آسمان گہرے سیاہ بادلوں کی جکڑ میں آیا ہواتھا۔رات کا پچھلا پہر تھا،بہت ہی تاریک اور ٹھنڈا۔مَیں تارکول کی سڑک کو بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا۔یہ کچاراستہ تھا،ریتلا۔پائوں ریت میں دھنس رہے تھے۔کچے راستے کے ہردوجانب ریت کے کھیت تھے،کہیں اِکا دُکاپیڑ تھے ،مگر سرکنڈوں کے جھنڈ تھے اور جھاڑیاں۔مَیں چلا جارہا تھا۔ڈیڑھ کلومیٹر چلتے چلتے،اُس ٹوبے کے پاس پہنچ گیا، جہاں سے یہ راستہ دوحصوں میں بٹ جاتاتھا،ایک حصہ ٹوبے کے اندر سے ،دوسرا بائیں جانب اُوپر سے گھوم کر آتاتھا۔مجھے ٹوبے کے اندر سے جانا ہوگا۔جو راستہ ٹوبے کے بائیں جانب گھوم کر جاتا تھا،وہ قصائیوں کے گھروں کے قریب جاپڑتاتھااور قصائیوں کے کتے بہت خطرناک تھے۔یہ بڑے اور اُونچے۔اُن سے بچنا مشکل تھا۔مگر ٹوبہ بہت گہرا تھااور کھلا،سرکنڈے ہی سرکنڈے تھے،چھوٹے موٹے جنگلی جانور راستے میں پڑسکتے تھے۔مگر کتوں سے بچنا ضروری تھا۔مَیں ٹوبے کے اندر اُترتاچلا گیا۔اس کو پارکرے دوبارہ کچے راستے پرآنا،ایک امتحان تھا۔مجھے اپنے وجود پر خوف کا پسینہ محسوس ہوا۔مَیں ناک کی سیدھ میں جاتارہا،اِدھر اُدھر دیکھنا بھی ایک لحاظ سے ناممکن تھا،یہ خوف تھا۔ٹوبے کے درمیان میں پہنچ کر بھاگنا شروع کردیا،اُوپر چڑھنے کے لیے بہت زور چاہیے تھا،جب اُوپر پہنچا ،سانس اُکھڑ چکا تھا۔دائیں طرف دوایکڑکے فاصلے پر تین چار گھر تھے اور بائیں طرف اتنے ہی فاصلے پر قصائیوں کے چند ایک جھگے تھے،یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔دونوں جانب کے گھروں میں روشنی معدوم تھی۔مَیں چلا جارہا تھا۔یہاں سے کوئی آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گھر میرا ٹھکانہ تھا۔کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد،اب کم ازکم کتوں کا خطرہ ٹل گیا تھا۔راستہ ریتلا تھا،یوں چلنے کی آواز بالکل نہیں آرہی تھی،سانس کی آوازتھی،جو کانوں سے ٹکرارہی تھی،ہوارُکی ہوئی تھی اور بادل بہت گہرے تھے۔چند منٹ بعد،گھر جو میرا ٹھکانہ تھا،کا ہیولا محسوس پڑا تو صدیوں کا اطمینان سینے سے آلگا۔مَیں اب گھر کی بیرونی دیوار جو کچے راستے کے ساتھ ساتھ جاتی تھی،کے پاس پہنچ چکا تھا۔راستے کے دوسری جانب ریت کا بڑا ٹبہ تھا۔مَیں نے دیوار پر ہاتھ لگایا،دیوار کھردی تھی،مگر احساس ریشم جیسا ۔دیوار ختم ہوئی،راستہ آگے کو ہولیا،مَیں نیچے بائیں جانب دیوار کے ساتھ اُتر پڑا۔یہ گھرکی مشرقی دیوار تھی،اس کی دوسری نکڑپر دروازہ تھا اور دروانے پر کتالیٹا پڑاتھا۔