پرندوں کی طرح چہکتے اور پھولوں کی طرح نرم و نازک بچوں کی نفسیات کسی آبگینے کی مانند ہوتی ہے۔ منفی تاثر‘ کھردرے الفاظ‘ کانٹوں سے بھرے جملے۔ تشدد سے لبریز منظر‘ اس آبگینے پر دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ سب غیر محسوس انداز میں ہوتا رہتا ہے کہ تاوقتیکہ یہ دراڑیں بچوں کی اپنی شخصیت میں، مزاج کا اتار چڑھائو ‘ جذباتی عدم توازن اور تشدد سے لبریز رویوں کی صورت میں جھکنے لگتے ہیں۔ پوری دنیا میں چائلڈ سائیکالوجی اب ایک اہم موضوع ہے، خصوصاً وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں بچوں کو حقیقت میں قوم کا مستقبل سمجھا جاتا ہے۔ وہاں ان کی نفسیات کی حفاظت بھی کسی آبگینے کی طرح کی جاتی ہے۔ بچوں سے کس لہجے میں بات کرنی چاہیے۔ کیسے مناسب الفاظ کا چنائو کرنا چاہیے۔ مختلف عمروں کے بچوں کے ساتھ اساتذہ اور والدین کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ ان کی تربیت کرتے وقت کون سے dosاینڈ dontsہیں۔ کیسے ٹی وی پروگرام انہیں دیکھنے چاہیں۔ کیسی ویڈیو گیمز سے بچوں کو دور رکھنا چاہیے۔ کیونکہ کارٹونز اور ویڈیو گیمز میں دکھایا جانے والا تشدد بھی بچوں کے ذہن اور احساسات کو آلودہ کرتا ہے ۔virtual violenceاور اس کے اثرات پر بڑی ریسرچ ہوئی اور اس پرمقالے لکھے گئے اور اس کے پیچھے مقصد وہی کہ بچوں کے ذہن اور ان کی نفسیات کو کیسے تشدد کی آلودگی سے بچا کر پروان چڑھایا جائے۔ ہم اپنی زندگیوں پر نگاہ ڈالیں تو ہم خود بھی کوشش یہی کرتے ہیں کہ مسائل اور پریشانیوں کو اپنے بچوں پر ظاہر نہ کریں۔ مبادا کہ وہ پریشان ہو جائیں۔ آپس کی رنجشیں اور برائیاں بھی بچوں سے چھپا کر ہی لڑ لیں ایسا نہ ہو کہ ان کے معصوم ذہن اس سے گرد آلود ہوکر مثبت سوچ سے محروم ہو جائیں اقبال عظیم کا ایک لازوال شعر یاد آتا ہے: بھیک مانگو بھی تو بچوں سے چھپا کر مانگو تم بھکاری ہو کہیں ان کو بتا مت دینا کیا گہرائی ہے اس شعر میں اور کیا احساس ہے کہ معصوم بچوں کو خبر نہ ہونے پائے سب کچھ اپنی ذات پر جھیل لو۔ اور یادکریں کہ ہمارے والدین بھی تو اپنے مسائل پریشانیاں اور الجھنیں ہم سے چھپا کر رکھتے تھے۔ بچوں کے لئے باپ کسی پیرہن سے کم نہیں ہوتا ۔ بچے نے کھلونا مانگا‘ باپ کی جیب خالی ہے تو کس خوبصورت طریقے سے اپنے بچے کو ٹالے گا۔ اپنی آنکھوں کی نمی ہتھیلی سے پونچھے گا اور کھلونا نہ لے کر دینے کا کوئی اچھا سا بہانہ بنا کر بچے کو ٹال دے گا۔ یوں مسائل کی آنچ بچوں کے معصوم احساس تک پہنچنے نہیں دے گا۔ گھر کی اس بار مکمل میں تلاشی لوں گا غم چھپا کر میرے ماں باپ کہاں رکھتے ہیں شاعر کا نام معلوم نہیں لیکن شعر کمال کا ہے۔ پورا تھیسس ہے اس میں کہ تہذیب یافتہ معاشروں میں کھردری حقیقتیں جھلستی دھوپ کے منظر بچوں سے ذرا چھپا کر رکھے جاتے ہیں اس لئے کہ بچپن پر کسی کڑی دھوپ کا سایہ نہ پڑے۔ کالم کی اس ساری تمہید کا مقصد سانحہ ساہیوال میں بدقسمتی سے بچ جانے والے تین معصوم بچوں کے کرب کو بیان کرنا ہے جن کے والدین اور ایک بہن کو ریاست کے دہشت گردوں نے سیدھی گولیاں مار کر قتل کر ڈالا۔ یہ قیامت خیز منظر بارہ سے تین سال کے معصوم بچوں نے صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اپنی روحوں پر جھیلا ہے اسے۔ بارہ برس کا بھائی اور دو اس کی معصوم بہنیں۔ جن کے کپڑے اپنے ماما بابا کے لہو کے چھینٹوں سے سرخ تھے۔ انہوں نے یہ سب منظر دیکھا کہ کیسے ان کے بے گناہ باپ نے ریاستی دہشت گردوں کی منتیں کیں کہ ہم سے پیسے لے لو مگر ہمیں جان سے مت مارو۔ بچے نے اس سانحے کے فوراً بعد انتہائی خوف زدہ حالت میں روتے ہوئے اپنے بابا کی آخری التجا کے الفاظ کو میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیان کیا۔ کون اہل دل ہو گا جو ان بچوں کو دیکھ کر تڑپا نہ ہو گا۔ 3چار برس کی دو معصوم بچیاں جن کے ہاتھوں میں ان کے فیڈر تھے اور چہروں پر مقتل میں دیکھے گئے منظر کی وحشت درج تھی، پورا ملک ان ناحق قتل کے خلاف چیخ اٹھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے قطر سے ٹویٹ کر کے اہل وطن کو یقین دلایا تھاکہ ان کی ریاست مدینہ میں ان بچوں کے قاتلوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ تجزیہ کاروں نے اس سانحے کو عمران خان کی تبدیلی حکومت کے لئے ایک ٹیسٹ کیس قرار دیا۔ پنجاب کی اعلیٰ صوبائی حکومتی مشینری نے بھی وزیر اعظم کی آواز میں آواز ملائی۔ بچوں کو انصاف دیا جائے گا۔گزشتہ روز اس بہیمانہ قتل کا فیصلہ آ گیا۔ قاتلوں کو ایک ہنستے بستے خاندان کو سرراہ بے دردی سے قتل کرنے کے ہولناک جرم سے پاک قرار دے کر انہیں بری کر دیا گیا۔ یہ سچائی انصاف اور دیانت کی موت ہے۔ اب اس سے زیادہ انسان اور کیا ہے کہ مجھے اس فیصلے سے اس ریاست کا شہری ہونے پر شرمندگی ہے۔ ایسے نظام پر ہزار تف جہاں قانون کی گھمن گھیریاں قاتلوں کو صاف بچ جانے کے راستے دکھاتی ہیں۔ جہاں معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور بڑی بہن کو بے گناہ بے وجہ ‘بے دردی سے قتل کر دیا جائے اور ریاست ان معصوم بچوں کو انصاف دے کر ان کے زخموں میں مرہم نہ رکھ سکے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ ان بچوں کے ساتھ وہ ظلم ہوا ہے کہ انصاف کے تقاضے اگر پورے ہو بھی جائیں تو بھی ریاست اور قانون کی چھتری کے نیچے جو ظلم ان کے ساتھ ہوا اس کا ازالہ کسی طور ممکن نہیں۔ کیا میں اور آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قیامت کا جو ان معصوم بچوں کی ننھی زندگیوں کو روند کر گزر گئی اور گزری بھی کہاں ہے ،قیامت تو ان معصوموں کی زندگی میں آئی ہے۔ نہ ماں کی گودمیسر نہ باپ کا کاندھا اور پھر اپنے ماما بابا کو تڑ تڑ گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھنا والدین کا نزع کی سسکیوں میں اپنے معصوم بچوں کی طرف نگاہ کرنا ان کے سامنے دم توڑ دینا کیا ایسے منظر ہیں کہ جنہیں یہ بچے کبھی بھول سکیں گے۔کوئی چائلڈ سائیکالوجسٹ بتائے گا کہ اگر ورچوئل وائلنس سے بچوں کی نفسیات پر اثر پڑتا ہے تو اس قسم کے رئیل لائف وائلنس سے بچوں کی معصوم نفسیات کا آبگینہ کیسے کرچی کرچی ہوتا ہے۔ یہ تینوں بچپن کی دہلیز پر اپنی زندگی کا سب سے بڑادکھ اور ظلم سہنے والے جب کل بڑے ہوں گے تو ان کے دل میں ریاست اور اس کی عدالتوں کے خلاف کیسے جذبات ہوں گے؟؟ ان کے رویوں میں جذباتی عدم توازن کی شدت کیا ہو گی؟: مرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں ترے سلوک نے لہجہ مرا بدل ڈالا