اگر ٹیکساس امریکہ میں واقع سانتا فے ہائی سکول میںفائرنگ کا اندوہناک واقعہ نہ ہوا ہوتا تو ہمیں پتہ ہی نہ چلتا کہ سبیکا شیخ کون ہے، بھلے وہ کتنا ہی اچھا کام کر رہی ہوتی، ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت یا سفارتکار بننے کا خواب پورا کر چکی ہوتی۔ لیکن اسکی شہادت نے ہمارے اوپر اپنی نوجوان نسل کا وہ پہلو آشکار کیا ہے جس کی وجہ سے آج سارا امریکہ سبیکا شیخ کی نرم دلی، اخلاص، محبت ، اپنی روایات اور مذہب سے لگائو کے گن گا رہا ہے۔ وہ ہماری ان اقدار سے نہ صرف آشنا ہوا ہے بلکہ یہ بھی مان رہا ہے کہ یہ آفاقی قدریں ہیں جس کی سبیکا شیخ حامل تھی۔ سبیکا نے ایک اور بات بھی پوری شدت سے آشکار کی ہے کہ خلوص نیت ہو تو ایک سترہ سال کی بچی بھی اپنے ملک اور مذہب کا نام پوری دنیا میں روشن کر سکتی ہے۔ وہ بھی ایسے دور میں جب اغیار تو کیا اپنے بھی اسلام اور پاکستان کا دہشت گردی سے رشتہ جوڑنے کی سرتوڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سبیکا نے جس طرح اپنے ارد گرد کے لوگوں کے دل بدلے اسکا اظہار اس کے امریکہ میں میزبان کاگبرن خاندان نے انتہائی جذباتی انداز میں کیا۔ خاندان کے سربراہ نے سبیکا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ خدا ہمارے لئے کیا بھیج رہا ہے جب ہمیں بتایا گیا کہ آپ کے ہاں کینیڈی۔لوگر یوتھ ایکسچینج سٹڈی پروگرام کی ایک طالبہ رہے گی اور خدا نے ہمیں سب سے قیمتی تحفہ عطا کیا جو شاید ہماری زندگی میں کبھی نہیںتھا۔ہم سب کچھ مل کر کرتے تھے حتیٰ کہ ماہ رمضان میں ہم تمام ملکر روزے بھی رکھتے تھے۔سبیکا محبت کا سرچشمہ تھی۔ وہ یہاں پاکستان کی نمائندگی کرنے آئی اور اس نے بھر پور نمائندگی کی۔اسکی وجہ سے ہمیں پاکستان سے محبت ہو گئی ہے۔ فرط جذبات سے مغلوب مسز جولین کاگبرن کا کہنا تھا کہ وہ سبیکا کے جذبات دیکھ کر سمجھتی تھیں کہ اس کے اندر ایک جنگجو روح ہے اور وہ دنیا پر اپنا ایک تاثر چھوڑنا چاہتی تھی اور اس نے یہ کر دکھایا۔ سبیکا کی کلاس فیلو اوردوست ، کاگبرن خاندان کی بیٹی مشکل سے چند لفظ کہہ پائیں کیونکہ انکی آواز ہر لمحے بھر جاتی تھی۔جیلین کاگبرن کا کہنا تھا کہ اس کے لئے سکول جوائن کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی، سبیکا کی وجہ سے اس نے سکول جوائن کیا کیونکہ وہ صرف اسکو ہی جانتی تھی۔میری زندگی میں اس سے خوبصورت اور نادر چیز کوئی نہیں تھی میں تمام عمر سبیکا کو بھلا نہیں پائوں گی۔ مائیکل کوگلمین، ووڈروولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز کے سینئر پروگرام ایسوسی ایٹ نے سبیکا کے نام ایک بہت خوبصورت خط تحریر کیا ہے، طویل خط میں انہوں نے لکھا ہے تم کئی خوبصورت خوبیوں کی مالک تھیں لیکن ان میں سب سے خاص تمہارا خالص اور پاکیزہ انداز میں پر امید رہنا تھا۔بلا شبہ دشواریوں سے بھری اس دنیا میں جہاں ڈرائونے خواب حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں وہاں تم اچھی باتوں کے خواب بننے کی جرات رکھتی تھی۔