گزشتہ روز یعنی 25جولائی کو ملک بھر میںکچھ لوگوں نے یوم سیاہ‘ کچھ نے یوم سفید منایا۔ ٹھیک ایک سال پہلے‘ اسی روز ملکی بلکہ عالمی تاریخ کے شفاف ترین‘ الیکشن ہوئے تھے۔ شفافیت کا آفتاب طلوع ہوا اور اگلے روز تک اس کی ضیاء پاشی جاری رہی۔ اس آفتاب نیم شب کی کوکھ سے تاریخی فتح برآمد ہوئی۔ واضح رہے کہ اس لفظ کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں۔ اس ایک سال میں پاکستانی قوم نے ترقی کا صد سالہ سفر طے کیا اور نئی منزلیں سر کیں۔ ان منزلوں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ ساری قوم انہی منزلوں کا طواف کر رہی ہیں۔ لیکن برسبیل تذکرہ‘ ہونہار باپ کے ہونہار سپتر حماد اظہر کا تازہ بیان آج ہی شائع ہوا ہے کہ ہمارے دور میں قرضے لینے کی شرح کم ہوئی۔ کتنی کم ہوئی ،یہ نہیں بتایا ،چلئے ہم بتائے دیتے ہیں۔ مسلم لیگ نے اپنے پانچ سال کے دور میں 12ارب ڈالر کے قرضے لئے۔ حماد اظہر کی حکومت نے ایک سال کے دوران16ارب روپے کے۔ یوں آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک سال کے دوران لئے جانے والے قرضوں کی شرح میں کئی گنا کمی ہوئی۔ یہ تو عالمی ریکارڈ ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ حکومت نے اتنے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر قرضے کیوں لے رہی ہے۔ اس کی وجہ عزت مآب عمران خاں نے بتا دی۔ پہلے دورہ امریکہ کے موقع پر‘ پھر وطن واپسی پر کہ قرضے لینے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی‘ لوگ انہیں بھکاری کہتے ہیں‘ وہ غلام بن جاتے ہیں اور کبھی ترقی نہیں کرتے۔ بس یہی وجہ ہے کہ حکومت ماضی کے مقابلے میں کئی گنا کم قرضے لے رہی ہے۔ ایک سال میں صرف 16ارب ۔ کہاں ماضی کی حکومت کہ صرف پانچ سال میں پورے بارہ ارب ڈالر لئے۔ ٭٭٭٭٭ دورہ امریکہ کی کامیابی کے ثبوت سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلا ثبوت یہ ہے کہ حکومت نے میڈیا کی عدالتیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میڈیا پہلے یہ سو فیصد مثبت خبریں چھاپ رہا ہے‘ منفی خبر کی ایک سطر بھی نہیں چھاپتا۔ بظاہر ان عدالتوں کی ضرورت نہیں لیکن حفظ ماتقدم کی ضرورت بھی تو ہوتی ہے۔ ان میڈیا کورٹس کا ’’چیف‘‘ کون ہو گا؟ ٭٭٭٭٭ چند روز بعد سینٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ ہونے والی ہے۔ کیا نتیجہ آئے گا؟ اگر چیف الیکشن کمشنر ہی سینٹ میں گنتی کریں تو مثبت نتیجے کی گارنٹی ابھی سے لے لیں۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ہے۔ احباب میں سے ایک کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس پیسہ بھی بے تحاشا ہے اور ڈنڈا بھی بہت طاقتور‘ پھر نیب بھی جیب میں ہے۔ اس لئے تحریک ناکام ہو گی۔ ویسے گزشتہ روز کا منظر خوب تھا۔ عزت مآب عمران خاں نے دو ہی روز پہلے امریکہ میں خطاب کے دوران جہاں چور ڈاکو اپوزیشن کے لتے لئے‘ وہیں مولانا فضل الرحمن کے خلاف ڈیزل ڈیزل کے نعرے بھی لگوائے اور انہیں جیل میں بند کرنے کا مبارک عزم بھی ظاہر کیا۔ لیکن اگلے روز ہی ان کی صوبائی حکومت کے چیف صادق و امین‘ ایک مرحوم جمہوریت پسند شاعر کے صاحبزادے کے ہمراہ مولانا کی درگاہ پر حاضر تھے اور سراپا ادب و انکسار کی تصویر بنے ہوئے تھے‘ درخواست یہ تھی کہ سینٹ میں وہ نہ کریں جو کرنے جا رہے ہیں۔ خیر‘ صادق و امین حضرات کے نقش قدم یوں بھی ہوا کرتے ہیں اور گاہے ووں بھی۔ ٭٭٭٭٭ آٹھ دس دن پہلے پنجاب کے وزیر اطلاعات صمصام بخاری کی وزارت تبدیل کر دی گئی۔ وجہ بعض ذرائع نے یہ بتائی کہ ہر چند موصوف اپوزیشن کے خلاف گرمی گفتار اور گل افشانی کے جوہر دکھایا کرتے تھے لیکن یہ گہر باری معیار مطلوب سے ذرا کم ہی تھی‘ چنانچہ ان کی جگہ ان سے بہتر آدمی کو دے دی گئی۔ دو تین دن پہلے ایک اخبار میں ان کا سنگل کالمی انٹرویو چھپا جو دراصل کسی چینل پر ان کی گفتگو پر مبنی تھا۔ فرمایا‘ میری مجبوری یہ ہے کہ جب تک کسی ملزم پر چوری ڈکیتی کا الزام ثابت نہ ہو جائے! میں اسے مجرم نہیں کہہ سکتا۔ موصوف نے جو فرمایا‘ دنیا بھر کا دستور ہے لیکن ہمارے ملک کا دستور نافذ العمل ڈیڑھ دو سال سے بدل گیا ہے۔ یہاں ثبوت اثبات شہود و شاھد کے چکر کی اب ضرورت ہی نہیں رہی۔ جہاں پناہ جس کی طرف انگلی اٹھا کر چور کہہ دیں وہ چور، جسے ڈاکو کہہ دیں وہ ڈاکو۔ ان کی انگشت سحر کار چاہے تو کسی صوبے کے سب سے بڑے ڈاکو کو اٹھا کر بڑی کرسی پر بٹھا دے ۔ اسی سحرکاری کا نتیجہ ہے کہ پارٹی میں ’’ایمانداروں‘‘ کی گنتی تمام دوسری جماعتوں کے جملہ مجموعہ سے بڑھ گئی ہے ع تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ’’نیک‘‘ ہوئے ٭٭٭٭٭ مشیرہ اطلاعات نے گھوٹکی کے الیکشن پر تبصرہ فرمایا ہے، قومی اسمبلی کی اس نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار نے آل سندھ پیرو ڈیرہ الائنس اور آل پاکستان نیک ایماندار تحریک کے مشترکہ امیدوار کو لگ بھگ 20ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ مشیرہ نے فرمایا‘ استحصالی نظام ذرا سے فرق کے ساتھ جیت گیا۔ اتنا مشکل تبصرہ! آسان فہم تبصرہ یوں بھی ہو سکتا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کی آنکھ ذرا کی ذرا لگی اور سیٹ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ ٭٭٭٭٭