ایک بار پھر وزیر اعظم نے مذہبی معاملات اور تاریخ پر بات کرتے ہوئے غیر محتاط الفاظ اور غیر مناسب پیرایہ اختیار کیا۔حالانکہ اس خطاب میں ان تاریخی اور مذہبی واقعات کو چھیڑنا ضروری نہیں تھا۔لیکن ہم چو ما دیگرے نیست(مجھ جیسا اور کوئی نہیں) کا زعم یہ سب کچھ کروا کر ہی دم لیتا ہے۔اس سے پہلے بھی ان کی گفتگومیں ان غلط اور غیر مناسب باتوں کی نشان دہی کی جاتی رہی ہے جن سے نہ صرف ملک کی سبکی ہوتی ہے بلکہ وزیر اعظم کے مبلغ ِعلم اور دانش پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔ جاپان اور جرمنی کی ہمسائیگی کو تو آپ زبان پھسل جانے اور حافظے کی بھول پر محمول کرسکتے ہیںلیکن بے شمار باتیں جمع ہوجائیں تو کس کس کی تاویل کیجیے گا۔ بھٹو صاحب جب1977کی مخالفانہ تحریک اور پھر زوالِ اقتدار کی زد میں آئے تو انہی دنوں احمد ندیم قاسمی نے یہ شعر کہا ہر ایک ڈوبنے والا یہ سوچتا ہے کہ میں بھنور سے بچ کے نکلتا تو پار اتر جاتا یہ شعر قاسمی صاحب نے یقینا اسی تناظر میں کہا تھا۔نہ بھی کہا ہو تو مجھے اسی پس منظر میں محسوس ہوتا ہے۔اور یہ کتنی بڑی حقیقت ہے کہ ہر حکمران کو اس کا مزاج اور اس کے حواری اس کی کشتی کی مضبوطی اور پتوار پر اس کی گرفت کا یقین دلا کر ان گردابوں کی طرف لے جاتے ہیں جہاں سے بچ نکلنا بس میں نہیں ہوتا۔ ڈوبتے ڈوبتے وہ سوچتا ضرور ہے کہ اس بھنور سے بچ کر گزرا جاسکتا تھا۔اس سے گزرنا کوئی لازمی تو نہیں تھا۔لیکن کیا جائے، یہ بھنور ہرحکمران کے اندر چنانچہ مقدر ہوتا ہے۔ حقیقی مسائل کے ہوتے ہوئے غیر حقیقی مسائل ہر حکومت خود بنا لے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ملک کو اضافی اور غیر ضروری مسائل سے بچا کر اصل مشکلات کی طرف رخ رکھا جائے۔ادھیڑ عمری میں مذہب کی طرف میلان ہوجانا بھی ہمارے معاشرے میں ایک عام رجحان ہے۔ویسے تو یہ خوش قسمتی کی بات ہے لیکن ہمارے معاملے میں بدقسمتی ہی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جب جذبہ ٔ ایمانی، کج فہمی اور حاکمانہ مزاج کے ساتھ ملتا ہے تو کم بختی پڑھنے اور سننے والے ہی کی آتی ہے۔یہ کمبختی اس وقت شامت میں بدل جاتی ہے اگر اس نے کچھ کچی پکی فارسی اردو مذہبی کتابیں بھی پڑھ لی ہوں۔پھر تو وہ فقیہ بھی ہے ، مفسر بھی اور مجتہد بھی۔ میں ان افسران کو جانتا ہوں جن کی نخوت،تکبر، رعونت اوربد مزاجی ان کے محکموں میں افسروں اورنچلے ملازمین میں مشہور و معروف تھی۔کہا جاتا تھا کہ اگر وہ آپ کو مصافحے کی عزت بخشیں اور انگلیوں کی صرف اگلی پوریں آپ کی انگلیوںسے مس کردیں تو اس پر ناز کیجیے ،یہ سعادت خوش نصیبوں کو ملتی ہے۔پر کشش تنخواہوں،قابل رشک اختیارات، غیر ملکی دوروں، سرکاری پلاٹوں کے حصول کے بعد جب ان کی کم و بیش چالیس سالہ ملازمت اختتام کو پہنچتی ہے اور وہ اپنے اعلیٰ عہدے کی توسیع یا کسی دیگر اعلیٰ عہدے کے حصول میں ناکام ہوجاتے ہیں تو ان کی طبیعت وعظ و نصیحت اور اصلاح معاشرہ کی طرف بے تحاشا مائل ہوجاتی ہے۔وہ کالم نویسی اختیار کرتے ہیں۔ٹی وی میزبان بن جاتے ہیں۔سیاسی محاکمے کرتے ہیں،تفسیر قرآن لکھتے ہیں اور ہر شعبے میں بے محابا دخل دیتے ہیں۔سوائے اپنے شعبے کے۔وجہ وہی مزاج کہ ہم چو ما دیگرے نیست۔ تاہم اتنی سمجھ ان کو ہے کہ جو زہر افشانی ہو، کوئی تگڑا شخص یا طبقہ اس کی زد میں نہ آئے ،جو برابر کا جواب دے سکتا ہو ۔