سب اہتمام ہو چکا ہے، مولانا فضل الرحمٰن دھرنا ختم کر گئے ہیں، میاں نواز شریف کو حکومت نے ایک دفعہ چار ہفتوں کے لئے ملک سے باہر جا کر علاج کرانے کی اجازت دیدی ہے جس میں یہ لچک بہر حال موجود ہے کہ وہ اس دوران صحتمند نہ ہو پائیں تو اپنے قیام کو طول دے سکتے ہیں، یہ قیام کتنا طویل ہو سکتا ہے اس بارے میں کوئی اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جب تک میاں نواز شریف کا مکمل چیک اپ نہیںہو جاتا اور ڈاکٹر انکی بیماری کے حوالے سے حتمی تشخیص نہیں کر لیتے انکے بیرون ملک قیام کی مدت کا تعین مشکل ہے۔ تشخیص کے بعد علاج کے لئے کتنا وقت درکار ہو گا یہ بھی طے ہونا باقی ہے۔ یہ سب باتیں حکومت کے علم میں ہیں اس لئے وہ انکے بیرون ملک قیام کے حوالے سے چار ہفتوں کی اجازت کے باوجود اس مدت میں توسیع دینے پر رضا مند دکھائی دیتی ہے، لیکن ایسی کیا مجبوری ہے کہ وقت کا تعین بھی کیا گیا اور اس سے بڑھ کر سات ارب روپے کا ایک ضمانتی بانڈ بھی درکار ہے۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کے بس میں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کو روکنا تو نہیں ہے لیکن جس حد تک انکی روانگی میں روڑے اٹکا سکتی ہے ، اسکی کوشش ہو رہی ہے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ وہ ڈیل کا تاثر ختم کرنے کے لئے اس قسم کی قانونی موشگافیوں کا سہارا لے رہی ہے۔ حکومت کو شاید اس بارے میں کوئی غلط فہمی ہے کہ وہ اپنے ووٹرز کو قائل کر لے گی کہ میاںنواز شریف کی صحت کی صورتحال ایسی تھی کہ انہیں باہر بھیجنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ،تا ہم انہوں نے انکی واپسی کے لئے سات ارب روپے کا ضمانتی بانڈ لے لیا ہے جو اس بات کی ضمانت ہے کہ میاں صاحب ملک واپس آئینگے۔تاریخ گواہ ہے قانونی موشگافیاں تو ہمیشہ شریف خاندان کے فائدے کیلئے استعمال ہوئی ہیں۔ جنرل مشرف جیسے طاقتور حکمران بھی ان قانونی موشگافیوں کے آگے بند نہیں باندھ سکے جب شریف خاندان دس سال کی ڈیل کر کے گیا اور سات سال بعد واپس آگیا۔ پھر آٹھ سال بعد سپریم کورٹ نے انہیں پرانے مقدمات میں اپیلوں کی مدت ختم ہونے کے باوجود ریلیف دیا اور کلین چٹ مل گئی۔اس سے قبل قومیائی گئی اتفاق فائونڈری جنرل ضیاء نے شاید ایک روپے میں واپس کر دی تھی۔ حکومت کو یقین ہو کہ نہ ہو کہ نواز شریف واپس آئینگے لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ شریف خاندان جب بھی اس قسم کے دگر گوں حالات سے گزرتا ہے توانکا اگلا سفر پہلے سے بہتر ہوتا ہے اور مالی طور پر وہ پہلے سے بھی زیادہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔اگر انکے نوّے کی دہائی میں لندن میں چار فلیٹس تھے تو موجودہ حکومتی مدت ختم ہونے پر انکے بیرون ملک اثاثوں کا کہتے ہیں شمار ہی نہیں ہے۔تو نقصان میں کون ہمیشہ رہا ہے، یقیناً کوئی شخصیت نہیں یہ ملک اور اسکے عام عوام نے انہیں بھگتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جتنا مرضی اپنے ووٹروں کو قائل کر لیں کہ وہ دو نہیں ایک پاکستان بنانے آئے ہیں ۔ وزیر اعظم نے بلا شبہ معیشت ٹھیک کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے، بیرون ملک پاکستان کے تشخص کو اجاگر کرنے میں بہت کامیاب رہے ہیں، کشمیر کے مسئلے پر انکی سفارتکاری بے مثال ہے اور انہوں نے کشمیر کے سفیر ہونے کے دعوے کی لاج رکھی ہے۔ کرتار پور راہداری کو کھول کو بھارت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے یہ ایک مثالی دور ہے جس کے لئے فوج بلا شبہ تعریف کی مستحق ہے اور وزیر اعظم بھی کہ بلا وجہ سینگ پھنسانے کی عادت انہوں نے نہیں پائی، لیکن وہ دو نہیں ایک پاکستان ے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے پہلے ہی مرحلے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ وہ پاکستان اب بھی وہی موجود ہے جس میں اشرافیہ کے لئے عدالتی عمل سے لیکر قانونی لچک تک عام لوگوں سے با لکل مختلف ہے۔ راتوں رات اشرافیہ کے معاملات جس طرح طے ہوتے ہیں اور وہ بڑے سے بڑے قضیئے میں بھی پھنسے ہوئے ہوں اچانک پھندا ا نکے گلے سے نکل جاتا ہے، یہ صورتحال جوں کی توں موجود ہے۔ میاں نواز شریف چلے جائیں گے بھلے آپ سات ارب روپے کا بانڈ لیں یا وہ عدالت سے آپکی اس پابندی کو ختم کرا نے کی درخواست کر لیں۔ آپ نہ انہیں روک پائے ہیں نہ انہیں انکی مرضی کے بغیر واپس لا سکیں گے۔ ہاں ایک اختیار آپ کے پاس ہے کہ میاں نواز شریف کی آٹھ ہفتوں کی ضمانت مکمل ہونے پر انہوں نے پنجاب حکومت سے مزید رعایت کے لئے رابطہ کرنا ہے اور پنجاب حکومت انکی درخواست رد کر سکتی ہے۔ لیکن بدیں حالات مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی نہیں ہو گا اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت پنجاب حکومت بھی میاں صاحب کی خواہش کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میںآپ سیاسی میدان میں کھل کھیلیں گے تو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک نئی اپوزیشن قوت آپکے سامنے ہو گی اور مولانا کی مدد کے لئے ملک کے اندر اور باہر تمام سیاسی قوتیں متحد ہونگی۔اور میری یہ بات بھی وزیر اعظم صاحب لکھ کر رکھ لیں مریم صفدر بھی چلی جائیں گی۔آصف زرداری بھی بیرون ملک جانے والے ہیں۔کیونکہ انکا کام اب ملک کے اندر نہیں ہے وہ باہر بیٹھ کر اپنی سیاست کریں گے اور آپ کو گرانے کے نت نئے نسخے تیار کر کے بھیجتے رہیں گے جن پر عملدرآمد کے لئے یہاں پر ایک موئثر تعداد موجود ہے۔ ملک کے اندرسیاسی ہنگامہ آرائی سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ہنگامہ اگر باہر بیٹھ کر کیا جائے تو زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔یہ سب چلے جائیں گے اوروزیر اعظم کے لئے سیاسی میدان میں اصل مشکل وقت کا آغاز ہو جائے گا۔مولانا کا پلان ’’بی‘‘ شروع ہو چکا ہے جس سے سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کا خدشہ ہے۔ پلان ’’سی‘‘ سب کے باہر جانے کے بعد شروع ہو گا۔