اپنے موضوع پر بات کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے بعد سری لنکا میں پیش آنے والا دہشت گردی کا واقعہ قابل تشویش ہے۔ اس کے ساتھ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا یہ بیان کہ کوسٹل ہائی وے پر 14 افراد کے قاتل بلوچ علیحدگی پسند ایران سے آئے تھے۔ دہشت گردی کے واقعات میں پہلے افغانستان کا نام آتا رہا ہے، اب ایران کا نام آیا ہے تو پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے اداروں کو الرٹ ہو جانا چاہئے۔اب میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں کہ گزشتہ شب ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل پر صوبے کے حوالے سے مذاکرہ تھا، راقم الحروف بندہ ناچیز کے ساتھ ساتھ سرائیکی رہنما ملک اللہ نواز وینس، انجینئر شاہ نواز مشوری اور تحریک انصاف کے مقامی رہنما یونس غازی شریک گفتگو تھے۔ یونس غازی نے کہا کہ میں میرا تعلق وسیب سے ہے، میں کہتا ہوں کہ صوبہ بننا چاہئے کہ اس میں ہم سب کا فائدہ ہے اور اس سے پاکستان بھی مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ میں نے کہا کہ اقتدار تحریک انصاف کے پاس ہے اور اس وقت وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزراء کا تعلق وسیب سے ہے، کابینہ میں بھی وزراء کی ظفر موج ہے مگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا، خدشہ ہے کہ ایک اور طعنہ ہمیشہ کا وسیب کے حصے میں آئے گا کہ تمہارے وسیب کے پاس اقتدار تھا مسئلے حل کیوں نہ ہوئے؟ اگر ہم ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو نواب مشتاق خان گورمانی ، ملک خضر حیات ٹوانہ ، ممتاز خان دولتانہ ، نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حسین قریشی ، نواب عباس خان عباسی ، مخدوم سجاد قریشی ، فاروق خان لغاری ، سید یوسف رضا گیلانی سمیت وسیب کے جاگیرداروں کی ایک لمبی فہرست ہے جو قیام پاکستان سے لیکر کسی نہ کسی حوالے سے بر سر اقتدار چلی آ رہی ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ملک رفیق رجوانہ پنجاب کے گورنر تھے اور آج سردار عثمان خان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ۔ جب ہم لاہور جاتے ہیں تو ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے اپنے علاقے کے جاگیردار ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ، اگر انہوں نے اپنے علاقے کے لئے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ان سے کیوں نہیں پوچھتے اور اگر لاہور کے میاں برادران بر سر اقتدار آئے اور انہوں نے اپنے لاہور کیلئے ترقیاتی کام کئے تو آپ کو حسد نہیں رشک کرنا چاہئے ۔ میری یہ تمہید اس لئے ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کو اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے ‘ وہ ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں ‘ ان کے والد بھی استاد رہے ، ان کا گھرانہ تعلیم سے محبت کرنے کے حوالے سے مشہور ہے، تو ضروری ہے کہ وہ وسیب کے لئے کچھ کر جائیں تاکہ ان کا نام ، ان کے جانے کے بعد بھی اچھے لفظوں میں پکارا جائے اور دوسرے جاگیرداروں کی طرح ان کا نام وسیب کیلئے ایک طعنہ اور ملامت نہ بن جائے۔ میں ایک اور موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ہمارا عام آدمی تو اپنی جگہ رہا ، وسیب سے تعلق رکھنے والے بہت سے ارکان اسمبلی اور بڑے بڑے سیاستدانوں کو بھی اس بات کا ادراک نہیں کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے ؟ جب ن لیگ سے الگ ہونے والے ارکان اسمبلی صوبہ محاذ بنا رہے تھے تو بہت سے ارکان اسمبلی کی طرف سے مجھ سے پوچھا گیا کہ صوبے کا کیا فائدہ ہے؟ جتنا کچھ میں جانتا ہوں ، ان کو بھی بتایا اور اپنے 92 نیوز کے قارئین کیلئے عرض کرتا ہوں کہ فائدہ ایک نہیں ہزار ہیں ۔ہمارا اپنا صوبہ ، خطے کی شناخت کا ضامن ہوگا۔ صوبہ بنے گا تو خطے کی ماں بولی کو بھی اس کا حق ملے گااور اس کی ترقی اور بہتری کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں بنے گا اور صوبہ بننے کے بعد وسیب کا اپنا گورنر ، وزیراعلیٰ ، چیف سیکرٹری ، سپیکر اسمبلی اور وزیر ہونگے جو اپنے وسیب کی عوام کو جوابدہ ہونگے۔ جاگیردار ہمیشہ اقتدار کے مراکز کا طواف کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے مالدار اور جاگیردار لاہور ، اسلام آباد ، کراچی اور پشاور وغیرہ میں کوٹھیاں بنانا پسند کرتے ہیں ۔ صوبہ بننے کے ساتھ وسیب کے تعلیم یافتہ اور مالدار لوگ بھی پشاور ، لاہور کی بجائے اپنے وسیب میں رہنا پسند کریں گے اور ہمارا اپنا صوبائی سیکرٹریٹ اور سول سروس ہوگا۔ جو ہمارے وسیب کے ترقیاتی پروگرام ترتیب دے کر مکمل کرے گا اور اس طرح وسیب کے سارے مسئلے حل ہونگے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہماری اپنی ہائیکورٹ ہوگی اور سپریم کورٹ کا علیحدہ بنچ ہوگا۔ سی ایس ایس میں ہمارا کوٹہ الگ ہوگا اور ہمارا اپنا پبلک سروس کمیشن ہوگا جو صرف وسیب کے لوگوں کو ملازمتیں دینے کا پابندہوگا۔ ہماری اپنی پولیس ہوگی جس میں وسیب کے جوان ہی بھرتی ہونگے اور فوج میں وسیب رجمنٹ بھی بن سکتی ہے اور کیڈٹ کالجوں کا اجراء ہوگا جس سے وسیب کے لوگ فوج میں کمیشن حاصل کر کے جرنیل کے عہدوں پر پہنچ سکیں گے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے صوبے کے سب سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں نوکریاں صرف وسیب کے لوگوں کو ملیں گی ۔ صوبہ بنے گا تو ہمار ے صوبائی محکمے ہمارے لوگوں کیلئے ہونگے۔ ہمارے لوگوں کے قریب ہونگے ۔ فارن سروسز میں حصہ ملے گا اور ہمارا اپنا علیحدہ صوبائی بجٹ ہوگا جو صرف سرائیکی وسیب پر خرچ ہوگا۔ پانی کے وسائل میں بھی برابر حصہ ملے گا۔ صوبے کے ساتھ ہمارے وسیب میں زرعی آمدن ، دولت اور وسائل وسیب کی ترقی کیلئے خرچ ہونگے اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی ۔ ہمارے صوبے کا علیحدہ تعلیمی بجٹ ہوگا ۔ جس کی وجہ سے بے شمار تعلیمی ادارے قائم ہونگے اور شرح تعلیم بڑھے گی ، زیادہ تعلیم زیادہ خوشحالی کی ضمانت ہوگی۔ صوبہ بنے گا تو ہمارے صوبے کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وسیب کے لوگوں کو داخلہ ملے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ وسیب میں یونیورسٹیاں ، کیڈٹ کالج اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بنیں گے اور وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون اور انڈسٹری قائم ہوگی ۔ بے روزگاری ختم ہوگی۔ یہاں رہنے والے سرائیکی ، پنجابی ، پٹھان، مہاجر بھائی بھی برابر فائدہ اٹھائیں گے ۔ وسیب کے وسائل لاہور اور پشاور کی کارپٹ سڑکوں میل ہا میل لمبے پارک ، فلائی اوور ، رنگ روڈ ، میٹرو بس اور مانو ریل پر خرچ نہیں ہونگے ۔ صوبہ بننے سے وسیب کے لوگوں کو ایک نئی شان اور ایک نئی پہچان ملے گی ، ان کو صدیوں بعد ایک بار پھر اقتدار اور اختیار حاصل ہوگا ، جس طرح غریب کو دوسروں کے محلات کی بجائے اپنی جھونپڑی میں سکون اور عافیت حاصل ہوتی ہے ، اسی طرح خطے کے باسی کو بھی اپنا اختیار اور اپنا صوبہ چاہئے۔