سیاسی بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے۔مسائل الجھ رہے ہیں اور انتشار بڑھ رہا ہے ۔ یہ بحران سیاست دانوں کا ہی پیدا کردہ ہے،کوئی بھی سیاسی جماعت اور سیاستدان ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لئے کوشاں نہیں ۔پاکستان میں یہ صورت حال پہلی بار نہیں ہوئی۔پاکستان میں سیاسی قیادت یا تو کسی بحرانی کیفیت سے نکلنے کی اہلیت سے محروم ہے یا بوجوہ بحران سے نکلنا ہی نہیں چاہتی۔ موجودہ سیاسی بحران جس کا آغاز اس سال کے شروع میں ہوا اور اس میں شدت اپریل میں عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم کی کامیابی کے بعد پیدا ہوئی ۔عمران خان نے حکومت کی تبدیلی کو مسترد کرتے ہوئے عوام کو احتجاجی سیاست کے لئے متحرک کردیا جس میں وہ اب تک بڑی حد تک کامیاب ہیں۔انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کئے اور اپنی مقبولیت کا بھرپور اظہار کیا ۔ مزید یہ کہ قومی اسمبلی کی مختلف نشستوںکے لئے ہونے والے ضمنی انتخابات میں کئی نشستوں پر وہ خود امیدوار ہوئے اور کامیاب بھی ہوئے اگرچہ انہیں موجودہ قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بننا تھا۔انتخابات میں ان کی شرکت محض اپنی مقبولیت کے اظہار کے لئے تھی جس میں بلا شبہ وہ کامیاب رہے ہیں اور اب وہ اپنے مطالبات کے حق میں لانگ مارچ کر رہے ہیں جس کا آغاز لاہور سے ہو چکا ہے اور جس کی منزل اسلام آباد پہنچنا ہے۔ عمران خان کی اس پوری احتجاجی مشق کا ہدف فوری اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے موجودہ اتحادی حکومت کو مجبور کرنا ہے۔وہ اپنے مطالبات کس سے منوانا چاہتے ہیں، انتخابات کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے اور اس کا انعقاد کب اور کیسے ہو گا یہ فیصلہ کرنا کس کی آئینی ذمہ داری ہے۔یہی وہ مخمصہ ہے جس سے عمران خان سمجھنے اور نکلنے کے لئے تیار نہیں ۔ اگر وہ واقعی ملک میں انتخابات کے لئے سنجیدہ ہیں تو اس کے لئے انہیں موجودہ حکومت سے بہر صورت بات کرنا ہو گی خواہ وہ اس حکومت کو ماننے سے کتنے ہی انکاری کیوں نہ ہوں۔ وہ الیکشن کمیشن کی موجودہ ہیئت کو بھی تسلیم نہیں کرتے بالخصوص وہ الیکشن کمیشن کے چیف کو غیر جانبدا رنہیں سمجھتے۔اب ایسی صورت میں ان کے مطالبہ کی پذیرائی کیسے ہو ؟ ۔ لانگ مارچ کے دوران انہوں نے حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کے امکانات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سے بات نہیں کرینگے۔ البتہ وہ ان سے بات چیت کے لئے آمادہ ہیں جن سے شہباز شریف ان کے بقول گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر ملنے جایا کرتے تھے ۔سیاست دانوں کی یہی دوعملی ہے جو ملک کے سیاسی نظام میں ہمیشہ ان کی کمزوری کا سبب بنتی رہی ہے۔سیاست دان سیاست میں فوج کی مداخلت بھی نہیں چاہتے اور درپردہ اپنے مفاد اور مطالبات کی پذیرائی کے لئے اس کی مدد اور مداخلت کے خواہشمند بھی رہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی سیاسی اور انتظامی معاملات میں کبھی منظر پر اور کبھی پس منظر میں رہ کر ہمیشہ ہی موثر کردار ادا کرتی رہی ہے ۔سیاست دان جب تک اس دو عملی سے خود کو آزاد نہیں کرپا تے سیاسی نظام میں انہیں قرار واقعی اہمیت کا ملنا محال ہے۔ عمران خان نے گزشتہ دنوں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جس طرح وزیر اعظم کا ذکر کیا ہے سیاسی اخلاقیات اوردینی تعلیمات اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔ اس طرح کے بیانات سے جلسے جلوسوں میں شرکا ء کو توگرمایا جاسکتا ہے مگر اس سے سیاسی مقاصد کی تکمیل اور جدوجہد کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ایک طرف سیاست دان اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں حکومت میں آزادانہ کام کرنے کا اختیا ر نہیں ملتا تو دوسری طرف سیاستدان سیاسی معاملات اور مسائل کو باہمی سطح پر طے کرنے سے گریز کرتے ہوئے ان ہی غیر سیاسی قوتوں کی مدد اور مداخلت کوضروری سمجھتے ہیں۔