ساہیوال میں کائونٹر ٹیررازم والوں کو مصدقہ اطلاع ملی کہ دہشت گرد یہاں سے گزرنے والے ہیں۔ ایک چھوٹی سی کار میں ایک خاندان کے چھ سات دہشت گرد مٹھائی اور کپڑوں کے ہتھیار چھپا کر بھاگے جا رہے تھے۔ سی ٹی ڈی کے بہادر جوانوں نے اپنا ڈالا اس ننھی منی سی کار کے سامنے کھڑا کیا۔ کچھ شیر جوانوں نے گاڑی کے فرنٹ اور سائیڈ شیشوں پر اپنے جدید ہتھیاروں سے برسٹ مارا۔ یہ ہتھیار سرکار نے انہیں عوام کا پیٹ کاٹ کر فراہم کئے ہیں۔ آج انہوںنے ان ہتھیاروں سے عوام کا پیٹ کاٹ دیا۔ گاڑی میں سوار ایک شخص کہتاہے جو مرضی لے لو ہمیں معاف کر دو مگر سب بے سود۔ گولیاں چلتی رہیں۔ ڈرائیور‘ خاندان کا سربراہ‘ اس کی بیوی‘14سالہ بیٹی مر گئے۔ سی ٹی ڈی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت لی۔ ایک آٹھ سات سال کا بچہ اور دو فیڈر تھامے دہشت گرد بچیاں زندہ پکڑے گئے۔ سی ٹی ڈی والے ترقیوں اور تمغوں کے خواب دیکھتے‘ شادیانے بجاتے چلے گئے۔ پھر خیال آیا تو بچوں کو ایک پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا۔ کچھ دیر بعد بچوں کو اٹھایا اور ہسپتال میں پھینک کر نکل گئے۔ گزشتہ دنوں نیکٹا کے ایک سینئر افسر عمر اختر لالیکا نے کائونٹر ٹیررازم اہلکاروں کی تربیت اور فرض شناسی کی تعریفیں کر کے مجھے خاصا متاثر کیا تھا ۔ سانحہ ساہیوال کے بعد مجھے لگا کہ ہم شہریوں کا تو کوئی محافظ ہی نہیں۔ ہم جتنا دہشت گردوں کا نشانہ ہیں اتنا ہی ہماری پولیس اور اس جیسی دوسری فورسز ہماری دشمن ہیں۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی سکیورٹی ادارے کے اہلکاروں نے معصوم اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا ہو اور وزراء کرام سے لے کر آئی جی تک نے فوراً بیان جاری کر دیا کہ مرنے والے دہشت گرد تھے۔ آئی جی پنجاب کی جاری کردہ پریس ریلیز تو پرلے درجے کی مضحکہ خیز ہے جس میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کے اغوا سے لے کر جانے کن کن بڑے واقعات کا ملبہ چھوٹی سی سوزوکی کار میں بغیر مزاحمت مرنے والے دو مردوں اور دو عورتوں پر ڈال دیا گیا۔ بتایا گیا کہ مرنے والوں کا تعلق امریکی شہری کے قاتلوں سے ہے۔ فیصل آبادمیں دہشت گردی کے واقعہ سے بھی ان کا تعلق جوڑ دیا گیا۔ آئی جی کے جاری بیان میں مرنے والوں کو داعش کا کارندہ قرار دیا گیا۔ دوسری طرف ڈی سی ساہیوال نے ٹی وی پر تصدیق کی کہ مقتولین کی جانب سے کسی طرح کی مزاحمت کا ثبوت نہیں ملا۔ لاہور اور بوریوالہ میں مقتولین کے لواحقین اور ہمسائے ان کے اچھے چال چلن کی گواہی دے رہے ہیں۔ بچ جانے والا بچہ ساری کہانی بیان کر رہاہے۔ پولیس اور حکومت کا موقف جھوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ عوامی دبائو پر جناب بزدار نے پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی بنانے کی ہدایت کی۔ شاید قانونی طریقہ کار یہی بتاتا ہے مگر وہ جو اس ظلم کا نشانہ بنے انہیں اس سے اب کیا غرض کہ ان کے قاتل نوکری سے معطل ہوں یا چند سال قید کاٹ کر رہا ہو جائیں۔ مرنے والوں کے خاندان پر قیامت گزری ہے۔ ابھی پولیس اور سیاستدانوں نے ان کے گھر آنا ہے۔ پیار سے‘ ہمدردی جتلا کر‘ خون بہا کی ادائیگی کا یقین دلا کر یا پھر دھمکیوں سے گواہوں اور لواحقین پر اثر انداز ہونا ہے۔ یہی کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا جس کے نوجوان بیٹے کو ایک سیاسی خاندان کے فرزند نے سرراہ بغیر کسی قصور کے مار دیا تھا اور پولیس نے دبائو ڈال کر بیوہ خاتون کو خاموش کرا دیا۔ تب سپریم کورٹ بھی بے بس ہو گیا تھا۔ ایسا ہی ان خاندانوں کے ساتھ ہوا جو منہاج القرآن پر پنجاب پولیس کے حملے میں مارے گئے۔ ان محترم خواتین کی تصویریں اب تک ذہن سے چپکی ہوئی ہیں جن کا جبڑا چیر کر پولیس کی گولیاں نکل گئی تھیں اور وہ سڑک پر پڑی تھیں۔ سی ٹی ڈی نے بہت سے دہشت گردوں کو مارا ہو گا مگر اس سچ کی کھوج کون لگائے کہ اس فورس پر الزام ہے کہ اس کے اہلکار پیسے لے کر لوگوں کے دشمن یا مخالفین کو مارتے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ پنجاب نے تین ساتھی وزراء کے ساتھ پریس کانفرنس میں مقتولین کو دہشت گردوں کا ساتھی اور ان کی گاڑی کو دہشت گردوں کے زیراستعمال ہونے کی بات کی ہے۔ راجہ بشارت نے یہ نہیں بتایا کہ اگر گاڑی کے ساتھ کوئی موٹرسائیکل والے تھے اور انہوں نے پولیس پر فائرنگ کی تو پھر دس پولیس والوں میں سے کچھ کو موٹرسائیکل سواروں کا تعاقب کرنا چاہیے تھا۔ ایسا کیوں نہ ہوا۔ جناب آپ بے شک جے آئی ٹی کے سوا کسی کی بات سچ تسلیم نہ کریں مگر مجھے محسوس ہورہا ہے کہ معاملہ آپ کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے۔ ماڈل ٹائون کے وزن کا باٹ اب تحریک انصاف کے پلڑے میں رکھ دیا گیا ہے۔ حقائق چھپانے کی جو کوششیں اس وقت کی گئی تھیں ویسی ہی اب کیوں دکھائی دے رہی ہیں۔ محترم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چارٹر آف گورننس پر صدر مملکت کو تمام سٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلانے کا مشورہ دیا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کے دور حکومت کے وزراء چارٹر آف اکانومی کی بات کرتے رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو جنوبی افریقہ کے ٹرتھ اینڈ ری کنسلی ایشن کمشن جیسا کمشن بنانے کا مشورہ دیتی رہیں۔ ہم جیسے لوگ آئے روز حکومتوں کو نت نئے مشورے دیتے ہیں۔ ہم سب کو لگتا ہے ہماری ریاست ہمیں ماں جیسا پیار دے گی۔ ہمیں لگتا ہے جن پولیس والوں کو ہم تنخواہ دیتے ہیں وہ کبھی ہمارے محافظ بنیں گے۔ وہ جب بلندیوں سے چھلانگ لگانے کی مشق کرتے ہیں‘ رسے کے ذریعے نہر عبور کرتے ہیں‘ جلتی عمارت میں گھسنے کی مشق کرتے ہیں‘ مغویوں کو اغوا کاروں سے بازیاب کرانے کا سبق دہراتے ہیں تو ہم تالیاں بجاتے ہیں۔ ہم ان کی بہادری اور عظمت کے ترانے لکھتے ہیں۔ مگر جب یہ درندے بن جائیں‘ طاقت استعمال کرنے کے اصول فراموش کر دیں تو ہم انہیں سلیوٹ نہیں کر سکتے۔ ان کی خفیہ معلومات اگر کسی معصوم خاندان پر قیامت ڈھا دیں تو ہم ان کو معاف نہیں کر سکتے۔ ہمیں پاگلوں کی نہیں درست فیصلہ کرنے والے محافظوں کی ضرورت ہے۔ ریاست شہری سے محبت اور احترام کا تعلق بناتی ہے۔ پولیس نے اس تعلق کو نفرت اور بغاوت میں بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اس ادارے میں عوام مخالف سوچ غلبہ پا چکی ہے۔ سرجری درکار ہے۔ عمران خان صاحب‘ ساری فورس کو شوکت خانم ہسپتال میں داخل کرائیں۔ ان کے سینے میں بدعنوانی‘ اذیت پسندی اور عوام دشمنی کے کینسر ہیں۔ ان کا علاج کریں۔