خاموش نظروں سے اوجھل اور تباہ کْن۔ عصرِحاضر میں جنگوں کے دوران آبدوزوں کے جنگی مقاصد میں استعمال نے نا صرف روایتی سمندری لڑائی کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے بلکہ یہ ملکوں کے دفاع میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ گو کے انسان سولہویں صدی سے ہی زیر سمندر آبدوز کے خیال پر کام کر رہا تھا لیکن عملی طور پر جنگی مقاصد کے لیے آبدوز کا استعمال پہلی مرتبہ امریکی سول خانہ جنگی کے دوران دیکھنے میں آیا جب 1864 میں اتحادی ممالک کی فوج کی جانب سے جزوی طور پر زیر آب آبدوز HUNLEY CSSکی مدد سے 1240 ٹن وزنی امریکی بحری جہاز کو تباہ کرکے سمندر میں غرق کردیا گیا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد واقع نے نا صرف زیر سمندر جنگوں کی ابتداء میں ایک اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آبدوزوں کے جنگی مقاصد میں استعمال اور اس میں شامل خطرات پر بحث ہونے لگی۔ انیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہونے والی سائنسی ترقی نے آبدوزوں کو بھی ٹیکنالوجی اور کار کردگی کے اعتبار سے حیران کن طور پر جدید طرز پر اْستوار کر دیا۔ آج کی جدید آبدوزیں سٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس اور کئی زیادہ فاصلے تک مار ک کرنے والے تباہ کن میزائلوں سے لیس ہیں اگر یوں کہا جائے کہ آج کے دور میں کسی بھی بحری فوج کی طاقت کا اندازہ اس کے پاس موجود آبدوزوں کی تعداد اور جدت سے لگایا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک آزاد ملک کی حیثیت اختیار کرنے کے بعد پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے اوپر خود انحصاری کرتے ہوئے دفاع کونا قابل تسخیر بنانا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کو تقسیم ہند کے نتیجے میں جہاں اور بہت سی زیادتیا ں اور نا انصافیاں برداشت کرنا پڑیں وہیں ان میں سے ایک وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم تھی جس کے نتیجے میں نئی جنم لینے والی پاک بحریہ کے حصے میں محظ دو بادبانوں والے جہاز، دو جنگی جہاز اور چار زیر آب بارودی سرنگیں تلاش کرنے والی قدرے چھوٹی کشتیاں آئیں۔ سمندر میں اپنی طاقت کا لوہا منوانے اور اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے آبدوز کا حصول نا گزیر تھا جس میں پاک بحریہ کو سترہ برس کاعرصہ لگا۔ پاکستان کے بحری بیڑے میں شامل ہونے والی پہلی آبدوز TENCH تھی۔ وسیع و عریض علاقے پر پھیلی سمندری حدود کی حفاظت اور سمندری تجارتی راستوں کو غیر قانونی سر گرمیوں سے پاک کرنے کے لیے پاک بحریہ نے اپنے بحری بیڑے کو وسط دینے کا فیصلہ کیا اور نوے کی دہائی تک چار مزید ڈیفن کلاس اور فرانس کی بحریہ سے 2 آگوسٹا کلاس آبدوزیں حاصل کیں۔ ایک چھوٹے ملک کا آبدوزوں کا حصول کسی سنگ میل سے کم نہ تھا بلکہ آبدوزوں کی بحریہ میں شمولیت کے بعد پاک بحریہ اپنے سے کئی بڑے دشمن کو نہ صرف گردن سے دبوچنے کے قابل ہو چکی تھی بلکہ دشمن کے خطے میں حکمرانی کے خواب کو ہمیشہ کے لیے چکنہ چور کر چکی تھی۔ پاکستان کے پہلی آبدوز جسے غازی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے قائد اعظم کے پاک بحریہ کی یونٹ H.M.P.S دلاور میں جوانوں سے خطاب کے دوران کی گئی بات پر پورا تری۔ آپ کو اپنے حجم کی کمی کو اپنی جواں مردی ا ور وطنیت کے جذبے سے پورا کرنا ہو گاہماری زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ ہمارے اندر کتنی ہمت اور برداشت ہے اور ہم اپنے مقصد کے حصول کے لئے کتنا پْر عزم ہیں۔ غازی اور ہنگور دو ایسے نام ہیں جنہوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا کی بحری افواج کے سامنے ہمت و جواں مردی ، ملک کے لئے قربانی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کی لازوال داستانیں رقم کیں۔