ایک زمانے میں یہ سوال میں ایک تسلسل کے ساتھ پوچھا کرتا تھا کہ جن لوگوں نے تاریخ کے ایک اہم موڑ پر قوم کی پیٹھ میں چھری گھونپی ہو، ان سے قیامت کے روز کیا اس کے بارے میں بازپرس نہیں ہوگی۔ مرا یہ سوال عموماً سلیم احمد سے ہوا کرتا تھا اور اس کا پس منظر تحریک پاکستان کے دوران علماء کا کردار تھا۔ وہ علماء جنہیںان دنوں ہم کانگرسی علماء کہا کرتے تھے۔ میں یہ بات اسی تناظر میں پوچھتا تھا کہ نیک نامی، پارسائی، دین کا علم سب اپنی جگہ، مگر تاریخ میں ان کے کردار کی کیا آخرت میں باز پرس نہ ہوگی۔ ظاہر ہے سلیم بھائی کا جواب کیا ہونا چاہیے تھا۔ ویسے وہ عموماً سر جھکا کر چپ سے کر جاتے، وہ میرے ہم خیال ہوتے تھے۔ یہ بات مجھے آج ایک اور حوالے سے یاد آئی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے، ہم بار بار تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانے لگتے ہیں۔ چار قدم آگے بڑھتے ہیں تو کوئی راہ روکے کھڑا ہوتا ہے۔ خاص کر اقتصادی و سیاسی ترقی کے حوالے سے یہ سوال میرا راستہ روکے کھڑا ہے، میں خود سے پوچھتا ہوں، وہ لوگ جو بڑے محب وطن ہیں، بڑے نیک نیت ہیں، بڑے دیانتدار ہیں، بڑے مخلص ہیں اگر ان کے اقدامات سے قومی سفر میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ سفر رک جاتا ہے یا پیچھے کی طرف چلنے لگتا ہے تو کیا خدایا تاریخ ہی انہیں اس کی سزا دے گی یا نہیں۔ میرے ساتھ اب بھی ایسا ہوا ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ میں خلا کی باتیں کرنے کا عادی نہیں۔ جب 2014ء میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس زمانے کے دھرنے نے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے، حتیٰ کہ ہماری تاریخ میں چین کی طرف سے جو ترقی کی ابتدا ہونے والی تھی، اسے بھی پیچھے دھکیل دیا ہے تو میں ذرا تذبذب کا شکار ہوتا کہ اتنے دور مار نتائج نہ نکالو، ذرا تحمل سے کام لو، تاہم 2016ء میں جب ملک میں ایک سیاسی بحران پیدا ہوگیا، کرپشن کے نام پر ایک تحریک کی ابتدا ہوئی تو میں نے بار بار خود سے پوچھا کہ آیا یہ کرپشن کے خلاف تحریک ہے یا میرے ملک کی بڑھتی ہوئی معیشت کے قدم روکنے کی کوئی کوشش۔ میں بار بار شک میں مبتلا ہو جاتا۔ میرے سامنے ایوب خان کا زمانہ تھا۔ میں نے ایک طالب علم کے طور پر دل و جان سے مادر ملت کا ساتھ دیا تھا۔ میں جمہوریت کا دلدادہ بن کر پروانہ وار پھرتا تھا۔ مجھے بعد کے حالات پر آج رونا آتا ہے۔ جمہوریت تو جانا تھی، معیشت بھی گئی اور ملک بھی باقی نہ بچا۔ اس کے بعد میں نے پہلی بار سول ڈکٹیٹر شپ کا سامنا بھی کیا۔ اس ڈکٹیٹر شپ نے میرے ملک کی اقتصادیات کا پورا ڈھانچہ بھی اس طرح تلپٹ کر کے رکھ دیا کہ ملک آج تک اس دھچکے سے سنبھل نہیں پایا۔ جب جب اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کے مواقع آتے، میں دھڑام سے گر جاتا۔ گرتا پڑتا یہاں تک پہنچا تھا۔ مجھے نہیں معلوم اس کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے مگر ملک دوباروہ ترقی کرنے لگا تھا کہ ایسی رکاوٹ آئی کہ میں ایک بار پھر لڑکھڑا گیا۔ اس وقت مجھے منیر نیازی یاد آ رہے ہیں۔ ہمارے خان صاحب (میں انہیں اسی نام سے پکارتا تھا)نے کیا مزے کا سوال اٹھایا تھا کہ وقت سے پیچھے رہ جانے کی سزا کیا ہوتی ہے۔ جواب بھی کیا عمدہ دیا تھا کہ آدمی اکیلا رہ جاتا ہے۔ اسے محض ایک شاعرانہ اظہار کہہ کر نظر انداز نہ کردیجئے۔ ہمارے ساتھ یہی ہوا ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہ حرکت کی ہے کہ ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ہر کام سے پہلے۔ کیا خیال ہے۔ درست وقت پر درست سمت بڑھتے ہوئے یہ میرے قدم لڑکھڑا کیوں جاتے ہیں۔ پھر میرے قدم ایسے لڑکھڑاتے ہیں کہ میں کاسۂ گدائی لے کر دوست ملکوں سے قرضے مانگنے نکلنے پر مجبور ہو جاتا ہوں اور اسے اپنی ’’فتح‘‘ بتاتا ہوں۔ جن ملکوں کی ہم نے کبھی کسی نہ کسی شعبے میں مدد کی ہوئی ہے۔ آج انہیں اپنی دوستی کا واسطہ دے کر قرض مانگتے پھرتے ہیں، واہ اے میری قسمت۔ وقت نے مجھے کن حالوں پہنچا دیا ہے۔ کل کے سکندر آج کے گداگر بن بیٹھے ہیں اور اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ انہیں دربار شاہی سے خلعت فاخرانہ اور اشرفیوں کے توڑے ملے ہیں۔ وہ اشرفیاں جو میں نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے واپس کرنا ہیں۔ آج کل کے شاہوں کے اپنے انداز ہیں۔ آج کل کی دوستی کے اپنے معیارات ہیں۔ میں جس رو میں لکھتا جارہا ہوں، مجھے ایسا نہیں لگ رہا کہ ایک بار پھر گنوائوں کہ ہمارے ہاں یہ سیاسی بحران نہ آتا تو انتخابات سے ڈیڑھ دو سال پہلے کی طرح نہ ملک سے کوئی 15 ارب ڈالر ملک سے باہر جاتے نہ سات آٹھ ارب ڈالر کی وہ سرمایہ کاری رکتی جو اس وقت آنے کے لیے تیار تھی۔ دنیا نے دیکھا، ہم نے انرجی کا مسئلہ طے کرلیا ہے، لاجسٹک کو بہتر بنا لیا ہے، امن و امان کی صورت حال میں بڑی بہتری آئی ہے اور دوسرے اشاریئے اور عالمی تجزیئے بتا رہے ہیں کہ یہ ملک اب سرمایہ کاری کی جنت ہوگا تو کون یہاں آنے کا نہ سوچے گا۔یک بیک جو ہوا پلٹے تو ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ یہ کسی ایک پارٹی کا قصور نہیں۔ کسی ایک ادارے یا شخص کی کوتاہی نہیں، میں یوں کہے لیتا ہوں کہ یہ تاریخی قوتوں کا بہائو تھا جس نے ہمیں بے بس کردیا ہے۔ خیال رہے کہ سامراجی طاقتوں کو اس تاریخی عمل کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور یہ مجھ جیسا رجعت پسند ہی نہیں کہتا، مارکس کے ماننے والے انقلابی بھی یہی کہتے ہیں۔ ہم تاریخ کی ان قوتوں کی زد میں ہیں۔ اس خطے کا سارا زائچہ بدل رہا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور اپنا رنگ ڈھنگ تبدیل کر رہی ہے اور اس خطے میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔ میں نے عرض کیا تھا خوش قسمتی سے اس بار ہم تاریخ کے درست رخ پر ہیں۔ چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہی نہیں، اس خطے کا مستقبل بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ بات بہتوں کو پسند نہیں۔ ہم اگر محب وطن ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس سی پیک کی ضمانت ہماری مسلح افواج نے دے رکھی ہے اور یہ ایک قومی فوج ہے۔ یہ کسی طرح قومی مفادات کا سودا نہیں ہونے دے گی۔ ہماری سیاسی جماعتیں محب وطن ہیں، وہ کبھی سامراجی طاقتوں کی شہہ میں نہیں آئیں گی۔ اس ملک کے عوام ان قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں گے۔ مجھے ان سب باتوں پر یقین ہے۔ اس لیے سمجھتا ہوں کہ ہم تاریخ کی منفی قوتوں کے خلاف ڈٹ جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جو کچھ ہوا ہے اس نے ایک بار پھر مجھے پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ میں اس وقت ٹی وی کے سامنے بٹھا ایک اور بجٹ سننے کے انتظار میں ہوں۔ اس سال کا تیسرا بجٹ۔ یہ وہ تجربہ ہے جو مجھے ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ حکومتوں نے ماضی میں بڑے گھپلے کئے ہوں گے مگر ایسا کبھی نہ کہا ہو گا کہ چند ماہ میں بار بار بجٹ لے کر آئی ہو۔ مطلب یہ کہ آپ اب تک یک سو نہیں ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار جو 5.8 تک پہنچ چکی تھی اور اب 6 فیصد سے زیادہ ہونا چاہیے تھا، سنا ہے چار فیصد سے بھی کم ہے۔ بعض عالمی ادارے اور ہمارے اپنے حمایتی ماہرین یہ بتا رہے ہیں کہ یہ ساڑھے تین فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ یہ اتنا بڑا دھچکہ ہے جس کی ہم نے کبھی توقع نہ کی تھی۔ اس کا ہماری آئندہ نسلوں پر جو اثر پڑے گا، اس کا اندازہ ہم خودی طور پر نہ کرسکیں۔ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، مجھے یقین ہے آنے والی نسلیں ہمارے اس گناہ کو کبھی معاف نہ کریں گی اور نہ خدا کے ہاں اس کی معافی ہوگی، مسلم امہ کی پیٹھ میں چھری گھونپنے کا قصور کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہم سب مجرم ہیں، ہمیں اعتراف کرلینا چاہیے۔