انہوں نے سبیکا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا، بلا شبہ تمہاری موت نے کئی امریکیوں کے ذہنوں میں پلتے ایک نظریے کو بدل دیا۔ ان تمام خیالات سے آپ کو آگاہ کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اچھائی ، محبت، خلوص اوراور سچ کی طاقت کتنی زود اثر ہوتی ہے۔ایک لمحہ جس میں سبیکا نے شہادت پائی اس نے اس حقیقت کو امر کر دیا۔سبیکا اور اس جیسے بہت سے کردار جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں یا حق کی راہ میں جان ہار چکے ہیں ہمارے لئے ایسے آئینے ہیں جس میں ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہے۔ اگر ہمیں اس میں اپنی شکل اچھی نظر نہیں آتی تو سوچنا ہے کہ کیا فرق ہے جو سبیکا چند ماہ میں امریکی معاشرے میں ایک لا زوال نقش چھوڑ گئی اور ہمیں زندگی نے بہت مہلت دی ہے اور دعا ہے کہ یہ مہلت طویل ہو، ہم کیوں یہ نہیں کر پا رہے۔ہماری قیادت سے لے کر عام آدمی تک، خصوصاًـ نوجوانوں کے لئے اس سانحہ سے سبق لینے کی بھرپور رہنمائی موجود ہے۔ وہ ہے محبت۔کئی دہائیوں سے نفرتوں کو ہم نے اتنا فروغ دیا ہے کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ایک اجتماعی کوشش کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نفرت ایک ایسی جیل ہے جس میں کم از کم سزا عمر قید ہے۔ اس قید سے ہمیں جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب بیان کیا ہے: روشنی کے رستے میں خود رکاوٹیں بن کر لوگ کہتے پھرتے ہیں ہر طرف اندھیرے ہیں اپنی کھڑی کی ہوئی نفرت کی دیواروں کو گرائے بغیر ہم سبیکا شیخ کا عزم پیدا نہیں کر سکتے۔ ملک کے اندر اور دور دیس ہر جگہ سبیکاجیسا کردار ادا کر سکتے ہیں جس سے کایہ پلٹ سکتی ہے۔ہمارے بہت سے لوگ ملک کے اندر اور باہر بھی ایسا کام کرر ہے ہیںجو بہت قابل ستائش ہے۔ لیکن ہمیں ان رول ماڈلز کو نا صرف تلاش کرنا ہے بلکہ ان آئینوں کی طرح اپنے آپ کو صیقل کرنا ہے کہ ہماری آب و تاب بھی ویسی ہو جیسی سبیکا کی تھی۔ سبیکا کے والدین بھی ہمارے لئے ایسی مشعل ہیں جسکی روشنی سے ہم اپنے بچوں کی کردار سازی میں مدد لے سکتے ہیں۔ انکا دکھ یقیناً بہت بڑا ہے۔ جو والدین اپنی بچی کی عید پر ملنے کے لئے راہ دیکھ رہے ہوں انہیں اپنے ہاتھوں سے سپرد خاک کرنا پڑے۔ کیسی قیامت نہیں گزر رہی ہو گی ان پر۔لیکن انکو فخر ہو گا کہ سبیکا کی انہوں نے جو تربیت کی تھی اس نے امریکہ کے اندر تمام نہیں تو کچھ دلوں میں اس ملک پاک کے لئے ایسا محبت کا بیج بویا ہے جو تناور درخت بنے گا۔ اختتام میں مائیکل کوگلمین کے خط کے آخری حصے کا حوالہ ضرور دوںگا اس امید کے ساتھ یہ خواہش پوری ہو۔ ہم امید کرتے ہیں مستقبل میں ہمیں یہاں (امریکہ میں) دوسری سبیکائوں کے بارے میں سننے کو ملے گا، جی نہیں انکی المناک موت کی خبریں نہیں بلکہ اپنی زندگیوں میں اثر انگیز کاموں کی وجہ سے۔امید ہے آپ سب ان سبیکائوں کی حوصلہ افزائی کریں گے۔