پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوا تھا،اس لحاظ سے اس مہلک وبا کو یہاں آئے قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک حکومت اور اپوزیشن گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔یہ کہنا تو درست نہیں ہو گا کہ وزیر اعظم اور ان کے رفقا اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف بھی اسی ایمرجنسی کی وجہ سے لندن سے آنے والی پی آئی اے کی آخری پروازکے ذریعے 22 مارچ کو پاکستان پہنچ گئے تھے۔وہ چار ماہ سے زائد عرصہ تک بقول ان کے اپنے بھائی میاں نوازشریف کے علاج کے معاملات کی نگرانی کیلئے برطانیہ میں مقیم تھے۔بھائی جان کا انتہائی ضروری پروسیجر جس کا کافی عرصے سے چرچا تھا وہ ہنوز نہیں ہو پایا۔ ایک ایسا بحران جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے سنگین قرار دیا جا رہا ہے اس موقع پر بھی ہماری حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر نہیں ہیں،اس معاملے پر بھی سیاست کھیلی جا رہی ہے۔خان صاحب حال ہی میں پارلیمانی لیڈروں کی ویڈیو کانفرنس سے جس میں بلاول بھٹو اور شہبازشریف بھی شریک تھے اپنا لیکچر دے کر اچانک اٹھ کر چلے گئے۔انہوں نے اپوزیشن کی بات سننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔شہبازشریف بھی نئی نئی فرمائشیں کرتے رہتے ہیں کبھی یہ کہ مشترکہ مفادات کونسل کا روزانہ کی بنیاد پر اجلاس بلایا جائے مزید یہ کہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافے سے ایک سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس لئے طبی عملے کو حفاظتی لباس اور ضروری سامان ہنگامی بنیادوں پر فراہم کیا جائے۔یہ دونوں مطالبات اگرچہ صائب ہیں لیکن زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے ہی ان پر عملدرآمد ہو سکتا ہے جس کا فیصلہ خود حکومت کر سکتی ہے۔تاہم اپوزیشن کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ کورونا ریلیف فنڈ کی تقسیم اور نگرانی کیلئے پارلیمانی مانیٹرنگ کمیشن تشکیل دیا جائے۔نہ جانے حکومت اس میں لیت و لعل کیوں کر رہی ہے بلکہ کورونا وائرس کے بارے میں سب سے افسوسناک بات خود وزیراعظم اور ان کی کچن کیبنٹ کا متذبذب رویہ ہے۔ خان صاحب اور ان کے قریبی حواریوں کا مبینہ طور پر یہ خیال ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگوں کا ڈی این اے اتنا سخت ہے کہ وہ اس وائرس سے محدود پیمانے پر متاثر ہونگے اور جو ہوں گے ان میں سے بھی زیادہ تر جانبر ہو جائیں گے۔ ایک یہ تھیوری بھی پیش کی جا رہی ہے کہ جب موسم مزید گرم ہو گا تو یہ وائرس خود بخود مر جائے گا۔یہ وقت ہی بتائے گا خان صاحب کے اس نظریے کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔لیکن کیا سائنسی طور پر ابھی تک درست ثابت نہ ہونے والی تھیوریز کی بنیاد پر پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں کیونکہ اگر خدانخواستہ یہ وبا جسے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی طاعون سے تشبیہ دی ہے آگ کی طرح پھیلی تو اس سے نمٹنے کیلئے کیا ہم تیار ہیں؟۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اتنا موثر کردار ادا نہیں کر پا رہے جو انہیں کرنا چاہئے۔کورونا وائرس کے آغازمیں ڈاکٹر توقیر شاہ کو سیکرٹری صحت لگا کر چار روز بعد ہی محض اس لئے تبدیل کر دیا گیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری معترض تھے کہ یہ صاحب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت وزیراعلیٰ شہبازشریف کے سیکرٹری تھے حالانکہ ڈاکٹر توقیر اچھی شہرت کے بیوروکریٹ ہیں۔ تاش کے پتوں کی طرح وزیراعظم کی کور ٹیم میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔اب اچانک وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے گزشتہ روز لاک ڈاؤن میں سختی یا نرمی کا فیصلہ 14 اپریل تک صورتحال دیکھ کر کرنے کا اعلان کیا ہے۔یہ فیصلہ نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔دوسری طرف شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر فیصل سلطان کو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر فیصل جو اچھے منتظم اور معالج ہونے کے ساتھ ساتھ انفیکشن ڈیزیز یعنی وبائی امراض کے ماہر سمجھے جاتے ہیں لگتا ہے کہ ان کی بھی نہیںچل رہی۔