افغانستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ، تربیت گاہ اور مالی اور اسلحہ کی کمک کا مرکز بن گیا۔ صوبے کا غالب حصہ شورش کی زد میں آگیا۔دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد موت کے گھاٹ اُتارے جانے لگے ۔ اسی طرح سرکاری ملازمین خواہ تعلق تعلیمی اداروں سے ہو ، ہسپتالوں سے ہو ، پولیس۔لیویز ،ایف سی اور فوجی اہلکاروں کو بالخصوص نشانے پر لیا ۔صحافیوں کی جان لی ،سیاسی و قبائلی لوگوں پر حملے ہوئے ۔بلوچستان ہائی کورٹ کے جج ،جسٹس نواز مری شہید ہوئے۔کوئٹہ میں صوبائی وزیر تعلیم شفیق احمد خان کا گھر کے سامنے ہدفی شہید ہوا۔ نواب ثناء اللہ زہری کے بیٹے سمیت خاندان کے افراد کو بم حملے میں شہید کیا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر صفدر کیانی اور شعبہ ابلاغات کی خاتون پروفیسر ناظمہ طالب، لائبریری سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر خورشید انصاری سمیت کئی پروفیسر اور دوسرے اساتذہ شہید ہوئے۔نشانہ بننے کے خوف سے جامعہ بلوچستان اور دیگر تعلیمی اداروں کے غیر مقامی اساتذہ سمیت کئی دیگر شعبوں کے ماہرین صوبہ چھوڑ کر چلے گئے۔ سرکاری تنصیبات کو تباہ کیا جاتا، بجلی کی مین ٹرانسمیشن لائنیں ، گیس پائپ لائنیں اڑائی جاتی ہیں، ریلوے ٹریک اور ریل گاڑیوں پر بھاری اسلحہ سے حملے ہوتے ۔قومی شاہراہوں پر بسیں روک کر مقامی و غیر مقامی افراد کو اتار کر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد شہید کردیا جاتا ۔ لوگ اغواء ہوتے بدلے میں تاوان طلب کیا جاتا۔ سرمایہ داروں اور تاجروں سے بھتے لئے جاتے۔ تعمیراتی منصوبوں کوخاص طور پر ہدف بنایا گیا ، تعمیراتی کمپنیوں کے ماہرین اور مزدور قتل کئے جاتے ۔حتیٰ کہ آغاز میں صنعتی شہرحب اور گوادر میں چینی انجینئرز قتل ہوئے۔ غیر قانونی طور پر ایران جاتے ہوئے دوسرے صوبے کے نوجوانوں اور افغان باشندوں کو بسوں سے اتار کر بے دردی سے قتل کیا۔کالعدم مذہبی تنظیموں نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھایا ، صوبے کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئیں۔ عدلیہ ، پولیس اور لیویز کا پورا نظام ان کے سامنے بے بس ہوگیا ۔ آرمی ، آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ہاتھ ڈالاتو رفتہ رفتہ یہ تنظیمیں پیچھے ہٹتی گئیں۔ نتیجتاً حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ یقینا اس وقت بلوچستان میں ان تنظیموں کی عملیات پہلے جیسی نہ رہی ہیں ۔ البتہ وقتاً فوقتاً کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد گرفتار ہوتے ہیں تو انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ان کی اپنی بنائی ہوئی تنظیمیں جبری گمشدگیوں کا شور بلند کردیتی ہیں۔ ایک عمومی مشاہدہ یہ بھی ہے کہ اکثر جنگجوئوں کی گمشدگی کی ابتدائی رپورٹ متعلقہ تھانوں میں درج کرائی جاتی ہے ۔ جب کسی آپریشن کے نتیجے میں گرفتاری ہوتی ہے یا لاپتہ کردیا جاتا ہے تو ان تنظیموں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلاں بے گناہ ہے جس کی گمشدگی کی رپورٹ پہلے ہی تھانے میں درج کرائی جاچکی ہے۔ البتہ یہ تنظیمیں اپنے لوگوں کا جھڑپ میں مارا جانا تسلیم بھی کرتی ہیں۔ اپنے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہیں۔ بی ایل اے کا کمانڈر اسلم اچھو انتہائی مطلوب شخص تھا۔ اس نے فدائی حملوں کی اسٹرٹیجی اپنائی ، سب سے پہلے اپنے نوجوان بیٹے کو منتخب کیا ۔ جس نے اگست2018ء میں دالبندین میں چینی انجینئرز کی بس پر خودکش حملہ کیا۔چینی قونصل خانے، گوادر میں پی سی ہوٹل جیسے واقعات نے چین اور پاکستان کو مشکل میں ڈال دیا۔ یہ کمانڈردسمبر2019ء میں کندھار میں بم دھماکے میں چند دوسرے بلوچ کمانڈروں کے ساتھ ہلاک ہوا ۔ اس بات میں شک نہیں کہ ان تنظیموں جس میں اب پی ٹی ایم کا اضافہ کرایا جا چکا ہے کو پوری کمک افغانستان سے ہورہی ہے اور راہ نما بھارت ہی ہے۔ ان تنظیموں اور بنگلہ دیش کی عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی سیاسی پروپیگنڈے،جنگی اصول و طریقہ کار اور ابلاغ میں گہری مماثلت ہے۔ (ختم شد)