سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کی وسعت کا احوال تو ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھ اور کانوں سے سن رہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب 2010ء میں آیا تھا جس کو بارہ برس گزر چکے اور امسال کا یہ سیلاب گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، دریائے سوات اور دریائے کابل کا سنگم معمول سے کہیں بڑھ کر طغیانی بن چکا ہے۔ وہاں سے اٹک تک یہ سیلِ آب اور بھی ہولناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اس لئے نوشہرہ کو شدید خطرہ ہے اور وہاں کی چھاؤنی اور شہری علاقوں کو ہنگامی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ طوفان ابھی کم نہیں بلکہ زیادہ ہو رہا ہے اور اوپر کی طرف کیچ منٹ ایریاز میں بارشوں کا زور ہے۔ کلاؤڈ برسٹ ( Burst Cloud) ہو رہے ہیں اور اس سیلاب نے ہم پاکستانیوں کو ایک نئی موسمی اصطلاح سے روشناس کروا دیا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ کا اردو ترجمہ ’’بادلوں کا پھٹنا‘‘ ہے۔ بادلوں میں آبی بخارات ہوتے ہیں ،جو مون سون کے موسم میں زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہوا جب ان آبی بخارات سے لبریز بادلوں کو پہاڑوں کی جانب اڑا لے جاتی ہے اور وہاں یہ بادل پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں تو بارش بن کر برس پڑتے ہیں۔ لیکن اگر پہاڑ زیادہ دور ہوں تو یہ بادل نیم کوہستانی علاقوں میں بھی برسٹ ہو جاتے اور برسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ’پھٹاؤ‘ اچانک ہوتا ہے اور بارش اس قدر تیز اور ناگہانی ہوتی ہے کہ زمینی آبادیوں کی پرواہ نہیں کرتی۔ بادلوں کے اسی ناگہانی پھٹاؤ کو ’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس موسم میں بحیرہ عرب سے اٹھ کر جو بادل جنوبی پاکستان کی طرف بڑھتے ہیں ،وہ اتنے بوجھل ہوتے ہیں کہ ساحل کراس کرتے ہی برس جاتے ہیں۔کراچی، بدین، ٹھٹھہ وغیرہ میں اس برس یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بارشیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ موسم کی تبدیلی ہے۔ آب و ہوا کی یہ تبدیلی موجودہ مون سون میں بدتر صورت اختیار کر رہی ہے۔ ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں اس تبدیلی نے عمران خان کی اس ’’تبدیلی‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جو پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں گا بجا کر سنائی جاتی ہے۔ موسم کی یہ تبدیلی ایک زندہ جاوید ابتلا میں ڈھل کر سینکڑوں لوگوں سے زندگی چھین چکی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ موسمی تبدیلی، اب عمران خانی تبدیلی کو ایک حد تک بریک لگا دے گی۔ یہ بریک ہرچند کہ عارضی ہو گی لیکن شاید یہی عارضی مدت، ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک اہم رول ادا کرے…… دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔میرے (اور آپ کے بھی) سامنے یہ سوال کھڑا ہے کہ اس سنگین سیلابی صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے۔ چھوٹے بڑے ڈیم بنانا پاکستانی سیاست کے تناظر میں ناقابلِ عمل آپشن بن رہی ہے۔ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب نے پاکستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کو جنم دیا تھا لیکن کیا اس اتھارٹی نے موجودہ سیلاب کے آگے بھی کوئی بند باندھا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہو سکتا ہے…… اس طرح کے سیلابوں کی تباہ کاریوں میں انسانی جانوں کے وسیع نقصان کے علاوہ مال مویشیوں اور رہائشی عمارتوں کا وسیع تر ضیاع بھی شامل ہے۔ اس صورتِ حال سے عہدہ برآ ہونے کے لئے جن امدادی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں درجِ ذیل ساز و سامان شامل ہے: 1۔ چھوٹی کشتیاں 2۔ہیلی کاپٹر 3۔خیمے اور دریاں وغیرہ 4۔اشیائے خور و نوش 5۔پینے کے پانی کی فراہمی 6۔ طبی سہولیات چونکہ یہ سیلاب، بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے وسیع علاقوں میں آیا ہے اس لئے درجِ بالا سامان وغیرہ کی فراہمی، ان کی لوکیشن اور ان کے عملے کا رہائشی بندوبست وغیرہ ضروری ہے۔ ہیلی کاپٹروں اور کشتیوں کے سٹور کرنے کی جگہوں کا تعین اور ایک معینہ عرصے کے بعد ان کے استعمال کی پریکٹس کے لئے ایکسرسائزیں وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ موجودہ سیلاب گزشتہ سیلاب کے بارہ برس بعد (2010ء تاحال) آیا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر PDMA کے پاس یہ تمام مادی ساز و سامان 2010ء میں موجود ہوتا تو اس کی دیکھ بھال آج تک کیسے کی جاتی…… اشیائے خورد و نوش کی تازگی کا کیا بندوبست ہوتا…… خیموں کو سٹور کرنے کی لوکشینوں کا انتظام کیا ہوتا…… ادویات اور طبی عملہ کیسے الرٹ رکھا جاتا…… کیا یہ اقدامات صرف مون سون کے موسم ہی کے لئے ہوتے …… اگر جواب ہاں میں ہو تو دوسری آفاتِ ارضی و سماوی کے لئے تو کسی خاص ’’موسم‘‘کا تعین نہیں کیا جا سکتا…… زلزلہ، قحط، وبائی اور متعدی امراض کسی موسم سے پوچھ کر نہیں آتے۔ ان سے نمٹنے کا انتظام و انصرام کیسے کیا جاتا…… اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اتنے بڑے منصوبے کے لئے بجٹ کی فراہمی کا کیا بندوبست ہوتا…… ہماری قوم تو ’’کھاؤ یار‘‘ کلچر کی اسیر ہے۔ وہ PDMA کے کثیر بجٹ کے ساتھ کیا سلوک کرتی…… اور ہم اس کے لئے ایک نئے نیب اور نئی عدلیہ کا انتظام کہاں سے کرتے؟ اگر آج ہم ہر طرف سے مایوس ہو کر فوج کی طرف دیکھتے ہیں تو ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اس اتھارٹی کا بجٹ اگر فوج کو دے دیا جائے تو اس میں کیا ہرج ہے؟…… فوج کے پاس کشتیاں بھی ہیں، ہیلی کاپٹر بھی ہیں، رسدات کی ترسیل کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی ہیں، ان سب کو چلانے والا عملہ بھی موجود ہے تو ایسے میں PDMA کی صورت میں ایک نئی ’’فوج‘‘ کھڑی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ (اورہے)؟ فوج کو یہ ہدایات دی جا سکتی ہیں کہ وہ ہر سال ایک مقررہ SOP کے مطابق آنے والے ’’طوفان‘‘ کی پیشگوئی بھی کرے اور پیش بندی بھی۔ اگر آج حکومت کو ہوش آئی ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں امدادی کارروائیوں کے لئے فوج کی ’’خدمات‘‘ حاصل کی جائیں تو سو پیاز کھانے کے علاوہ سو چھتر کیوں کھائے جائیں؟ PMDA کا یہ عملہ GHQ کی سطح پر AGبرانچ کے ماتحت ایک نئے ڈائریکٹوریٹ کی صورت میں قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عملے کی ایکسرسائزوں اور اس عملے کی ادلا بدلی بھی فوج کی دوسری یونٹوں کی طرح کی جا سکتی ہے۔میری گزارش ہے کہ اس تجویز پر ’’صدقِ جان و دل‘‘ سے غور کیا جائے۔ بعض اوقات کسی ’بے وقوف‘ کے منہ سے کوئی ’’سچی اور عقل مندانہ‘‘ بات بھی نکل جاتی ہے: نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا اگر اس خاکسار کی تجویز سے اتفاق نہ ہو تو ملک کے دوسرے مقتدر ادارے اور صاحبانِ ہوش و خرد کوئی اور متبادل تجویز دے سکتے ہیں۔ یہ PDMA اگر ایک بڑا ادارہ ہے اور اس کا بجٹ بھی ہر سال اتھارٹی کو دے دیا جاتا ہے تو سیلابوں، زلزلوں اور دوسری آفاتِ ارضی و سماوی کے علاج کے لئے کوئی ایسا ادارہ بنایئے کہ جو برا وقت آنے سے پہلے اس کی پیش بندی اور جانی و مالی نقصانات سے بچنے کی کوئی کافی و شافی تدابیر کر سکے۔میڈیا کی طرف مت جھانکیے۔ اس کا کام تو جاری حالات کی عکس بندی ہے جو ہم دیکھتے ہیں، کفِ افسوس ملتے ہیں اور اس کا مداوا ڈھونڈنے کی فکر نہیں کرتے۔ پاکستان آج جس مشکل میں گرفتار ہے اور آنے والے برسوں اور مہینوں میں گرفتاری کی اس تلوار کے سامنے گردن جھکانے اور کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ اور نہیں کرے گا تو پھر ہم بار بار سو پیاز بھی کھائیں گے اور سو…… بھی! (بشکریہ:روزنامہ پاکستان)