سابق آمر پرویز مشرف نے دبئی میں پریس کانفرنس کی اور بتایا کہ عمرانی کابینہ میں آدھے وزیر ان کے ہیں۔ لہجے سے واضح نہیں ہو رہا تھا کہ آپ اس بات پر خوش ہیں کہ آدھے وزیر آپ کے ہیں یا اس بات پر ناخوش کہ آدھے وزیر آپ کے نہیں ہیں۔ جو بھی ہو‘ جو آدھے وزیر آپ کے خیال میں آپ کے نہیں ہیں‘ دراصل وہ بھی آپ کے ہی ہیں۔ فکر پرویزی پر کاربند‘ عملیات مشرفی پر دل و جان سے عامل۔ خود عمران خان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کے تاریخ ساز ریفرنڈم کے روح رواں وہی تو تھے جسد عمرانی ہے تو کیا ہوا‘ روح تو آپ ہی کی دوڑ رہی ہے۔ ہر شے پرفکیٹ ہے ‘ بس آپ کی کمی ہے۔ کسی روز پرواز پکڑ کر تشریف لے ہی آئیے حضور! ٭٭٭٭٭ پریس کانفرنس میں فرمایا‘ اسرائیل کو جلد تسلیم کر لیا جائے اس میں فائدہ ہے۔ آپ اسرائیل کے پرانے وکیل اور خیر خواہ ہیں۔ جب حکومت میں تھے تو اسرائیل کے سناگاگوںمیں آپ کے لئے دعائیں ہوا کرتی تھیں۔ اب شاید کسی اور کے لئے ہوتی ہوں گی۔ اپنے دور میں یہ کار خیر کو کر ہی گزرتے لیکن موقع ہاتھ نہیں آیا۔ اب عمران خاں آئے ہیں تو خواب کی تعبیر نکلتے دیکھ رہے ہیں۔ برحق‘ لیکن اتنی جلد بازی ٹھیک نہیں۔ ابھی خاں صاحب کو آئے ہوئے وقت ہی کتنا ہوا۔ محض چھ مہینے۔ تبدیلی کا ایجنڈا پورا ہو گا بس کچھ صبر‘ تھوڑے انتظار کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم عمران خاں نے دو روز پہلے صحت کارڈ کی تقسیم کا دوبارہ افتتاح کیا۔ پہلا افتتاح نواز شریف نے کیا تھا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ نواز شریف نے اپنے علاج پر قومی خزانے سے 28کروڑ روپے خرچ کر ڈالے۔ یہ انکشاف ازرائے کشف ہی کیا ہو گا اس لئے کہ سرکاری کاغذات میں تو اس بات کا کہیں کوئی اندراج نہیں ہے۔ ہوتا تو نیب ایک ریفرنس اور دائر کر ڈالتا۔ لیکن خیر‘ ریفرنس کا کیا ہے‘ وہ تو کشف کی بنیاد پر بھی دائر کی جا سکتا ہے۔ ویسے خاں صاحب کا سابقہ کشف ابھی ادھورا پڑا ہے۔ وہی تین ہزار کروڑ روپے کی چوری والا کشف۔ کچھ شواہدیاایک آدھ ہی مل جاتا تو نواز شریف پر یہ ریفرنس دائر ہو سکتا تھا۔ پانامہ کیس کے دو ریفرنسوں میں اگرچہ نواز شریف کو سزا تو ہو گئی پر مزا نہیں آیا۔ اس لئے کہ سزا اثاثے آمدنی کے چکر میں ہوئی ‘ کرپشن پر نہیں۔ عمران خان کچھ تپسیا اور کریں ان کے کشف کی اطلاعات ادھوری کیوں رہ جاتی ہیں‘ کچھ اُپائے اس کا کریں۔ وہ تین ہزار کروڑ اور 28کروڑ مل کر تین ہزار 28کروڑ روپے بن جاتے ہیں۔ کوئی ایک آدھ ہی ثبوت کہیں سے مل جائے تو یہ رقم واپس آ سکتی ہے۔ واپس آئے تو مزا آئے۔ خان صاحب‘ اب مزے کا انحصار آپ کے کشوف آئندہ پر ہے۔ ٭٭٭٭٭ ذکر کشوف سے یاد آیا۔ خاں صاحب کا ایک اور کشف ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ این ایل جی کے سکینڈل میں اتنی کرپشن ہوئی ہے کہ سامنے آ جائے تو کرپشن کے باقی سارے کیس تین ہزار کروڑ روپے کی چوری والے کیس سمیت‘ ماند پڑ جائے۔ آپ نے ازراہ کشف یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ کیس ’’امّ الکرپشن‘‘ ہے۔ یعنی ساری کرپشن کی ماں۔ آپ کو آئے ہوئے چھ ماہ پورے ہو گئے لیکن اس بابت خاموشی ہے ظاہر ہے‘ یہ کشف بھی ادھورا ہی رہ گیا۔ ٭٭٭٭٭ کچھ اقتصادی ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومتی پالیسی کے نتیجے میں آنے والے عرصے میں مزید چھ لاکھ پاکستانی بے روزگار ہو جائیں گے اور اندازاً مزید چالیس لاکھ شہری خط غربت سے نیچے لڑھک جائیں گے۔ مولانا مودودی مرحوم نے قرار داد مقاصد کی منظوری پر فرمایا تھا۔ یہ ایسی گھٹا تھی جو بن برسے گزر گئی۔ کوئی ہوا کا جھونکا آیا نہ بوندیں پڑیں نہ گھٹا کے گزر جانے کے بعد کہیں کوئی روئیدگی پھوٹی۔ یعنی حالات جوں کے توں رہے۔ بنجر زمین بدستور بے آب و گیاہ رہی۔ کہیں سبزہ نہ اگا۔ وہ گھٹا تو ایسی بے ثمر تھی‘ یہ تبدیلی والی گھٹا کو کیا نام دیجیے گا؟ یہ تو پہلے سے موجود روئیدگی کو بھی لے گئی۔؟ سعودی دورہ بھی بے اثر رہا‘ سٹاک مارکیٹ بدستور مندی کے ہاتھوں پراگندہ ہے۔ ہر نوع کے خسارے بڑھتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکوں سے ریکارڈ قرضے لئے جا چکے۔ خزانہ بدستور خالی ہے۔ یہ بلیک ہول کہاں سے نمودار ہوا ہے جو ہر شے کو سموئے چلا جا رہا ہے۔ اور رسید تک نہیں دیتا۔ خط غربت سے نیچے چالیس لاکھ نہیں‘ اس سے زیادہ لوگ جائیں گے۔30ہزار ماہانہ کمانے والے کو 20ہزار بجلی کا بل آئے گا اور دس ہزار گیس کا تو وہ بھوکوں مرے گا یا بجلی گیس کے کنکشن کٹوا دے گا؟ اور بجلی کے بل تو اس ماہ اور بھی زیادہ آنے والے ہیں۔ خاں صاحب نے ہر مہینے 60پیسے یونٹ کے لگ بھگ بجلی مہنگی کرنے کا فارمولا نافذ کیا۔ سعودی ولی عہد کی آمد کی خوشی میں اس بار اکٹھا ایک روپیہ ستر پیسے بڑھائے۔ خاں صاحب کے خیال میں ملک کی غریب آبادی سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے لیکن لگتا ہے وہ اس مرغی کو ذبح کر کے ایک ہی بار سارے انڈے نکالنے پر تل گئے ہیں۔ تبدیلی کی یہ گھٹا جسے لانے میں چار سال کا عرصہ لگا اور دسیوں ارب ڈالر کا خرچہ اٹھا۔ اتنی ’’سرمایہ کاری‘‘ کا انجام اتنے برے‘ اتنے بڑے گھاٹے کی صورت میں نکلے گا ‘ حیرت ہے۔ قومی مفاد کی باتیں قومی مفاد ہی جانے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فرمایا ہے‘ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا۔ موصوف نے یہ بات حالیہ واقعات اور دہشت گردی کے الزامات کے پس منظر سے کہی۔ دو اڑھائی سال پہلے یہی بات نواز شریف نے کی تھی تو ’’ڈان لیکس‘‘ کا سانحہ ہو گیا۔ پتہ چلا کہ غداری کے حمام میں ساری مسلم لیگ ننگی ہے۔ اب یہ حمام لگتا ہے‘ ٹرکش باتھ ہو گیا۔ غداری کا بیانیہ اب عین قومی مفاد ٹھہرا۔ موسم موسم کی بات ہے۔کچھ انوکھا نہیں سردیوں میں جو ٹھنڈی ہوا عذاب لگتی ہے‘وہی گرمیوں میں بہار کا جھونکا بن جاتی ہے ۔ اور۔ بہار آ گئی ہے۔