میں بعض اوقات صورتحال سے نظریں چرانے لگ جاتا ہوں۔ اقبال تو ہوں نہیں کہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ جو بات مرے دل میں ہے‘ وہ اظہار پا جائے تو جانے کون سی قیامت آ جائے۔ تاہم نقشہ ایسا ہی ہے کہ ذرا ذرا سی بات سے ڈر لگتا ہے اور یہ ڈر بے سبب نہیں ہے۔ ہم ابھی اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ اس وقت ملک میں جو بحران ہے‘ اس کا سبب سابقہ حکمرانوں کی کرپشن ہے یا موجودہ برسراقتدار طبقے کی نااہلیت اور نہیں جانتے کہ ہم کہیں بڑے کھیل میں الجھے ہوئے ہیں۔ جو لوگ کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں تو انہیں اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے۔ ہماری سیاست کی کائنات میں بھی ہم ایک ادنیٰ ذرہ ہیں جو بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ دین تو ہاتھ سے گیا تھا اب دنیا بھی چلی جا رہی ہے۔ ہر دو چار مہینے کے بعد کانپنے لگتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ کشمیر کا تو سودا ہو گیا‘ کبھی کہتے ہیں ایٹم بم تو ہم سے چھن گیا۔ ایک ہانک لگاتا ہے یہ سب سازشی نظریہ ہے۔ ہم خواہمخواہ ہلکان ہو رہے ہیں۔ دوسرا بتاتا ہے‘ اس خطے کے حالات کو گہرائی میں اتر کر دیکھو‘ ہمیں گھیر لیا گیاہے اور مزید مشکیں کسی جا رہی ہیں۔ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے ‘ وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ گزشتہ ایک دو صدیوں سے دنیا کی تشکیل کیسے ہوتی رہی ہے۔ کس طرح چند افراد اور خاندانوں نے دنیا میں ایک نظام زر کو رائج کیا۔ کیسے نوآبادیاتی نظام کو دنیا کا چلن بنایا گیا۔ پوری دنیا کو جنگ کی بھٹی میں دھکیلا گیا۔ انسانیت کا قتل عام کیا گیا۔ کیسے نئے بندوبست رائج کئے گئے۔ بیسویں صدی کی کہانی صرف دو جنگوں کی کہانی نہیں‘ ان جنگوں کی آڑ میں دنیا کے تلپٹ ہونے کا قصہ ہے۔ یہ توڑ پھوڑ اب بھی جاری ہے۔ کبھی جمہوریت کی آڑ میں‘ کبھی مساوات کے نام پر‘ کبھی شہری آیادیوں اور انسانی حقوق کا نعرہ بلند کر کے‘کبھی اعلیٰ اخلاقی قدروں کے نام پر حتیٰ کہ وہ وقت بھی آیا اور گزر گیا جب یہ کہا گیا کہ انسانیت اپنے نقطہ عروج تک پہنچ گئی ہے۔ اس خطرے کا اعلان کیا کہ اعلیٰ ترین انسانی قدروں اور اصولوں کے علمبردار ہیں۔ یہ اصول اور یہ قدریں اتنی اعلیٰ اور توانا ہیں کہ ان کی بقا کے لئے اگر جنگ بھی کرنا پڑے تو یہ جائز ہو گا۔ یہ گزشتہ صدی کا اختتام تھا اور اسے نئی امریکی صدی کا پراجیکٹ کہا گیا۔نئی صدی امریکہ کی صدی ہے کیونکہ انسانیت اپنے نقطہ عروج پر جس مقام پر ہے اس کی علامت امریکہ میں تو ہے۔ اعلان ہوا کہ اس عروج کو چیلنج کرنے کے لئے کچھ قوتیں ابھر رہی ہیں‘ ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ چین کو کم از کم 25سال یا پھر 30سال تک تیز رفتاری سے ترقی کرنے سے روکنا ہو گا۔مسلم دنیا کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا ہو گی۔ دو جنگوں میں اسی طرف پیش قدمی کی گئی مگر ابھی مزید ضرورت ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے دنیا کے سامراجی یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔اب تو کھلے عام اس کا پرچار بھی کر رہے ہیں۔ ہم سامراج کی دوہری لسٹ پر ہیں۔ ہمیں چین کا ہم نوا ہونے سے بھی روکنا ہے اور اسلامی دنیا کی طاقت بننے بھی نہیں دینا۔ ہماری فوج اور ہماری ایٹمی صلاحیت ان سامراجیوں کی نظروںمیں کھٹکتی ہے۔ میں جب گزشتہ ڈیڑھ دو صدیوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور اسے آج کے تناظر میں دیکھتا ہوں تو پوری تاریخ ایک مختلف زاویے سے نظر آتی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں‘ فلاں زمانے میں اتنی سازشیں کیوں ہوتی تھیں۔مسلمان مسلمان کے خلاف برسر پیکار کیوں رہے۔ استعماری قوتیں کس طرح آسانی کے ساتھ دنیا میں برسراقتدار آتی گئیں۔ یہ ایک تسلسل ہے جو آج بھی جاری ہے اور کل بھی جاری ہے‘ چھوٹے چھوٹے مظاہر تو اس کی صرف علامتیں ہیں۔ اگر ہمارے ہاں آٹے کی قلت ہو گئی ہے‘ ہماری ساری زرعی ٹھاٹ بھاٹ دھری کی دھری رہ گئی ہے۔ اگر شوگر مافیا نے ہمیں تگنی کا ناچ نچا ڈالا ہے۔اگر ہم ٹماٹر تک کو ترستے رہے ہیں تو یہ صرف اقتصادی مسئلہ نہیں ہے۔