سانحہ مری جہاں پوری قوم کو افسردہ اور بے چین کر گیا، وہیں ہمارے نظامِ حکومت اور انتظامی مشنری پر کئی سوالات اْٹھا گیا۔ یہ کوئی پہلا ایسا سانحہ نہیں جو اس ملک میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ جس میں درجنوں جانوں کا ضیاع ہوا۔دلخراش مناظر بھی دیکھے گئے۔ مگر کمال یہ ہے کہ ہم نے کسی واقعہ سے نہ کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی منصوبہ بندی یا بروقت اقدامات اْٹھائے۔ اس قسم کے معاملات میں بڑا مشکل ہے کہ کسی ایک حکومت، کسی ایک ادارہ یا کسی خاص طبقہ فکر پر ذمّہ داری ڈالی جائے،جب کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو۔ ابھی کچھ روز قبل راقم نے معاشرہ کی تیزی سے گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کا ایک کالم میں ذکر کیا جسکی بڑی پذیرائی ہوئی اور حالیہ سانحہ مری حکومت کے علاوہ مقامی افراد کی بے حسی، لالچ، خود غرضی اور انسانی اقدار کی پامالی معاشرہ کی بھیانک تصویر کشی کر رہی ہے۔ گزشتہ صرف چند سال میں ہونے والے واقعات جو یاد رہ گئے جب اْن پر نظر پڑتی ہے تو یہ کربناک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ معاملہ خواہ ٹرین کے پے در پے حادثات کا ہو، مختلف عمارتوں میں آگ لگنے کا، ٹریفک حادثات کا، موٹروے زیادتی کیس کا ہو، یا حالیہ سانحہ مری سبھی واقعات میں ایک خاص قسم کی غفلت، منصوبہ بندی کا فقدان، جدید سہولتوں کی کمیابی یا عدم دستیابی، انتظامیہ کی بے حسی اور نا اہلی اور حکومت وقت کی عدم دلچسپی نمایاں وجوہات نظر آتی ہیں۔ ہمارے پاس تو شاید ڈھنگ کی کوئی مشنری بھی نہیں ہے جو سڑکوں سے برف صاف کر سکے اس کے باوجود ہمیں اپنے ایٹمی طاقت ہونے پر ناز ہے۔ ہم نے گزشتہ کچھ سال میں یہ منظر بھی دیکھا کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں ایل۔ڈی۔اے پلازہ میں آگ لگی ہے اور لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے کئی کئی منزلہ عمارتوں سے نیچے کود رہے تھے اور نیچے لوگ چادروں اور کمبلوں کے ذریعے اْنہیں وصول کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اتنے بڑے شہر میں گھنٹوں تک اس اندوہناک واقعہ میں لوگوں کو بچانے کے لیے کوئی مشینری دستیاب نہیں تھی حتٰی کہ نیچے فوم یا گدّے بھی نہ بچھائے جا سکے اور لوگوں کو انتہائی اذیت میں مرنے دیا گیا تو اسے انتظامی ناکامی نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے۔ تقریباً دو سال قبل بہاولپور کے قریب آئل ٹینکر پھٹنے سے قریبی دیہات کے لوگ تیل جمع کرنے کے لالچ میںمیں جل کر مر گئے۔ کیا جب یہ آئل ٹینکر لیک ہونا شروع ہوا تو مقامی انتظامیہ، پولیس، ہائی وے پولیس یا کسی دیگر ادارے نے کوئی حفاظتی انتظامات اْٹھائے۔ جواب نفی میں ہے۔ اْسی علاقہ میں گزشتہ سال چلتی ٹرین میں لوگوں کو گیس سلنڈر پر ناشتہ تیار کرنے دیا گیا، آگ لگی اور چلتی ٹرین میں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ کیا کسی ریلوے افسر یا ریلوے پولیس اہلکار نے یہ سلنڈ رلوگوں کو گاڑیوں میں لے جاتے یا اْن پر ناشتہ یا چائے وغیرہ بناتے نہ دیکھا تھا۔ کیا حالیہ سانحہ مری میں کسی انتظامی یا پولیس افسر نے تقریباً چوبیس گھنٹے تک اس بات کا تعیّن کیا کہ مری میں گنجائش صرف چار پانچ ہزار گاڑیوں کی ہے اور وہاں ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں داخل ہو چکی اور سخت برفانی طوفان کی پیش گوئی بھی موجود تھی۔ پھر یہ سبھی محکمے کہاں سوئے رہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں باتوں اور دعوؤں میں ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے ہیں مگر عملی طور پر ہم ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اخلاقی طور پر بھی اور ٹیکنالوجی میں بھی۔ آج تک اس ملک میں جتنے بھی بڑے بڑے حادثات ہوئے ہیں اْن کے بعد حکومت نے کئی انکوائری کمیشن بٹھائے جس طرح اب بھی ہو اہے۔ مگر ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی واقعہ/ حادثہ یا سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ شاید ہم سبق سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ ہم نے اپنے ملک میں ایسا کوئی سسٹم تیار ہی نہیں ہونے دیا جو کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کے لیے موجود ہو۔ صورتحال کی سنگینی سے نبردآزما ہونے کی بجائے ہماری سویلین حکومتیں فوج کو طلب کر لیتی ہیں جس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارے سویلین سیٹ اپ میں اس طرح کے سانحات اور واقعات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور استعداد ہی مفقود ہے۔ شاید اس کی اہم وجہ ہماری اخلاقی گراوٹ ہے۔ عوام کی بے حسی ہے، جہالت ہے، لالچ ہے، نمائش ہے، انتظامی نا کامی ہے۔ حکومتی نااہلی ہے جس میں سب شامل ہیں۔ اخلاقی طور پر ہم اتنا گر چکے ہیں کہ برف میں پھنسی ہوئی گاڑیوں کو دھکّا لگانے کے بھی ریٹ مقرر تھے۔ ہوٹل کے کمرے راتوں رات اتنے مہنگے کر دیے گئے کہ لوگوں نے سخت برف باری میں رات گاڑیوں میں گزارنی مناسب سمجھی اور کئی جان سے گئے۔ کیا ہمارا معاشرہ ریاکاری، خودغرضی، اور لالچ میں تمام حدیں پار کر چکا ہے۔ یہ سوالیہ نشان ہے اور اس کا حل شاید کوئی نظر نہیں آ رہا ہے۔ جہاں تک اس طرح کے سانحات اور خصوصاً سانحہ مری میں انتظامی ناکامی کا تعلق ہے تو ہمارے خیال میں اس ایک سانحہ کو الگ سے نہ دیکھا جائے بلکہ مجموعی طور پر اس کا تجزیہ کیا جائے۔ کیا ہماری سول سروس اور بیوروکریسی مکمل طور پر سیاست کی نذر ہو چکی ہے؟۔ کیا یہ وہی سول سروس ہے جو آج سے تیس چالیس سال پہلے تھی جس پر لوگ فخر کیا کرتے تھے۔ کیا اس طرح کا سانحہ صرف ڈپٹی کمشنر بلکہ اسسٹنٹ کمشنر اور کسی DSP کے بروقت اقدامات سے ٹل نہیں جاتے تھے۔ آج یہ سارے افسران کہاں تھے۔ انتظامیہ کا بروقت روبہ عمل نہ آنا اور ہر طرح کے حکم کا وزیراعظم ہاؤس یا چیف منسٹر آفس سے انتظار کرنا۔ کیا ہمارا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر مفلوج نہیںہو چکا ؟اور کسی اْمید کی رمق بھی باقی نہیں رہی۔ یہ سوال قار ئین کی نذر کرتے ہوئے بات ختم کرتے ہیں۔