عمران خان اگر حکومت سے کسی بھی سطح پر بات نہیں کرینگے تو پھر وہ الیکشن کے جلد اور منصفانہ مطالبہ کو کس سے منوابا چاہتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت پر دبائو ڈالتے ہوئے ان کا مطالبہ کو پورا کروائے۔ فرض کریںکہ ایسا ہو جاتا ہے اورحکومت دبائو میں آکر جلد انتخابات کا اعلان کر دیتی ہے۔تب بھی اس کی ممکنہ عملی شکل کے مطابق موجودہ حکومت ہی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کرے گی پھر آئینی تقاضے کو پورا کرتے ہوئے عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے قومی اسمبلی میں موجود قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرے گی جونوے ر وز میں انتخابات کرانے کی پابند ہوگی۔کیا عمران خان موجودہ حکومت کے ان اقدامات کو تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ہونگے بظاہر اس کا امکان نہیں ۔ عمران خان کا سیاستدانوں سے متعلق غیر لچکدار رویہ اسی خواہش کے زیر اثر معلوم ہوتا ہے بھی تیار نہیں ۔ یہ سیاست دانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے مسائل خود طے کریں۔جمہوری سیاست کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ سیاسی ادارے مضبوط ہوں ۔فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مداخلت سے گریز کے طرزعمل کو دوام بھی اسی صورت ممکن ہے جب سیاست دان دو عملی ترک کرتے ہو بالغ نظری کا مظاہرہ کریں۔حکومت اور حکومت سے باہر تمام ہی سیاست دانوں کو جمہوری عمل کی خاطر مفاہمت کی فضا کو قائم کرنا ضروری ہے۔اس ضمن میں حکومت کے اکابرین کو مفاہمت کے لئے پہل کرنا چاہئیے۔ جمہوری سیاست میں مفاہمت اور مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہنے چاہئیںعوام اپنے نمائندوں کو اسی لئے منتخب کرتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں جا کر ان کے مسائل کی آواز بنیں قومی مشکلات کا حل تلاش کریں اور مناسب حکمت عملی وضع کرتے ہوئے ملک و قوم کی رہنمائی کریں۔اداروں کی موجودگی میں سڑکوں پر سیاست مقبولیت اور طاقت کا غیر ضروری اور پریشان کن اظہار ہے ۔عمران خان اس وقت ایک مقبول سیاسی قائد ہیں اور ان کی سیاسی جماعت بھی موثئر انتخابی طاقت کی حامل ہے اس بات کے ماننے میں بھی کسی کو بھی کوئی تامل نہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ان سیاسی حقائق کے باوجود غیر سیاسی رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان کی عجلت پسندی ا ور ضد پر مبنی سیاسی روش خود ان کی مقبولیت پر منفی نتائج کا سبب بن سکتی ہے ۔سیاسی مسائل کو حل کرنے کی بہتر حکمت عملی صحیح وقت پر فیصلہ کرنے میں ہی ہے اگر وقت پر درست فیصلہ نہ ہو اور معاملات ہاتھ سے نکل جائیں تو پھر قیادت کی مقبولیت ریت کا گھروندہ بھی بن جاتی ہے مقبولیت کا استقرار سیاسی قیادت کی دانائی پر ہی منحصرہے ۔ یہ بات عمران خان کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ سیاسی حالات ان سے اسی سیاسی دانائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔انہیں انا کے خول سے باہر آکر اپنے مطالبہ کی پذیرائی کے لئے سیاسی قوتوں سے بات کرنا ہوگی اس سے ان کا مسلسل انکار خود ان کی سیاست کے لئے اور ملک کے سیاسی نظام کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دیکھیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟۔