کیا یہ عارضی لہرہے کہ کشمیر‘ کشمیر اور ہر زبان پر بیان کا عنوان کشمیر ہے؟ یا ایک مستقل درد لادوا جو ایک طویل عرصے سے ملت اسلامیہ کو کس کروٹ چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا؟ ہر اخبار‘ ہر چینل ‘ ہر دانشور ہر جذباتی نوجوان اور ہر محب وطن عمر رسیدہ کشمیر کے فکر میں گم ہے۔ کشمیر کا قضیہ برصغیر ہی نہیں عالم اسلام اور صرف عالم اسلام ہی نہیں پوری دنیا کے سیاسی مزاج کو برہم کئے ہوئے ہے۔ بظاہر تو بھارت اور بھارت کے مسلم دشمن نیتا کشمیر میں انسانیت کو اپنی درندگی کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں لیکن فی الحقیقت دنیائے کفر کا خفیہ اتحاد مسلمانان عالم کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کا ایک مورچہ کشمیر پر اپنی ستم رانی کی مشق کر رہا ہے۔ عالم کفر نے ہمیشہ ہی منافقین کو اپنا آلہ کار بنا کر ملت اسلامیہ میں اندرونی افتراق کو تیز ترکرنے کا حربہ استعمال کیا ہے۔ بات بھی پرانی ہے اور حربہ بھی مجرب اور قدیم ہے۔ سلسلہ و ظلم تو عالم اسلام کے چاروں کونوں کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے، ہمارے سیاسی زعما مذہبی رہنما اور ہمارے اہل قلم و زبان اسی احاطہ ظلم و ستم کی جکڑ بندی میں اپنے مزعومہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی سپاہ جارح پر گفتگو کرنے کی بجائے اپنی مفلوک الحالی کو مالی سکون سے شاداب کرنے کے لئے تنقید برائے تنقید اور محض طنزیہ جملے بازی سے اپنی غلامانہ دانش کا نرخ بڑھانے کا موقع غنیمت جان کر داخلی طور پر علم و شعور سے وابستہ پاکستانیوں کو مسئلہ کشمیر پر الجھانے کا نیا اور انوکھا انداز اختیار کیا ہے۔ کشمیر پر درندگی سے لبریز جارحیت پوری دنیائے انسانیت کامنہ چڑا رہی ہے لیکن حقوق انسانی پر شور اٹھانے والی عالمی طاقتیں ‘ اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں اسلامی ممالک کو آنکھیں دکھانے والی بدمست کافر ریاستیں آنکھیں موندھ کر زبان سی کر گونگے شیطان کی نیابت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، ان کافرانہ ابلیسی طاقتوں کا یہ مستقل وطیرہ ہے کہ جب بھی کسی خطہ دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم ہوتا ہے تو یہ لوگ اپنی شیطانی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اولاً خاموش ہوتے ہیں پھر جب شہر تارا ج ہو چکے ہوتے ہیں۔ عزتیں بربادی کا لقمہ بن چکی ہوتی ہیں۔ جوانوں کے لاشے قوم کو ضعیف کر چکے ہوتے ہیں اور شیر خوار نونہال آخری لوری سن کر عدم آباد میں گھر کر لیتے ہیں تو پھر اقوام متحدہ کا امن مشن طبی امداد کا قافلہ سفید جھنڈے لہرا کر حسب توفیق اپنی منافقانہ انسان دوستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے مسلمانوں کے ایمان کو اچکنے کے لئے آن وارد ہوتا ہے۔ کشمیر کو آج تیرہواں روز ہے کہ وہ سفاک ‘ بے درد اور گرگان ِھنود کے حصار میں ہے ،انسانوں کی رسائی سے دور اس بستی میں ظلم و جور کا ہر انداز اپنایا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں بولتا، کہیں دور دنیا کے کسی ناصح کی آواز سنائی دیتی ہے کہ بھارت اور پاکستان تحمل سے کام لیں۔ بھارت کا تحمل یہ ہے کہ وہ پوری قوت سے ظلم کرتا رہے، اس کے لیڈر‘ فوج ‘ عوام‘ مسلم دشمنی میں انسانیت کی حدوں سے باہر ہو جائیں اور مسلمانوں کا یا پاکستانیوں کا تحمل یہ ہو کہ وہ اپنی مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کی برسر بازار رسوائی کو قیام امن کے تحفظ کی خاطر برداشت کرتے چلے جائیں۔ ہتھیار اٹھانا تو کجا زبان سے بھی شکوہ نہ کریں۔ اگر شکوہ کریں تو عالمی پریس جس پر یہودیوں کا مکارانہ اور ابلیسانہ قبضہ ہے‘ وہ شور مچاتے کہ مسلمان دنیا کا امن غارت کر رہے ہیں ان کی زبان ‘ ان کا کردار‘ ان کی نقل و حرکت سب کی سب دہشت گردی کی علامت ہے۔ واقعات ‘ شہادات اور مسلسل جابرانہ کارروائیوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ درندہ صفت یہودی‘ ہندی گرگ کی پشت پناہی کر رہا ہے اور پوری دنیا سے آزادی و حریت کی مسلمان تحریکوں کو کچلنے کے لئے وہ منظم سیاسی اور عسکری قوت کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ جو اسلحہ فروش ہیں۔ جائزہ لے رہے ہیں کہ مسلمانوں کے جذبات کے سمندر کا مدوجزرکیا ہے؟ اب وہ کتنی قوت پیدا کر چکے ہیں جو ان کو منظم جہاد پر آمادہ کرے؟اسلحہ فروش ترقی پذیر ممالک کی قدرتی زمین نعمتوں کاقذاق گروہ مختلف بین الاقوامی سیاسی تنظیموں کی شکل میں مسئلہ کشمیر کو اپنی مفاداتی خوردبین کے ذریعے سے دیکھ رہا ہے۔ بالکل سچی مگر تلخ بات وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی کہ کسی کے بھروسے پر مت رہو۔ وہ لوگ جن کی تقدس مآبیاں ہمارے سہاروں کا عنوان ہیں جو امت سے چکرا کر اور تقدس مآب چہروں سے گھبرا کر ادا کرتا ہے اور عوام جاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ خطیب بے زور ملوکیت کے اندھے عصا سے اوندھے منہ گرا ہے کوئی آواز اب کسی مقدس ‘ متبرک مقام سے حوصلے کی نہیں ابھر رہی ہے۔ خدا کے گھر میں تالے، نمازوں پر پابندی صوت اذان کو بلند کرنے کی سزا کوری لاٹھیاں‘ حق بات کہنے پر زبان گدی سے کھینچنے کی دھمکیاں روز کشمیری سن رہے ہیں ،ان کی مذہبی آزادی ان کی ثقافتی حرمت اور ان کی معاشی حیثیت کو بدکردار ہندو قیادت نے ظلم کی انی پر چڑھا دیا ہے۔ بھارت میں نئی مساجد کی تعمیر پر پابندی ہے۔ جنوبی میں جہاں جہاں اقلیتی ہیں اور بالخصوص مسلمان اقلیت کو اندر باہر‘ گھر بازار تک میں مذہبی قید کا سامنا ہے۔ مسلمان کھلے میدان میں عید بقر عید کی نماز کا اہتمام کرتے ہیں۔ سخت پابندی لگا دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی کھلے میدان میں اپنی مذہبی رسومات ادا نہیں کر سکتے مساجد بنانے نہیں دیتے۔ باہر عبادت کرنے نہیں دیتے ؎ نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے گھٹ کے مر جائوں‘ یہ مرضی میرے صیاد کی ہے بھارت کا ظلم عیاں ہے، کہ ہر جگہ سے مسلمانوں کو نابود کردیا جائے لیکن ان منافقین کا علاج کیا ہے جو ع ذیاب ’’فی شباب‘‘ لب کلمہ دل میں گستاخی بھول جائیں افتراق پسند قلم باز اور دھن کے پجاری اینکرز یا سیاسی دوکان کے روایتی آڑھتی کہ ان کا مکرو فریب ہی کشمیر کے مسئلے کو باوزن کرے گا ہرگز ہرگز نہیں ‘ چراغ آخر شب ٹمٹما کر رہے ہیں ۔ افق سے سورج کی طلوع فرمائی کی تیاری ہے، فطرت مظلوموں کی داد رسی لئے اپنے قوانین کا اجرا کر دیں گے۔