مشتاق احمد یوسفی کا مزے کا جملہ ہے کہ چنیوٹی میمن پاگل بھی ہوجائے تو دوسرے کی پگڑی اتار کر اپنے گھر میں ہی پھینکتا ہے۔سو زہرناکی اپنی جگہ اور یہ احتیاط اپنی جگہ کہ ہدف وہی ہونا چاہیے جو کمزور اور جواب دینے کے قابل نہ ہو۔ مجھے وہ ریٹائرڈ افسر یاد آگئے جوکسی محکمے کے ایک اعلیٰ عہدے سے طویل ملازمت کے بعد ریٹائر ہوئے تھے اور بطور ناشر مجھ سے اپنے تفسیری مسودے پر مشورے کے لیے تشریف لائے تھے۔بیٹھتے ہی تحکمانہ لہجے میں بولے۔ ’ ’اس طرح کی تفسیر چودہ سو سال میں آج تک نہیں لکھی گئی۔قرآن کا مطلب کسی مولوی نے کبھی سمجھا ہی نہیں۔یہ بالکل نئی قسم کی تفسیر ہے‘‘ ۔ میں ان کے لہجے اور جملوں کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مسودہ دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا۔آپ نے عربی کہاں سے سیکھی؟بولے مجھے تو عربی نہیں آتی ۔ تو آپ نے قرآن مجید کیسے پڑھا۔بولے اردو ترجموں کی مدد سے۔میں نے پوچھا ،کون سے ترجمے۔انہوں نے چند مترجمین کے نام لیے۔میں نے کہا یہ تو سب وہ مولوی ہیں جنہوں نے بقول آپ کے قرآن کا مطلب کبھی سمجھا ہی نہیں۔ پوچھا ،آپ نے تفاسیر کون سی پڑھیں۔انہوں نے چند نام بتائے۔میں نے کہا ۔یہ بھی وہ مفسرین ہیں جنہوں نے چودہ سو سال میں آپ کے بقول درست تفسیرکی ہی نہیں۔جو عربی کتب اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوئیں۔ آپ ان تک کیسے پہنچے؟پتہ چلا کہ ان کے پاس ان تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ میں نے بات کا رخ ان کے محکمے کی طرف موڑ دیا۔پوچھا ،آپ نے اپنے چالیس سالہ پیشہ ورانہ تجربات پر کوئی کتاب لکھی؟ کوئی مضمون لکھا؟ کوئی تجاویز پیش کیں؟ان سب کا جواب نفی میں تھا۔میں نے کہا ،گذشتہ چالیس سال میں آپ کاادارہ ہر لحاظ سے زوال کا شکار ہوا ہے۔آپ مسلسل اس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے ہیں۔کیا آپ خود کو اس زوال کا کسی درجے میں ذمے دار سمجھتے ہیں؟ بولے اکیلا آدمی کیا کرسکتا ہے۔میں نے کہا ،اکیلا آدمی اسی طرح کا کوئی کارنامہ کرسکتا ہے جیسا آپ نے1400سال بعدعربی نہ جانتے ہوئے ایک انقلابی تفسیر لکھ کر کیا ہے۔میں نے اپنا طنز چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔مجھے افسوس تھا اس ذہنیت اور اس نا اہلیت پر۔اور میں ان کا ماتحت بھی نہیں تھا کہ ان کے رعب میں آؤں۔جو بات میں ان سے نہیں کہہ سکا وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور تجربات پر کتاب اس لیے نہیں لکھی کہ اس سے معلوم ہوجاتا کہ وہ اس منصب کے لیے نااہل تھے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔کہنا تو صرف یہ تھا کہ اے ہمارے پیارے وزیر اعظم! جنہیں ہم نے بہت چاؤ سے تخت پر بٹھایا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ آپ پرانے اور اصل مسائل کی طرف توجہ مرکوز رکھیں اور نئے مسائل پیدا نہ فرمائیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ آپ مذہبی معاملات پر اظہار رائے سے اجتناب کریں اور اگر بہت ہی زیادہ شوق ہو تو کسی معتبر عالم سے ٹھیک بات اور درست الفاظ سیکھ لیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ ان بھنوروں سے بچ کر گزر جائیں جن سے گزرنا ناگزیر نہیں ہے اور جو بہت سی کشتیوں کو لے کر بیٹھ چکے ہیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ آپ ڈوبے بغیر پار اتر جائیں اور ہمیں بھی اتار دیں؟