کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر ایک ہم ہیں جدائی کا سبب پوچھتے ہیں عمران خان صاحب فرما رہے ہیں کہ وہ عوام کو نہیں چھوڑیں گے یعنی ان کے ساتھ رہیں گے مگر انصاف کی بات تو یہ ہے کہ وہ عوام سے بھی پوچھ ہی لیں کہ ان کے کیا ارادے ہیں۔ چلیے چھوڑیے ہم آج جلا کٹا کالم نہیں لکھیں گے اگرچہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ حکومت چڑیا گھر کا ٹکٹ بھی تیس روپے سے سو روپے کرنے جا رہی ہے یعنی ان لوگوں کو اس عیاشی سے بھی محروم کیا جا رہا ہے جو بے چارے چند بھلے مانس جانوروں کے معصوم چہرے دیکھ کر خوش ہو جاتے تھے بعض کے لئے تو چڑیا گھر سے زیادہ پرسکون جگہ کوئی نہیں کہ انسان کتنے خونخوار درندوں کو پنجروں میں بند کر دیتا ہے۔حالانکہ تاریخ میں ہونے والی جنگیں اور قتل و غارت کے واقعات کچھ اور بتاتے ہیں مگر انسان کو قید کون کرے یہ تو دماغ کا کھیل ہے مارک ٹون نے تو اس پر بہت مزے کا لکھا ہے کہ اس نے عملی طور پر تجربہ کر کے دکھایا کہ جانور اکٹھے رہ سکتے ہیں یعنی مختلف جانور مگر انسان ایک دوسرے کا اختلاف برداشت نہیں کرتا۔ معاف کیجیے گا میں نے آغاز ہی میں کہہ دیا تھا کہ آج کوئی چٹ پٹا کالم لکھنا ہے کہ باہر اس وقت مکمل بارش کا ماحول ہے کہ جس میں میٹھی چیزیں یعنی پکوان اچھے لگتے ہیں میرے کمرے کی کھڑکی سے باہر سبزہ ہی سبزہ اور جالی سے خوشگوار ہوا اندر داخل ہو رہی ہے چلیے اسی سبزے سے وابستہ ایک نہایت دلچسپ بات آپ کے گوش گزار کرتے ہیں پہلے میر کا ایک شعر سامنے آ گیا: چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے پھول کھلے ہیں پات ہرے ہیں کم کم بادو باراں ہے ہوا یوں کہ کل ایک شخص باہر آیا کہ ملاقاتی ہے۔اس سے ملے تو پتہ چلا کہ وہ پتوکی کا رہنے والا ایک نہایت تجربہ کار مالی ہے اور اس نے ہمارے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے باہر لگے پودوں اور دیوار سے جھانکتے پودوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا کہ یہاں تو رفو کا بہت کام ہے یعنی کانٹ چھانٹ وغیرہ۔میں اس کی چرب زبانی پر حیران ہی تو رہ گیا۔میں اسے لان میں لے آیا تو اس نے اردگرد نظر دوڑائی اور کہنے لگا آپ نے تو سب کچھ ویران کر رکھا ہے انار کو کیڑا پڑ چکا ۔ مسمی کا پودا دیکھیے غرضیکہ اس نے ایک ہی سانس میں سب کچھ ویران کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد وہ انار کے درخت کے نیچے بیٹھ کرجڑوں کوذرا سا کھود کر کہنے لگا۔ جناب اس کو تو سینک لگی ہوئی ہے قریب تھا کہ وہ وہاں سے دوچار کیڑے نکال کر مجھے دکھا دیتا کہ اس میں تو ہم سب ماہر ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ گویا ہوا کہ وہ ایک دن چھوڑ کر آیا کرے گا اور مہینے کے 700روپے لے گا میں حیران رہ گیا اور کہا کہ ہزار روپے لے لیا کرنا۔ یہاں مالی اڑھائی تین ہزار لیتے ہیں کہ کنال کا لان دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے بعد مجھے وقعتاً سبز باغ دکھانا شروع کیا۔ میرے پیارے قارئین!آج آپ کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ سبز باغ دکھانا کیسا ہوتا ہے کہ ہم اکثر حکمرانوں کے بارے میں یہ محاورہ استعمال کرتے ہیں کہ ہر آنے والا ہمیں ایسے باغ دکھاتا ہے کہ وہ آئے گا تو شہد اور دودھ کی نہریں بہہ نکلیں گی۔ خیر وہ پتوکی کا مالی بتانے لگا کہ آپ کا سارا لان لش پش کرے گا اور آپ اپنا ہی آنگن پہچان نہیں سکیں گے پھر وہ ایک نہایت شاطر سیلز مین کی طرح اپنی لائن پر آیا کہ میرے پاس کھاد کیمیکل ہے جو ان پودوں کی جڑوں میں پڑے گا۔ بس قارئین! فوراً ایک فلیش کے ذریعہ دس سال پرانا واقعہ میرے ذہن میں آ گیا کہ تب ایسے ہی مجھے ایک شخص سبز باغ دکھا کر بارہ پیکٹ اس راکھ نما کھاد کے دے گیا تھا اس دھوکہ کا مجھے آج تک قلق تھا۔ میں نے فوراً اس سے پوچھا کہ یہ پیکٹ کتنے کا ہے اور کتنے پیکٹ ادھر پودوں کو پڑیں گے۔ ایک صد پچاس روپے کا ایک پیکٹ اور فی پودہ پانچ پیکٹ۔ میرے تو پرانے زخم ہرے ہو گئے۔ میں سارا کھیل سمجھ چکا تھا مگر میں اسے کیسے کہتا کہ وہ فراڈ کرنے جا رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے تم پہلے گھاس کاٹو باقی باتیں بعد میں ہونگی۔ کہنے لگا پرمیں گھاس کاٹنے والی مشین لے آئوں۔ مجھے پتہ تھا کہ اب یہ فرار ہو رہا ہے۔ اس کے چلے جانے پر میں مسکراتا رہا۔ میں تو ایک مرتبہ ڈسا جا چکا تھا تو بچ گیا آپ دیکھیں کہ ہر شعبے میں کیسے کیسے فنکار ہیں۔ ہمارے ہاں سبز باغ ہی کیا کالا باغ ہی ہے۔ یہاں تو کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کھڑے کھڑے بنا دیے جاتے ہیں۔ وہی کہ: تارے توڑ کے لے آئوں گا امبرسے لیکن آنے جانے میں کچھ دیر لگے گی سبز باغ سے مجھے ایک اور محاورہ یاد آیا کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے ویسے ایک بات ہے کہ سبز باغ دکھانے والا اپنی جگہ مجرم مگر سبز دیکھنے والے بھی تو ساون کے اندھے کی طرح ہوتے ہیں۔ انہیں بھی تو قدرت سزا دیتی ہے۔ خان صاحب نے بھی ہمیں بڑے باغوں کی سیر کروائی تھی۔ وہ تو ملازمین کی تنخواہ کم از کم ڈیڑھ لاکھ بتایا کرتے تھے اب جبکہ وہ سرکاری ملازمین کی سالانہ انکریمنٹ بھی بند کرنے جا رہے ہیں تو ملازمین کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تو چھا گیا ہو گا۔ پتہ چلا ہے اس ظلم کو بھی آئی ایم ایف کے کاندھے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اب ہر فائر اس بندوق سے ہو گا جو آئی ایم ایف کے کاندھے پر دھری ہے اور خان صاحب کی ایک آنکھ نہیں دونوں آنکھیں بند ہیں۔ پہلے ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن نہیں بڑھائی گئی اور وہ بے چارے مہنگائی کے ہاتھوں باں باں کر رہے ہیں۔کتنی مضحکہ خیز باتیں ہیں کہ ابھی کل کوئی اڑھائی ہزار ارب کی بچت ہو رہی تھی جو خان صاحب نے عوام کے لئے بیٹھے بٹھائے کر دی تھی اب یہ نئی بچت ہے جو سرکاری ملازمین کا حق مار کر کرنے جا رہے ہیں۔ خان صاحب نے دیکھا کہ سرکاری ملازمین تو تنخواہیں نہ بڑھنے پر خاموش رہے تو ان کا مزید امتحان لیا جائے لگتا ہے وہ اس ریلیف پر مزید خاموش ہو جائیں گے۔اب سرکاری ملازمین کو سبق مل رہا ہے کہ وہ بھول جائیں کہ آئندہ ان کی اولادیں اس طرف آنے کا سوچیں۔ سرکاری ملازمت کا سوچتے ہوئے بھی لوگ کانپیں گے۔ ملازمت صرف آئی ایم ایف کی یا ورلڈ بنک اور یا پھر کوئی این جی او کی۔ اللہ سرکاری ملازمین کو اپنی پناہ میں لے لے۔