کراچی سے کوئٹہ کی فلائٹ منسوخ ہوئی تو مسافروں نے احتجاج شروع کر دیا۔کئی مسافر ایسے تھے جن کی تیسری پرواز منسوخ ہوئی تھی اور ہفتے بھر سے وہ کراچی میں پھنسے ہوئے تھے۔ انتظامیہ کا اصرار تھا کہ موسم کی خرابی کے باعث جہاز کوئٹہ نہیں لے جا سکتے جبکہ مسافرمختلف طرح کے الزامات عائد کر رہے تھے۔ایک جملہ کئی لوگ دوہرارہے تھے’’تم لوگ ہم بلوچستان والوں کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہو جو روز پرواز منسوخ کر دیتے ہو‘‘۔ ان الزامات میں اس وقت شدت آ گئی جب اُسی جہاز پر اسلام آباد کے مسافر سوار کیے جانے لگے۔ مسافروں کا خیال تھا کہ اسلام آباد جانے والا جہاز وقت پر کراچی نہ پہنچا جس کے باعث کوئٹہ جانے والے مسافروں کو کم اہم جانتے ہوئے اسلام آباد کوان پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ ایک بلوچ بھائی تو اتنا غصے میں تھے کہ ایک ہی جملہ بار بار دہرائے جا رہے تھے’’تم جہاز اڑائو موسم کا میں ذمہ دار ہوں‘‘۔ میں سیلاب کی کوریج کے لیے کوئٹہ جانا چاہتا تھا۔اگلے دن کی فلائٹ تو مل رہی تھی لیکن اگلے روز کے موسم کی خرابی کے بارے میں پہلے ہی سے پیش گوئی موجود تھی۔میں نے سوچا اگر اگلے روز بھی پرواز منسوخ ہو گئی تو کب تک کراچی میں بیٹھا رہوں گا لہذا ائیر پورٹ سے ہوٹل جانے کے بجائے میں نے براستہ سڑک ڈیرہ مراد جمالی جانے کا فیصلہ کیا۔کراچی سے سکھر،شکارپور،جیکب آباد اور ڈیرہ الہ یار سے ہوتے ہوئے مجھے ڈیرہ مراد جمالی پہنچنا تھا۔شام کے چھ بج رہے تھے جب میں کراچی ائیر پورٹ سے روانہ ہوا۔ ہلکی بارش شروع ہو رہی تھی، حیدر آباد پہنچتے پہنچتے بارش نے شدت اختیار کر لی۔ یہ وہ رات تھی جب پورے سندھ اور پورے بلوچستان میں رات بھر شدید بارش ہوتی رہی۔ یہی وہ رات تھی جب جگہ جگہ سے پل ٹوٹنے،سڑکیں بہہ جانے اور راستے بند ہوجانے کی پریشان کن خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ سندھ کے سارے شہر پانی میں ڈوب چکے تھے۔ حیدر آباد سے سکھر کے لیے نکلاتو بارش شدت اختیار کر چکی تھی۔ڈرائیور نے مشورہ دیا کہ سپر ہائی وے کئی مقامات سے پانی میں ڈوبے ہونے کی اطلاع ہے لہذا قاضی احمد شہر تک ہمیں انڈس ہائی وے کا استعمال کرنا چاہیے اور پھر قاضی احمد سے ڈھائی گھنٹے میں ہم سکھر پہنچ جائیں گے ۔ اس حساب سے ہمیں ساڑھے بارہ بجے تک سکھر پہنچ جانا چاہیے تھا۔ اُس رات خوفزدہ کر دینے والی طوفانی بارش برس رہی تھی۔ پورا سندھ بارش کی لپیٹ میں تھا۔ ایک تو اس طوفانی بارش نے ہماری رفتار سست کر دی اور دوسرا جگہ جگہ کھڑے پانی نے ۔لہذا قاضی احمد پہنچتے پہنچتے ہمیں رات کے بارہ بج گئے۔ سکھر سے سجاد پاشا کا بار بار فون آ رہا تھا۔وہ خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ حالات سے بھی با خبر رکھے ہوئے تھے۔ سکھر شہر پانی میں ڈوبا ہوا تھا، بجلی بھی غائب تھی۔ سجاد نے میرے لیے نسبتا کم ڈوبے ہوئے علاقے میں ایک گیسٹ ہائوس میں کمرہ بُک کرا دیا تھالیکن اُس روز سکھر پہنچنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جیسے تیسے ہم قاضی احمد پہنچے تو دیکھا کہ سپر ہائی وے پر ٹریفک معطل ہے۔ کنٹینرز اور ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں ۔ معلوم ہوا کہ آگے سڑک بیٹھ گئی ہے، نواب شاہ، مورو اور سکھر جانے والا راستہ کٹ گیا ہے۔ اُس وقت بھی اتنی تیز بارش ہو رہی تھی کہ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ وہیں سے ڈرائیور نے گاڑی واپس موڑی اور میںگوگل میپ سے ایسا راستہ تلاش کرنے لگاجو گائوں دیہاتوں سے ہوتا ہواہمیں قاضی احمد شہر سے پار لے جائے ۔ ایک راستہ میپ پر مل بھی گیا۔ اُس طرف مڑنے سے پہلے ایک پیٹرول پمپ سے تصدیق چاہی تو بتایا گیا کہ راستہ تو ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ اس وقت یہ راستہ سیلاب میں ڈوبا ہو گا۔کچھ جگہوں سے کچا ہونے کے باعث یہ راستہ غیر محفوظ بھی ہو سکتا تھا۔ ایک بار تو میں نے سوچا کہ حماقت سر زد ہو گئی ہے ،اگلے روز کی فلائیٹ کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔میرے ساتھ ڈرائیور بھی پریشان تھا کہ اتنی تیز بارش میں اب کہاں جائیں۔میں نے دوبارہ میپ دیکھا اور ڈرائیور سے مشورہ کیا کہ ہمیں واپس انڈس ہائی وے پر جانا چاہیے ۔وہاں سے سہون ، دادو ،خیرپور ناتھن شاہ اور میہڑ سے ہوتے ہوئے لاڑکانہ پہنچنا چاہیے اور سکھر جانے کا ارادہ ترک کر دیناچاہیے۔ ڈرائیور نے فورا کہامیں لاڑکانہ ہی کا رہنے والا ہوں یہ راستہ جانتا ہوں۔ گاڑی لاڑکانہ کے راستے پر ڈال دی گئی۔ رات کا ایک بجا تھا ۔ سکھر میں سجاد پاشا کواپنے پروگرام کی تبدیلی سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے فون کیا تو انہوں نے پانچ منٹ میں کال بیک کرنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ پانچ ہی منٹ میں ان کی دوبارہ کال آئی تو لاڑکانہ سے ان کے ایک دوست کانفرنس کال میں ساتھ تھے۔ انہوںنے لاڑکانہ آنے سے منع کر دیا ۔ انہوں نے بتایا کہ پورا لاڑکانہ اس وقت پانی میں ڈوبا ہوا ہے ، دو دن سے بجلی غائب ہے،کسی بھی ہوٹل تک پہنچنے کا راستہ موجود نہیں، ہوٹلز چار چار فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ لاڑکانہ کو بائی پاس کرتے ہوئے خیر پور کے راستے ہمیں سکھر ہی جانا چاہیے، یہی بہتر ہو گا۔ تیز بارش کا سلسلہ جاری تھا،پہلے سہون گزرا ، پھر دادو، پھر خیرپورناتھن شاہ۔کئی مقامات سے راستے بند ملے۔کچھ جگہوں پر سڑک پر کھڑے پانی سے احتیاط کے ساتھ گاڑی گزارنا پڑی۔ خوش قسمتی سے ڈرائیور لاڑکانہ کا رہنے والا تھا ،متبادل راستوں سے ہوتا ہوا لاڑکانہ بائی پاس تک لے گیا۔ تب تک بہت بارش ہو چکی تھی۔ بیشتر راستے بند ہو رہے تھے اور موسلا دھار بارش اب بھی جاری تھی۔ رات کے تین بج چکے تھے۔ راستہ کھلا بھی ملتا تو سکھر پہنچنے میں دو گھنٹے مزید لگتے۔ رات کا آخری پہر، ہر طرف سناٹا، تیز طوفانی بارش اور بارش کے پانی میں راستہ بناتی ہماری کار۔ مزید حماقت کی گنجائش نہ تھی۔ میں نے سکھر جانے کا ارادہ ایک بار پھر ترک کر دیا اور ڈرائیور سے کہا کہ لاڑکانہ ہی میں رہائش کی کوئی راہ نکالے۔ (جاری ہے)