۔ کراچی کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ مردہ خانوں سے آنے والی اطلاعات کے مطابق دو سو ساٹھ کے قریب فیکٹری ورکر جل کر اور دم گھٹ کر ہلاک ہو چکے تھے۔ کچھ بدقسمت ایسے بھی جو اپنی جان بچانے کے لئے تیسری منزل کی کھڑکیوں سے کودے تو جان سے چلے گئے۔ایک قیامت تھی جو برپا ہوئی اور خاندانوں کے خاندان اجڑ گئے۔ بے بسی‘ رنج و غم اور کرب کی تصویر بنے مرنے والوں کے لواحقین کے چہروں پر غربت اور معاشی بدحالی کی کئی داستانیں تحریر تھیں۔ اور اتنے برس گزرنے کے بعد بھی ان کے کرب کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ستم ظریفی دیکھیے کہ آگ لگانے والوں نے ہی شہر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ مرنے والے لواحقین کے لئے مردہ خانوں ہسپتالوں کے باہر ٹینٹ لگائے۔ ایم کیو ایم کے تمام دفتروں پر سیاہ پرچم تین روز تک لہراتے رہے اور ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے غمگین اداکاری کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے رندھے ہوئے لہجے میں شفاف تحقیقات اور ذمہ داروں کو بلا تاخیرسزا دینے کا مطالبہ کر دیا۔ عقیل عباس جعفری نے کیا اچھی تصویر کشی کی ہے ؎ پہلے میرے گھر کے اندر مجھ کو قتل کریں اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد پہلے شہر کو آگ لگائیں نامعلوم افراد اور پھر امن کے نغمے گائیں نامعلوم افراد