مَیں قریب پہنچا تو اُس نے لیٹے لیٹے سر اُٹھایا اور غرایا۔ ’’موتی‘‘میرے حلق سے بہ مشکل آواز نکلی، مگر اُس تک جا پہنچی، وہ اُٹھا ،بھاگااور پائوں میں آپڑا۔مَیں نیچے بیٹھ گیا،وہ میرے اُوپر چڑھ گیا،یوںجیسے گلے لگ رہا ہو۔پھر وہ بھاگ کر دروازے پر پہنچااور مخصوص پیار بھری آوازیں نکالتا ،زورزور سے دُم ہلاتاپلٹا۔مَیں اتنی دیر میں دروازے کے قریب پہنچ چکاتھا۔دروازے کو اندر سے کنڈی تھی،مگر مجھے کنڈی کھولنے کا ڈھنگ تھا۔دروازہ کھلاتو وہ بھاگ کر کمرے کے دروازے پر پہنچ گیا۔مَیں نے کمرے کا دروازہ ہولے سے بجایا،اندر سے آوازآئی ’’کون؟‘‘’’مَیں ہوں‘‘یہ سنتے ہی آوازآئی ’’جیویں‘‘اگلے ہی لمحے روشن دان سے روشنی پھوٹی۔ماں نے دئیے کی لو بڑھائی ہوگی۔پھر دروازہ کھلا،ماں نے مجھے اپنے اندر اُتارلیا۔مَیں اندر ہی اندر کہیںاُترتاچلاگیا۔بہت اندر ،بہت ہی اندر۔جہاں روشنیاں تھیں،گلاب کے پھول ،فاختائوں کے گیت تھے،پیڑوں کی نرم چھائوں تھی،نہرتھی،نہر کنارے ننھے پھول ،پھولوں پر تتلیاں تھیں۔مَیں لوٹا ،ماتھے پر ماں کے بوسے تھے ۔ماں نے دروازہ اندر سے بند کیا،کمرے میں چارچارپائیاں تھیں،ایک ماں ،ایک ابا ،ایک بُواکی اور ایک شاید میری تھی۔کمرے کے ایک طرف پیٹی اور اُس پر ٹرنک پڑے تھے،پیٹی اور ٹرنک سلائی کڑھائی والے کپڑوں سے ڈھانپے ہوئے تھے،سفیل خالی تھی۔ابااُٹھ بیٹھا تھا،مَیں نے سلام کیا، بوڑھے ہاتھوں نے میرے ٹھنڈے ہاتھوں کو اپنے اندر بھرلیا،مَیں اُن کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا،بُوا نے عینک لگائی اور ہماری طرف دیکھ کر،بولی’’میر ابچہ آیا ہے‘‘مَیں بُواکے پاس جاپہنچا،وہ کافی دیر میرے سرپر ہاتھ پھیرتی اور دُعائیں دیتی رہی۔ ماں کھانا لے آئی،رات کی بچی روٹی اور ٹھنڈی دال۔لطف آگیا۔اس دوران سب خاموش تھے۔مَیں کھانا کھاچکا تو دئیے کی لو مدھم کی گئی اور سب اپنی اپنی رضائیوں میں چلے گئے۔مَیں نے رضائی کے اندر منہ کیا،تو یوں لگ جیسے قبر میں اُترگیا ہوں،مگر کیا ہی اطمینان تھا۔تھوڑی دیر بعدمنہ نکالا،ماں کی چارپائی کی طرف دیکھا ،وہاں دو آنکھیں جاگ رہی تھیں۔آوازآئی’’خوف کا جِن روزانہ شام پڑتے ہی آتا ہے ،کتازورزور سے بھونکنے کی اطلاع دیتا ہے ،وہ تمہاراپوچھتا ہے،پھر واپس ہو لیتا ہے۔ایسا کب تک چلے گا؟’’’’ایسا کب تک چلے گا؟‘‘مَیں اِن لفظوں میں بہت ہی درد اور بے بسی پاتا ہوں۔مَیں کہتاہوں ’’ماں یہ خوف ہمارے اندر ہوتاہے۔یہ ہم پرہے کہ اس کو اندرہی کچل ڈالیں یا جِن بنا کر گھرکے درواز وں پر کھڑاکریں‘‘’’باپ کے بوڑھے ہاتھوں کو دیکھاہے؟