آئسمبرڈ برونل 1806ء میں پیدا ہوا۔ وہ 53 برس تک جیا۔ ان برسوں میں اس نے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو انقلابی جدت دی‘ انجینئرنگ کی شکل تبدیل کردی‘ سرنگ کی تعمیر میں زبردست مہارت دکھائی‘ ریل نیٹ ورک قائم کئے اور بحری جہاز سازی میں نام کمایا۔ برونل نے گریٹ ویسٹرن ریلوے کا ڈیزائن تیار کیا۔ برونل کی محنت رنگ لائی اوروکٹورین عہد ریلوے کی ترقی کے حوالے سے یادگار بن گیا۔ برونل تن تنہا کئی صورتوں میں صنعتی انقلاب لے آیا۔ یہ برونل ہی تھا جس نے ٹرانس اٹلانٹک شپنگ کے لیے بحری جہازوں کو تیار کیا۔ اس نے یکے بعد دیگرے دنیا کے سب سے بڑے تین بحری جہاز بنائے۔ برونل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلا سٹیم پاور شپ تیار کیا۔ ایلن مسک کو آپ جانتے ہوں گے۔ وہی مسک جو دنیا کا امیر ترین آدمی ہے۔ جیک بیزوس‘ ایلن مسک‘ زکر برگ اور بل گیٹس کے درمیان دنیا کا سب سے دولتمند ہونے کا اعزاز گھومتا رہتا ہے۔ ایلن مسک روایتی کاروباری آدمی نہیں‘ وہ آزادانہ سوچ رکھنے والا ایک انجینئر ہے۔ مسک مسئلہ کی شناخت کرتا ہے اور پھر اس کو حل کرنے میں جت جاتا ہے‘ بالکل ڈیڑھ سو سال پہلے کے آئسمبرڈ کی طرح ۔ مسک نے کوئی الیکٹرک موٹریں ایجاد نہیں کیں‘ وہ ٹنل بورنگ‘ بیٹری پیک‘ سپیس راکٹ اور سولر پینل ایجاد کرنے والوں میں بھی شامل نہیں۔ وہ اپنے عہد کے بڑے مسائل کا حل ڈھونڈتا ہے۔ مسک کہا کرتا ہے: سی ای او بننے کا راستہ چیف فنانشل افسر کے دفتر سے ہو کر نہیں گزرتا۔ یہ راستہ مارکیٹنگ کے شعبہ سے بھی نہیں گزرنا چاہیے۔ کامیابی کی راہ گزر انجینئرنگ اور ڈیزائن سے بنتی ہے۔ مسک ایسی خلائی گاڑیاں بنانے کے منصوبے میں لگا ہوا ہے جو انسانوں کو مریخ پر آباد ہونے میں مدد دیں گی۔ بظاہر مشکل کام ہے لیکن اس قدر مشکل نہیں کہ ممکن نہ ہو۔یہ کام جلد ممکن ہو جائے گا،مسک کی دولت ایک بڑا کام کر رہی ہے، بڑا بزنس،بڑی انسانی چھلانگ ،زمین سے نئی زمینوں تک ۔ مغربی معاشرہ سرمایہ داروں کو نوازتا ہے۔ آپ جوں جوں روپیہ خرچ کرتے ہیں سہولیات پاتے ہیں ۔ ٹیکس کی شکل میں ریاست کو فنڈز دیتے ہیں تو ریاست علاج‘ معالجہ‘ بچوں کی دیکھ بھال اور سماج میں عزت والے فرد کی حیثیت دیتی ہے۔ سرمایہ داری نے ریاست کو اپنا اتحادی بنایا۔ اس اتحاد سے سرمایہ دار اور افلاس زدہ طبقات کے درمیان صرف ضرورت کا تعلق باقی رہ گیا لیکن ریاست کے اتحادی کے طور پر سرمایہ داروں نے تمام کاموں میں ریاست کی مدد کی۔ ریاست نے شہریوں کا معیار زندگی بلند کرنے‘ ٹیکنالوجی کو ترقی دینے‘ امن قائم کرنے‘ تعلیم اور تفریح کی سہولیات عام کرنے‘ بنیادی حقوق کی فراہمی اور معاشی آزادیوں کو یقینی بنانے کے لیے سرمایہ داروں سے مدد لی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ فیس بک کے بانی زکر برگ اپنی بیٹی کی ضروریات کے لیے مخصوص رقم بچا کر اربوں ڈالر فلاحی مقاصد کے لیے ریاست کو دے دیتے ہیں۔ بل گیٹس صرف امریکہ کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ریاستوں کی مدد کر رہے ہیں۔ پھول کی نزاکت کا ادراک اس کے دامن سے لگے خار انگلیوں میں پیوست ہونے پر ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کے دولت مند اور سرمایہ دار اپنے ملکوں کو ترقی کی طرف لے کر جا رہے ہیں‘ ہمارے کانٹے دولت کے ڈھیر جمع کرتے ہیں‘ ان ڈھیروں کو دوسرے ملکوں میں منتقل کرتے ہیں‘ پھر واپس آتے ہیں محروم نسلوں کے بدن میںجو نیا سرخ لہو بن چکا ہوتا ہے اسے چوستے ہیں اور باہر کے بینکوں کے کھاتے کالے کرتے ہیں۔ سویپنگ سٹیٹمنٹ کی جگہ پاکستان میں ریاست اور سرمایہ دار کے باہمی تعلق کی بات کرلیتے ہیں۔ ریاست سرمایہ دار سے وہی مطالبات کرتی ہے جو امریکہ اور برطانیہ اپنے سرمایہ داروں سے کرتے ہیں لیکن ہمارا سرمایہ دار بدک جاتا ہے۔ اس کے منشی جھٹ سرکاری اہلکاروں کے تعاون سے تیار کردہ ایسی رپورٹس عدالت میں پیش کردیتے ہیں جو بتاتی ہیں کہ سرمایہ کاری ڈوب گئی۔ صاحب تو اپنی ماں کے گھر رہتے ہیں‘ بیٹوں کے بھیجے گئے پیسوں سے ضرورت پوری کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں قارئین تک یہ اطلاع پہنچ چکی ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے میں ارکان اسمبلی 70 کروڑ روپے میں اپنا ووٹ فروخت کرنے پر گفت و شنید کر رہے ہیں۔ توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ آٹھ دس افراد سے اس نرخ پر ووٹ خریدا جائے تو کتنی رقم خرچ ہوگی۔ پھر یہ حساب لگائیے کہ پانچ چھ ارب روپے خرچ کر کے سینٹر بننے والا ریاست کا مددگار بنے گا یا قدم قدم پر اس کا حریف اور مخالف بن کر کھڑا ہوگا۔ دولتمند مجرم کیوں سزا سے بچ جاتے ہیں۔ دولت مندوں کی رسائی میں وزیراعظم اور عدلیہ‘ سکیورٹی افسران اور اعلیٰ انتظامی حلقے کیوں آ جاتے ہیں۔ ناجائز دولت کمانے والوں کو سیاسی بروکر بننے کی آزادی کیوں دی جاتی ہے۔ دولت کے زور پر قانون کو کیوں روندنا آسان ہو گیا ہے۔ مقدس کہلایا جانے والا ایوان دھاندلی اور روپے سے خریدے ووٹوں سے جیتنے والوں سے کیوں بھر جاتا ہے۔ پاکستان میں دولت مند سیاست میں آنا چاہتا ہے،دولت مند کھلاڑی بننا چاہتا ہے، دولت مند ایکٹر بننا چاہتا ہے،اینکر بننا چاہتا ہے،ادیب اور شاعر بننا چاہتا ہے۔تعجب یہ کہ وہ بن بھی جاتا ہے، برونل اور ایلن مسک جیسا بننا اس کی خواہش نہیں۔ اصلاح درکار ہے۔ دولتمند اور ریاست پاکستان کا رشتہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کانٹوں کو الگ نہ کیا گیا تو سب کی انگلیاں لہولہان ہو جائیں گی‘ ریاست ہاری تو سب ہار جائیں گے۔