انہوں نے خان صاحب کی سربراہی میں ہونے والی ایک بھری میٹنگ میں جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں معاملے کی سنگینی کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی۔ ان بحرانی حالات میں پاک فوج کو ایک کلیدی رول ادا کرنا پڑ رہا ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سنٹر میں بریفنگ کے دوران کہا ملک کے کسی طبقے کو کورونا کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ عوام کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کئے جا رہے ہیں۔انہوں نے ہدایت کی پاک فوج کے جوان ملک کے ہر کونے میں ضرور پہنچیں۔ ہر شہری تک رسائی کا مقصد وبا سے محفوظ بنانا اور مشکل وقت میں ان کی زندگی میں بہتری لانا ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا مزید کہنا تھا قومی کوششوں سے کورونا جیسے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، بروقت اقدامات سے ہر شہری کا تحفظ ممکن ہے۔ ہم نے ذات، نسل، رنگ اور مذہب سے بالاتر ہو کر چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔آرمی چیف کا کہنا تھا مشکل وقت ہے،مگر پہلے بھی مشکل حالات کا سامنا کر چکے ہیں، مسلح افواج قوم کے شانہ بشانہ کورونا سے لڑنے کیلئے پرعزم ہیں، کورونا سے نمٹنے کیلئے قومی کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔شاید اسی بنا پر آرمی ائیر ڈیفنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمود الزمان کو کورونا کی وبا سے نمٹنے کیلئے قائم مرکزی ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا سربراہ بنایا گیا ہے۔یہ ادارہ قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ اقدام انتہائی بروقت ہے اور شاید اس کی ضرورت حکمرانوں کی بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت کے فقدان کے باعث ہی پیش آئی ہے۔واضح رہے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنے باس کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے صوبے میں لاک ڈاؤن کرنے کے بارے میں متردد تھے لیکن اس فیصلے پر مقتدر حلقوں کو عملدرآمد کرانا پڑا۔ تبلیغی جماعت کے مرکز رائیونڈ میں کورونا کے حوالے سے پابندیاں سخت کرنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے ایک بیان میںشدید احتجاج کیا ہے۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جن کی جماعت کی مہربانیوں سے رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کا ہیڈ کوارٹرز کا قیام عمل میں آیا تھا نے بھی تبلیغی جماعت سے نرمی برتنے کی سفارش کی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے بھی الزام لگایا ہے کہ تبلیغی جماعت کا میڈیا ٹرائل زلفی بخاری کو بچانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔دوسری طرف تبلیغی جماعت کا اجتماع نہ روکنے کی بنا پر کورونا وائرس کے تمام ملک بلکہ بیرون ملک بھی مزید پھیلنے کی اطلاعات مل رہی ہیں اور حکومت اجتماع کے شرکا کو تلاش کرنے میں کوشاں ہے۔کیا یہ وقت مذہب کو بنیاد بنا کر سیاست کرنے کا ہے؟حکومت اور اپوزیشن دونوں اس معاملے میں تاریخی طور پر بھی اور اس بحران میں بھی ذمہ دار ہیں۔ دوسری طرف حکومت کی دلیل کے باوجود کہ ٹائیگر فورس سیاسی بنیادوں پر قائم نہیں کی گئی۔سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے جائز مطالبہ کیا ہے کہ اس نام بدل دیا جائے کیونکہ اس میں سیاسی جھلک نظر آتی ہے۔اپوزیشن کا تو مطالبہ یہ ہے کہ ٹائیگر فورس کے بجائے پرانا بلدیاتی نظام بحال کر دیا جائے جو شاید اس موقع پر ممکن نہیں ہو گا۔کورونا ریلیف فنڈ میں معروف صنعتکار حسین داؤد کی طرف سے ایک ارب روپے کا عطیہ بہت اچھی اور قابل تقلید مثال ہے۔تحریک انصاف کے رہنما،شوگر کنگ جہانگیر ترین نے 20 ہزار ٹن چینی سستے ریٹ پر یوٹیلیٹی سٹورز کو فراہم کر کے 25 کروڑ روپے کی رعایت دی ہے۔بڑے بڑے بزنس ٹائیکون اور امیر سیاستدانوں کو جن میں شریف فیملی،زرداری فیملی اور دیگر کئی خاندان شامل ہیں کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہئے۔