ہمیں کم ازکم اتنا تو سمجھ لینا چاہیے کیوں ہماری معیشت ایک تسلسل کے ساتھ تباہ کی جاتی رہی ہے۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں آخر ایشیائی ٹائیگر ویت نام کے اس پار ہی کیوں پیدا ہوئے۔ اب ذرا کھلتے ہوئے آگے آ رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں تیل کی دولت کے باوجود وہاں صنعتی ترقی کیوں نہ ہو سکی۔ہم وسط ایشیا مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشیا کے سنگم پر ہونے کے باوجود ترقی کیوں نہ کر سکے۔ ہمیں ایک سپر پاور کے خلاف لڑایا گیا۔ ہمارا سیاست دان کہتا ہے‘ یہ ہماری غلطی تھی۔ اب ہم کسی کے لئے استعمال نہیں ہوں گے۔ ہر لحاظ سے آگے بڑھنے کے امکانات ہم میں زیادہ تھے۔ ہم نے زقندیںبھی بھرنا شروع کر دی تھیں۔ امریکہ‘ چین‘ جاپان‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی کے بعد جو پانچ ممالک دنیا کی معیشت میں نمایاں ہیں‘ ان میں اٹلی‘ کوریا وغیرہ ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ کوریا تو ترقی کی منزلیں طے کرتا‘ دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے لگا۔ ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ کیا اس ترقی میں جغرافیائی محل وقوع کا بھی تعلق ہے۔ آسانی کے لئے کہا جاتا ہے ہمیں حکمران اچھے نہ ملے۔ ان علاقوں کے حکمرانوں اور طرز حکمرانی کا جائزہ لینے کا بھی دل چاہتا ہے۔ اچھے لوگ بھی ہیں‘ مگر لگتا ہے عالمی سطح پر فیصلہ ہو گیا ہے کہ کس کس علاقے کے کس کس ملک نے ترقی کرنا ہے اور کیوں کرنا ہے۔ یہ پولیٹیکل اکانومی ہے یا کیا ہے۔ میں یہ سارا دکھڑا اس لئے رو رہا ہوں کہ ہمیں پھر ایک بار تاریخ کے نازک موڑ پر ہیں۔ چین کا سی پیک‘ کشمیر کا مسئلہ اور ہمارا ایٹمی پروگرام اس وقت ہماری ایسی قوتیں ہیں جو دشمنی کی نظر میں کانٹے کی طرح کھلتی ہیں۔ جب سی پیک کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تو کہنے والوں نے کہا کشمیر کو بچائو۔ کیا یہ بات غلط ہے کہ اس وقت ہم سی پیک کے بعد کشمیر کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور ڈر رہے ہیں کہ خدا ہمارے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرے۔ آئی ایم ایف والے پاکستان میں آتے ہیں تو ہم گھبرانے لگتے ہیں‘ اس بار ان کے ارادے کیا ہیں۔ اس وقت تیسری قسط صرف 45کروڑ ڈالر ہے۔بڑی رقم نہیں‘ مگر شرائط سے ڈر لگتا ہے۔ جانے صرف اتنے پیسے کے لئے ہم سے کیا مانگا جائے گا۔ یہ جوأ جو اردگردہو رہا ہے‘ یہ صرف چینی‘آٹا‘کپاس کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک جال ہے جو سامراج بڑے سلیقے سے بن رہا ہے۔ ہم رٹ لگا رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت بحران سے نکل آئی ہے۔ یہ منفی سے مستحکم میں آ گئی ہے۔ ہم نہیں جانتے اصل کھیل کیا ہے۔ ویسے تو ہماری معیشت خطرے سے باہر نہیں آئی‘ بلکہ دلدل میں دھنستی جا رہی ہے‘ مگر یہ بھی صرف ظاہری علامت ہے۔ اصل میں اس سب کے اثرات دور تک ہیں: راتیں ترائیوں کی تہوں میں لڑھک گئیں دن دلدلوں میں دھنس گئے ہیں ڈھونڈتا پھرا راتیں ترائیوںمیں لڑھک رہی ہیں‘ دن دلدلوں میں دھنس رہے ہیں‘ سامراج کا سورج نصف النہار پر ہے۔اسے اس کی پروا نہیں کہ ہمارے پاس کچھ بچتا ہے یا نہیں۔ اسے یقیں ہے کہ دنیا کی بقا اس کی حکمرانی میں ہے۔ وہ اپنے حساب سے دنیا کے نقشے بناتا رہتا ہے۔ ع فرزیں سے بھی پوشیدہ ہیں شاطر کا ارادہ شاید ہم نہیں جانتے کہ اگلے ہی لمحے ہمارے لئے سامراجیوں نے کیا طے کر رکھا ہے۔ ہاں‘یہ ضرور ہے کہ اس کائنات کے مالک کے سامنے سب بے بس ہیں۔ ہم تاریخ کے درست رخ پرکھڑے ہونے کی کوشش کریں‘سب مکاروں کی چالیں دم توڑ جائیں گی۔ تاہم یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ جغرافیائی ‘ اقتصادی اور سیاسی طور پر ہماری قسمت میں بہت سی سختیاں ہیں۔ ہمیں انہیں زیر کرنا اور اس جنگ کو جیتنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بہت سخت وقت سے گزر رہے ہیں۔ دشمن جلد بساط لپیٹ دینا چاہتا ہے۔ سارے ٹارگٹ اس کے سامنے ہے۔ ہمیں ہشیار رہنا چاہیے اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا ٹارگٹ کیا ہے۔ اس کی خبر ہو تو پھر دشمن کا نشانہ ہمیشہ خطا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی چالیں الٹ بھی ہو رہی ہیں۔ سی پیک ہو‘ کشمیر ہو یا ہمارا ایٹمی پروگرام‘ انشاء اللہ سب محفوظ رہے گا۔