حکومت سندھ نے حالیہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے وفاق سے مشاورت کے بعد کراچی سمیت سندھ بھر کے بازاروں کو رات نو بجے اور شادی ہالوں کو رات گیارہ بجے بند کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ بجلی اور بجٹ کے بعد پیدا ہونے والی مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ مہنگائی کو اس طرح کنٹرول کرنا توبالکل ایسے ہے جیسے کبھی امیر لوگ برگر بچوں کے ساتھ ایک جیسے کپڑے پہن کر واک Walk کرکے ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سندھ کا بڑا مسئلہ یہ ہے ہمیں ایک سائیں کے بعد دوسرے سائیں کی حکومت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قائم علی شاہ گیا اور مراد علی شاہ آیا۔ مگر صوبے کی صحت پر کیا اثر پڑا؟ اس سوال کا جواب پوری پیپلز پارٹی کے پاس نہیں ہے۔ کیوںکہ پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ اس قسم کے امپورٹیڈ فیصلے کہاں سے آتے ہیں؟ ایسے فیصلے کون کرتا ہے؟ ایسے فیصلے جو نمود کے لیے نہیں بلکہ نمائش کے لیے ہوا کرتے ہیں۔ کیا رات کو نو بجے بازار بند کرنے سے لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ ہوجائے گا؟ کیا اس فیصلے سے مہنگائی کا بوجھ کم ہوجائے گا؟ کیا بازار کھلنے سے مہنگائی بڑھتی ہے اوربند ہونے سے مہنگائی کم ہوجائے گی؟ حکومت سندھ کس کو بیوقوف بنا رہی ہے؟ ہم سندھ میں ہیں اور ہم کو معلوم ہے کہ سندھ کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ تو وہاں بستا ہے جہاں بازار ہیں ہی نہیں۔ جہاں بازار نہیں وہ کھلیں گی کیسے؟ اور جہاں بازار کھلے گا ہی نہیں وہاں بند کیسے ہوگا۔ بند ہونے کے لیے کھلنا تو بنیادی شرط ہے ۔ سندھ اکیسیوں صدی میں بھی ایک دیہی صوبہ ہے۔ سندھ کی آبادی کا بڑا حصہ آج بھی ان دیہاتوں میں بستا ہے جہاں بازار تو بازار بلکہ وہاں پر تو بجلی بھی نہیں ہے۔ اس لیے وہاں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔ لوڈ شیڈنگ کے لیے بجلی کا ہونا اشد ضروری ہے۔ سندھ حکومت کو اپنے ان دیہاتی لوگوں کا مشکور ہونا چاہیے جو بجلی استعمال نہیں کرتے۔ وہ لوگ صدیوں سے اندھیروں میں بستے ہیں۔ وہ لوگ اندھیروں کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس لیے وہ لوگ ملک کی بجلی کے بحران میں شریک نہیں۔ وہ لوگ جو چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں بستے ہیں۔ وہ لوگ وہاں جنم لیتے ہیں اور وہاں مر جاتے ہیں۔ مگر جب تک زندہ ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ملک کے زرعی شعبے میں مدد کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگ بوجھ بڑھانے والے نہیں بلکہ بوجھ گھٹانے والے ہیں۔ ان لوگوں کی وجہ سے ممالک زرعی اجناس ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک میں ڈالر آتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی ڈالر ہاتھ میں لینا تو کیا آنکھوں سے دیکھے بھی نہیں ہے۔ وہ صبر اور شکر کرنے والے لوگ اکثریت میں ہیں۔ اس لیے کرپٹ حکومتیں چلتی رہتی ہیں۔ اگر وہ لوگ چین یا ویتنام کی طرح انقلابی راستے پر آگئے تو ہمارے چور حکمرانوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ملے گا۔ مگر وہ پرامن اور سب کا بھلا سب کی خیر مانگے والے لوگ ہیں۔ وہ لوگ حکومت پر کوئی تنقید نہیں کرتے۔ وہ حکومت کی مخالفت نہیں کرتے۔ وہ تو صرف اور صرف مدد کرتے ہیں۔ مسکرا کر ملتے ہیں۔ اشارے پر ووٹ دیتے ہیں۔ بریانی کی تھیلی مانگے بغیر ہاتھ جوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ سندھ کے ان معصوم لوگوں کے لیے حالیہ بجٹ میں کیا ہے؟ اگر زرداری سرکار کے پاس انہیں مالی طور پر دینے کے لیے کچھ نہیں تھا تو کم از کم کوئی جھوٹا موٹا وعدہ ہی کردیتے۔ گاؤں تک سڑک بنانے کا۔ گاؤں کے نزدیک سکول کھولنے کا۔ قریبی ہسپتال قائم کرنے کا۔ مگر حکومت زرداری نے ان کے ساتھ کوئی بھی وعدہ نہیں کیا۔ انہیں کوئی بھی آسرا نہیں دیا۔ ان کے لیے کچھ نہیں کہا گیا۔ گذشتہ روز جب مہنگائی اور بجلی کے بحران پر کنٹرول کرنے کے لیے حیر ت انگیز فیصلے ہوئے تو بھی ان فیصلوں کا ان لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ کیوں کہ ان لوگوں کا ان فیصلوں سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں۔ اگر ان لوگوں تک حکومت کے تازہ فیصلوں کی تفصیل پہنچ جائے تو ان کے لیے وہ معلومات ایسے اثر کا باعث بنے گی جیسے اثر زخم پر نمک کرتا ہے؟ سندھ کی سرزمین کے بارے میں بہت ساری باتیں ہوتی رہتی ہیں مگر یہ بات ہم سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ سندھ صرف اس اجرک کا نام نہیں جو مخصوص موقع پر ہمارے حکمران اپنے شانوں پر سجا کر آتے ہیں۔ سندھ صرف میٹھی زبان کا نام نہیں ہے۔ سندھ صرف پیروں اور فقیروں کی دھرتی نہیں ہے۔ سندھ اس ظلم اور ستم کی تصویر ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ کیوں کہ آج بھی تھر میں معصوم بچے مر رہے ہیں اور آج بھی تھر میں مائیں بہت ساری بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کی اکثر بیماریوں کا سبب بھوک ہے۔ بھوک کے حوالے سے ہم نوجوان نسل کے پسندیدہ شاعر جون ایلیا کے اس شعر کا حوالہ دینے کے بات اپنی بات آگے بڑھائیں گے: ’’یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت کی پروردہ یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی‘‘ مگر حسن کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ خوبصورتی کا بیان بھوک کے باب میں کس طرح کیا جائے۔ ہم کس طرح بتائیں؟ ہم اپنے حکمرانوں کو کس طرح سمجھائیں؟ ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں: ’’سائیں! آپ کی سرکار تاقیامت قائم ہو مگر سوال صرف اتنا ہے کہ تھر میں بچوں کو صحت اور ماؤں کا کھانا کب ملے گا؟ آپ بجلی کی بچت چاہتے ہیں؟ آپ کی چاہت اچھی ہے۔ بھلے چاہیں۔ مگر برا نہ مانیں تو آپ سے صرف اتنا سوال کیا جائے کہ آخر تھر کے بچوں کو خوراک اور صحت کا حق کب ملے گا؟ تھر جہاں نہ بازار ہیں اور نہ شادی ہال کہ جن کو بند کروانے کے لیے پولیس کو تکلیف اٹھانا ہوگی۔ وہ لوگ تو قریبی شہر سے صرف گندم لاتے ہیں اور روکھی سوکھی کھاکر سوجاتے ہیں۔ سندھ کی سائیں سرکار سے یہ سوال پوچھنے کا ہمیں حق ہے کہ ان لوگوں کے لیے آپ کے مناسب اور متوازن بجٹ میں کیا ہے؟ وہ لوگ جو شہروں میں نہیں بستے۔ وہ لوگ جو دور پہاڑوں میں بستے ہیں۔ وہ لوگ کو تھر کی صحرا میں سسکتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے بھی تو آپ نے کچھ فیصلے کیے ہونگے؟ اگر کیے ہیں تو ان کو پردہ راز میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگ جن کے ووٹ لیکر آپ جمہوریت کا کھیل پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے آپ نے کچھ تو فیصلے کیے ہونگے۔ اگر آپ کو وہ لوگ یاد رہتے تو آپ شاید ایک آدھ فیصلہ ان کے لیے بھی کرتے۔ مگر غریب کس کو یاد ہے؟ اس لیے سندھ کے بجٹ میں ان لوگوں کے لیے کوئی اعلان نہیں جو صدیوں سے صحراؤں اور پہاڑوں میں بستے ہیں۔ ان لوگوں کو ہمارے حکمران یاد کیوں کریں؟ وہ لوگ نہ جلسہ کرتے ہیں۔ نہ جلوس نکالتے ہیں۔ نہ دھرنا دیتے ہیں۔ وہ لوگ خاموشی سے پیدا ہوتے ہیں۔ خاموشی سے جیتے ہیں اور خاموشی سے مر جاتے ہیں۔ ان لوگوں تک اگر ان کی عوامی زبان میں حکومت سندھ کے حالیہ فیصلوں کی معمولی سی بات بھی پہنچائی جائے اور ان کو اگر بتایا جائے کہ آپ کی حکومت نے بازاروں کو رات نو بجے اور شادی ہالوں کو رات گیارہ بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ شاید ایسا سوال سننے کے بعد وہ لوگ اتنا ہی کہہ پائیں کہ ’’سائیں! اگر آپ کے پاس مرہم نہیں ہے تو کم ازکم ہمارے زخموں پر نمک تو مت چھڑکیں۔‘‘