یہ ہاتھ کب کے مرچکے ہیں‘‘ماں یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے۔ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔مَیں مکمل قبر اُوڑھ لیتا ہوں۔ صبح جب قبر سے باہر نکلتا ہوں تو کمرے کو خالی پاتاہوں۔باہر جاتاہوں ،تو ماں اور بُوا چولہے کے پاس بیٹھی ہوتی ہیں ، کیتلی میں چائے اُبل رہی ہوتی ہے،اَبا ،بھینسوں کو چارا ڈال رہا ہوتا ہے۔دوبھینسیں،دوکٹیاں،ایک گائے، تین بکریاں،و سیع صحن کے ایک طرف یہ جانور اپنی دُنیا میں مگن ہوتے ہیں۔اگلے ہی لمحے سب کو میری موجودگی کا احساس ہوجاتا ہے ،مَیں اُن کے درمیان جاپہنچتا ہوں،باری باری سب پر ہاتھ پھیرتا ہوں ،موتی میرے ساتھ ساتھ ہوتا ہے،ماں اُدھر ہی مجھے اور اَبا کو چائے اور ایک ایک اُبلا ہوا اَنڈہ لادیتی ہے۔ ہم دونوں اُدھر ہی کھڑے کھڑے چائے پیتے ہیں،انڈے کھاتے ہیںاو ر مویشیوں کی باتیں کرتے ہیں۔پھر تھوڑی دیر بعد چولہے کے پاس جا بیٹھتا ہوں۔آگ کے شعلے زندگی کا گرم اور توانا احساس دلاتے ہیں ،آسمان بادلوں کی بدستور لپیٹ میں ہوتا ہے۔ابا کمرے کے سامنے پڑی چارپائی پر آ بیٹھتا ہے۔ماں ،میری واپسی کا پوچھتی ہے۔مَیں بتاتا ہوں کہ واپس نہیں جائوں گا۔ماں کہتی ہے ’’شام کو وہ آئے گا اور تمہارا پوچھے گااور ساتھ لے جائے گا‘‘مَیں کہتا ہوں’’ماں!و ہ نہیں آئے گا۔مَیںنے اُس کو اپنے اندر قبر کھود کر کب کا دفنا دیا ہوا ہے‘‘یہ سن کر ماں شاید مطمئن نہیں ہوتی۔ مجھے گذشتہ شام یادآجاتی ہے۔مَیں دفتر سے چھٹی کے بعد فٹ بال گرائونڈ پہنچا تھا۔گرائونڈ میں درجنوں چھوٹی،درمیانی اور بڑی عمر کے لڑکے ،فٹ بال کھیل رہے تھے،مجھے اس گرائونڈ کے چارچکر لگانے تھے۔چارچکر مکمل کرنے کے بعد،مَیں بینچ پر بیٹھ گیا۔مغرب کی آذان چہار سوگونج اُٹھی ۔گرائونڈ کے ساتھ پیڑوں پر پرندے اُترچکے تھے،بہت شور تھا۔گرائونڈ کھیل کودکرنے والوں سے آہستہ آہستہ خالی ہوتا چلا گیا۔اندھیرااُتر پڑا ۔پرندوں کی آوازیں مدہم پڑگئیں۔ایک عرصہ گزرگیا۔اچانک اُلو بولا۔مَیں نے بینچ کو چھوڑا۔ اَب توے پر پراٹھے ڈالے جارہے تھے۔ شوں شوں کی مدہم آواز آرہی تھی۔پراٹھے کھانے کے بعد ہم کیا کریں گے؟ایسے ہی اچانک میرے ذہن میں یہ خیال اُٹھا۔ ماں بولی’’ہم سب شام کا انتظار کھینچیں گے‘‘مَیں کہتا ہوں ’’ماں!آج عصر کے بعدبارش پڑے گی،جواگلی صبح تک رہے گی،اس سے ٹوبے بھر جائیں گے،زمین کی زرخیزی میں وہ اضافہ ہوگا کہ سرکنڈوں اور جھاڑیوںتک میں ،نئی جان پڑجائے گی‘‘ ماں کہتی ہے ’’خداکرے!‘‘ض