پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے اور یہ اندازہ لگانے کے لئے کسی سقراط کی ضرورت نہیں کہ اگر عالمی استعمار کو تباہ کرنے کے لئے کسی ایک اسلامی ملک کو چننا ہو تو ان کا انتخاب کون سا ملک ہو گا۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں اور ہماری بہادر افواج پاکستان کی سالمیت کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے ہر دم تیار۔پاکستان میں دہشت گردی صرف بھارت کا پھیلایا ہوا شاخسانہ نہیں تھی۔ بھارت کی حیثیت تو صرف ایک رضا کارانہ مددگار کی تھی۔ لیکن جس بہادری اور دانشمندی سے پاکستان نے یہ جنگ لڑی اور فتح یاب ہوا۔ اس پہ جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ پاکستان کی فوج اس جنگ کی بھٹی سے کندن بن کر نکلی اور اس وقت پاکستانی فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی ایئر فورس نے بھی ساری دنیا سے اپنا سکہ منوایا اور چند جہازوں کے ایکشن سے نہ صرف بھارت کو سبق سکھایا بلکہ پورے خطے میں اپنی دھاک بٹھا دی۔ ایئر چیف مارشل مجاہد انور خان کو جائز طور پر ریٹائرمنٹ سے قبل نشان امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ ان کی ایئر فورس اور پاکستان کے لئے خدمات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔ عالمی طاقتیں بھارت کی بھر پور پشت پناہی کرنے کے باوجود ہماری افواج کو کوئی بڑی گزند نہیں پہنچا سکیں۔ہماری افواج اب بھی عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہیں لیکن اس دفعہ ان کی سٹرٹیجی مختلف ہے۔ اس دفعہ وہ پاکستان کے عوام کو اپنی افواج سے لڑانا چاہتے ہیں لیکن ہمارے عوام کی افواج پاکستان سے محبت مثالی ہے۔ عوام اپنی افواج کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔البتہ پاکستان میں بکائو سیاسی لیڈروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ بعض سیا سی ر ہنما ہوس زر میں اس قدر مبتلا ہیں کہ وہ اس کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک سیاسی رہنما نے تو علی الاعلان امریکی صدر جوبائیڈن کو دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ عام جلسوں میں تو وہ اپنے آپ کو امریکہ اور یہود و ہنود کا سب سے بڑا دشمن بتاتے ہیں لیکن اندرون خانہ وہ اقتدار کی خاطر ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ وکی لیکس بھی گواہی دیتی ہیں کہ انہوں نے ا مریکی سفیر کو اقتدار کے بدلے ہر طرح کی خدمات کی پیشکش کی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی پر کرپشن کے حوالے سے جو بھی کہا جائے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اپنی ہر دلعزیز لیڈر بینظیر بھٹو کی شہادت کے ہنگام بھی کوئی اینٹی پاکستان نعرہ نہیں لگایا گیا بلکہ پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا گیا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بینظیر کی شہادت پارٹی کے لئے اور پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا نقصان تھا لیکن پیپلز پارٹی نے پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ دوسری طرف مریم نواز جن کا کسی لحاظ سے بھی بینظیر بھٹو سے موازنہ کرنا جائز نہیں ہے،کے لئے خیالی خطرات کا ہوا کھڑا کر کے ن لیگ کے ایک تیسرے درجے کے لیڈر نے ایک نہایت گھٹیا بیان جاری کیا اور پاکستان کی سالمیت پہ حملہ کیا گیا۔ بجائے اس کے کہ پارٹی کی سطح پر اس کی تردید کی جاتی اور اس بے وقوف آدمی کی گوشمالی کی جاتی۔ اس کے بیان کو سراہا گیا اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے بیان پر ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے وہ اپنے بیان پر فخر کر رہا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ وہی شخص ہے جو ختم نبوت کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے عوامی غیظ و غضب کا شکار ہوا تھا اور عوام سے مار کھانے کعے بعد موٹر سائیکل پر فرار ہوا تھا۔ یعنی وطن اور مذہب اس کی ہوس اقتدار کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ مریم نواز نے ایک سوال کے جواب میں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا ہے۔ پی ڈی ایم اتحاد کی جماعتوں میں بعض ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جن کا ایک منتخب کونسلر بھی نہیں ہے۔ قومی سطح کی بڑی جماعتیں تو صرف تین ہیں۔ ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف ان کے سرکردہ لیڈروں میں صرف آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زردارزی منتخب نمائندے ہیں۔مولانا اور مریم نواز منتخب نمائندے نہیں ہیں یہی دونوں استعفی دینے کا گہرا شوق رکھتے ہیں۔ جناب آصف علی زرداری نے جس مدلل طریقے سے استعفوں کے بارے اپنی پارٹی کا موقف پیش کیا ہے اس نے مولا نا فضل الرحمن اور مریم نواز کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہے ۔پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن کا رویہ فقید المثال تھا۔ دو سطری پریس کانفرنس میں انہوں نے شدید غصے کا اظہار کیا اور لانگ مارچ کے ملتوی کرنے کا اعلان کر کے گولی کی رفتار سے غائب ہو گئے۔ مریم نواز ہکی بکی انہیں روکتی رہ گئیں۔ اس کے بعد مریم نواز اپنے والد محترم کی شان میں رطب اللسان ہوئیں اور انہیں پاکستان میں طویل ترین اور سخت ترین قید کاٹنے والا سیاستدان قرار دے دیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور قید ہی تو وہ واحد چیز ہے جو وہ نہیں کاٹ سکتے۔ جوش خطابت میں مریم نواز نے انہیں جیل میں دو ہارٹ اٹیک ہونے کی خبر بھی دی اور وزیر اعظم عمران خان کو قاتل بھی قرار دے دیا۔ ایک ایسا قاتل جس نے ابھی قتل نہیں کیا اور مقتول ابھی تک لندن کی فضائوں سے قومی اداروں پہ حملے کر رہا ہے۔ ایسی مدلل گفتگو مریم نواز ہی کر سکتی ہیں۔جب آصف زرداری نے اپنے خطاب میں بھٹو خاندان کی قربانیوں کا ذکر کیا تو مولانا نے بھی مناسب سمجھا کہ وہ اپنے خاندان کی قربانی کا بھی ذکر کریں۔ مولانا نے فرمایا کہ اگر میں اپنے خاندان کی قربانیوں کا ذکر کروں گا تو تمام لوگ رونے لگیں گے۔ اسی ڈر سے انہوں نے قربانیوں کی تفصیل نہیں بتائی کہ حاضرین گریہ زاری نہ شروع کر دیں۔ مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ وہ یہ راز عوام کو بتا ہی دیں کیونکہ کم از کم مجھے کوئی ایسا شخص نہیں مل سکا جو مولانا کے خاندان کی ملک و قوم کے لئے قربانی کے بارے میں جانتا ہو۔ اس وقت پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر چکا ہے حکومت کے لئے نادر موقع ہے کہ وہ سیاسی بیانات میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے کر عام لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔ پیپلز پارٹی کے موقف نے حکومت کے لئے بڑی گنجائش پیدا کر دی ہے لیکن حکومت کے چند نادان دوست پیپلز پارٹی کو ہی اپنے طنز و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ خدا کے لئے Good Governanceاور اپنے پروگرام کو deliverکرنے پر توجہ دیں۔ آپ کے پاس وقت بہت کم اور مقابلہ سخت ہے۔