1965کی جنگ کے دوران بحری بیڑے میں موجود آبدوزوں کے باعث پاکستان کو ناپاک عزائم رکھنے والے بھارت کے مقابلے میں واضح سبقت حاصل تھی۔ جہا ںپاکستان کی بری فوج کے جوانوں نے زمینی راشتے سے داخل ہونے پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پاک فضائیہ کے طیارے دشمن کے مورچوں پر گولے برساتے رہے وہیںپاک بحریہ عوام کی نظروں سے اوجھل سمندر اور زیر سمندر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے موجود تھیں۔ سب میرین غازی پاکستان بحریہ کی طرف سے تشکیل دی گئی بحری جنگی حکمت عملی کا اہم جزو تھی۔ غازی کو بھارتی بندر گاہوں کے قریب زیر سمندر رہتے ہوئے دشمن اور اْس کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے کی زمہ داری سونپی گئی۔ غازی کئی دن تک ممبئی ہاربر کے قریب زیر سمندر موجود رہی اور بھارتی جنگی جہازوں اور باالخصوص طیارہ بردار جہاز وکرانت کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کرتی رہی۔پاکستان بحریہ کے بیڑے میں شامل آبدوزوں نے بھارتی بحریہ کو سمندر کے راستے کسی بھی قسم کی جارحانہ کارروائی کرنے سے روکے رکھا یہی وجہ تھی کے جنگ کے دوران بھی بھارتی جنگی جہاز ممبئی کا ساحل چھوڑنے سے گھبراتے رہے۔ بھارتی بحریہ کا یہی خوف پاکستان کے لئے کارگر ثابت ہوا اور پاکستان بحریہ نے اپنی آبدوز کی مدد سے بھارتی ساحلی مقام دوارکا پر حملہ کرتے ہوئے بھارتی بحری اثاثوں کو شدید نقصان پہنچایا۔نہ صرف غازی نے بھارتی بحریہ کو 65 ء کی جنگ میں اْن کے جنگی منصوبوں کی تکمیل سے باز رکھا بلکہ 71 ء کی جنگ میں بھی اپنی اسی تاریخ کو دہراتے ہوئے عقل کو دنگ کردینے والے معرکے سر انجام دیے۔ ناقابلِ فراموش نقصان اْٹھانے کے باوجود پاکستان بحریہ نے اپنی دوسری آبدوز پی این ایس ایم ہنگور کو دشمن کے علاقے میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ حکم ملتے ہی ہنگور شارک کی مانند بھارتی مغربی ساحلوں کی جانب گامزن ہو گئی۔ناسازگار حالات اور تکنیکی مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود ہنگور دشمن کی نظروں میں آئے بغیر آگے بڑھتی رہی اور غازی کا ادھورا مشن مکمل کرنے کے لئے بل آخر 9 دسمبر 1971ء کو بھارتی بحری جہاز کے نہایت قریب پہنچ کر اْسے تباہ کرنے کے لئے پوزیشن سنبھال لی۔ ہنگور نے نشانے پر رکھے ہوئے جہاز کْکری پر یکے بعد دیگرے دو تار پیڈو داغے جس میں سے ایک نے بھارتی جہاز کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور محظ دو منٹ کے دورانیے میں بھارتی جہاز عملے کے 200 لوگوں سمیت سمندر بْرد ہو گیا۔ہنگور کا سفر یہاں تمام نہ ہوا بلکہ کْکری کے کچھ فاصلے پر موجود ایک اور بھارتی جہاز پر تیسرا تارپیڈو داغ دیا جس نے جہاز کو شدید نقصان پہنچایا۔ بھارتی جہاز کی تباہی جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا بھر میں یہ پہلا واقع تھا کے کہ کسی آبدوز کی مدد سے بحری جہاز کو تباہ کیا گیا ہو جسے عالمی طور پر تسلیم کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر اپنی شکست اور بھاری نقصان اْٹھانے پر بھارتی بحریہ میں کھلبلی مچ گئی اور بدلے کی غرز سے اپنے تمام وسائل اور وسیع بحری بیڑے کو ہنگور کی تلاش پر لگا دیا۔ اور دوسری طرف ہنگور آپریشن کی تکمیل کے بعد بوکھلائے ہوئے دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے خیر و با عافیت کراچی بندرکاہ پہنچ گئی۔ اس تاریخی کارنامے کے بدلے آبدوز کو 4 ستارہ جرات اور6 تمغہ جرات سے نوازا گیا۔ یہ تعداد پاکستان بحریہ میں کسی بھی یونٹ کو دئیے گئے تمغوں میں سب سے زیادہ ہے۔