گزشتہ کالم ہی کے تسلسل میں یہ کالم لکھ رہی ہوں۔ اس لئے کہ کالم پر آنے والے فیڈ بیک سے اندازہ ہوا کہ صورت حال اس سے کہیں زیادہ ابتر ہے جس کا تذکرہ میں نے اپنے کالم میں کیا۔ بہت سی ای میلز ایسی آئیں کہ قارئین نے اپنے ڈپریشن کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی مسائل پر لکھا کہ میں ان کے راز کی امین ہوں۔ کچھ سوالات ایسے تھے کہ ان کے جواب کے لئے ایک اور کالم لکھنے کا ارادہ کیا۔ تاکہ اس سلسلے میں کچھ رہنمائی ہو سکے۔ ڈپریشن ‘ ذہنی دبائو‘ (anxiety)ہمارے لائف سٹائل کا ایک بائی پروڈکٹ ہے۔ یعنی زندگی میں ہم خواہشوں ‘ضرورتوں اور مقاصد کی جس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اس سارے عمل کے بائی پروڈکٹ کے طور پرہم اپنے اپنے حصے کا ڈیپریشن اور ذہنی دبائو بھی حاصل کرتے ہیں۔ ذہنی دبائو ہلکی ترین صورت سے لے کر شدید ترین صورت تک انسانی زندگی میں سکون اور خوشی کے احساس کو غارت کر کے زندگی کو بوجھل بنا دیتا ہے اور بعض صورتوں میں مریض کی زندگی اتنی بوجھل ہو جاتی ہے کہ وہ اپنی جان لے کر اس بوجھ سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس انتہائی صورت حال سے پہلے ہی ذہنی دبائو اور ڈپریشن کے عفریت کو قابو کر لینا چاہیے۔ چند عادات رویے یا تکنیکس آپ جو بھی کہہ لیں اپنی زندگی میں شامل کر کے ڈپریشن کی ابتدائی صورت کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یہ تکنیکس سب کو سیکھنی چاہئیں۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص خود کو اس تاریکی سے دور رکھنے کا دل سے خواہش مند ہو ،صرف وہی شخص زندگی کی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لئے کام کر سکتا ہے۔ وگرنہ تو یہاں ہر شخص وقت نہ ملنے کارونا روتا نظر آتا ہے۔ پانچ وقت نماز کی پابندی کرنے والا انسان خودبخود ایک ایسے نظام الاوقات کا پابند ہو جاتا ہے جو اسے ذہنی صحت کے راستے کی طرف لے کر جاتا ہے۔ زندگی کے مسائل جب ہمارے حوصلے اور ہمت سے بڑھنے لگتے ہیں تو ہی ہم ڈپریشن اور ذہنی دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ بے بسی کی اس صورت حال میں جب انسان کائنات کی سپریم پاور کے سامنے خود کو سرنڈر کر کے اس عظیم طاقت سے جڑ جاتا ہے تو وہ خود کو روحانی طور پر مضبوط محسوس کرتا ہے۔ صرف اسلام میں نہیں دنیا کے تمام مذاہب میں ذہنی اور روحانی سکون حاصل کرنے کے لئے سپریم پاور کے سامنے خود کو سرنڈر کرنے کا تصور موجود ہے۔ نماز تو ایک بنیادی چیز ہے، اس کے بعد اللہ کے ذکر سے دل کو سکون اور اطمینان کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔ توفیق بھراس کا اہتمام بھی ضرورکریں۔ مازینہ رفیع کینیڈا میں عورتوں کی صحت کے لئے کام کرتے ادارے سے وابستہ ہیں۔ خاص طور پر بریسٹ کینسر کے حوالے سے کام کر رہی ہیں بیماری کے دوران ڈیپریشن سے گزرنے والی خواتین کو خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ اسم الٰہی کا ورد کیا کریں اور ذہنی دبائو کے دوران جب بھی Panicہوں وہ اللہ کا کوئی نام شفا اور سکون کے یقین کے ساتھ بار بار دھرائیں۔ اس سے باقاعدہ انسانی جسم میں سکون پیدا کرنے والے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں۔ مازینہ کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین کے ساتھ ان کے ویمن ویل ینس انسٹی ٹیوشن میں غیر مسلم خواتین بھی ذہنی دبائو سے بچائو کی یہ تکنیک استعمال کر رہی ہیں۔ بات صرف یقین کی ہے۔ذہنی دبائو سے نکلنے کا ایک اور آسان اور تیر بہدف نسخہ تیس سے چالیس منٹ کی تیز واک اور ورزش ہے۔ کم از کم دورانیہ 30سے پینتیس منٹ ہونا چاہیے۔ اتنے دورانیہ کی جسمانی سرگرمی جسم میں سیروٹونن اور اینڈورفن ہارمون کو خارج کرتی۔ یہ ہارمونز ہی ہمیں خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس دنیا جہاں کی کامیابیاں ہوں ۔ بینک بیلنس‘ بنگلے ‘ کاریں باہر کے سیر سپاٹے سب میسر ہو لیکن اگر ہمارے خون کی کیمسٹری میں سیروٹونن اور اینڈور فن ہارمونز کی کمی ہو جائے تو ہم پر ناخوشی اور اداسی کی کیفیت طاری رہے گی۔ مسلسل اداسی اور ناخوشی کا احساس ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے اور مسلسل ڈپریشن بہت سارے جسمانی عوارض کوجنم دیتا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ شاعر حضرات جسے دل کا موسم کہتے ہیں وہ کم بخت انہی ہارمونز کے ہونے یا نہ ہونے سے مشروط ہوتا ہے یعنی ہمارا برین ہمارے جسم کی خوشی‘ شادمانی اور کامیابی کے احساس کا پیغام اس صورت میں بھیجتا ہے جب ہمارے خون میں خوشی کے ہارمون یا کیمیکل اجزا موجود ہوں تو پھر بات ظاہری حالات کی نہیں ہماری سوچ کے زاویے کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 40منٹ کی تیز واک ہو یا پھر کوئی ورزش اور یوگا اس کے بعد ہمارے جسم اینڈروفن خود بخود پیدا ہو جاتا ہے یعنی قدرت کا نظام دیکھیں کہ بیماری کا علاج ہی انسان کے اندر رکھ دیا گیا ہے۔ ڈیپریشن کی گولیوں میں بھی یہ کیمیکل موجود ہوتا ہے جسے ہم ورزش اور واک کرنے کے بعد قدرتی طریقہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صداقت علی جو ذہنی صحت کے حوالے سے قابل قدر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ذہن اور تخلیقی انسان قدرتی طور پر بائی پولر ہوتا ہے کہیں یہ بائی پولر ڈس آرڈر میں ہوتاہے اور کہیں آرڈرمیں۔ انہوں نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ جو لوگ رات کو دس سے گیارہ بجے کے درمیان سو جاتے ہیں اور صبح چار پانچ بجے تک اچھی نیند لیتے ہیں ان میں بائی پولر ہمیشہ آرڈر میں رہتا ہے۔ جبکہ راتوں کو جاگنے والے افراد میں بائی پولر ڈس آرڈر کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ قدرت کے عظیم الشان نظام کے اندر رات کی نیند میں انسان کے لئے ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے شفا ہے۔ سائنس ثابت کر چکی ہے، رات کی نیند کے دوران انسانی جسم کے خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کی خودکار مرمت ہوتی رہتی ہے۔ سو ذہنی دبائو اور ڈپریشن کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ پرسکون ماحول میں 6یا سات گھنٹے کی مناسب نیند لی جائے۔ Jurnalingیعنی اپنے احساسات کورات سونے سے پہلے کاغذ پر اتار دینا ایک ایسی تکنیک ہے جس سے ذہنی دبائو کم کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ زندگی میں مثبت زاویہ نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ کائونٹ پور بلسنگ والی سوچ ازحد ضروری ہے جو نعمتیں قدرت نے ہمیں عطا کی ہیں اگر ان کی فہرست بنائیں تو شمار ممکن نہیں۔دوسروں کے دکھ درد اور تکلیفوں کو کم کرنے کی کوشش کریں ضرورت مندوں کی مدد۔ صدقہ خیرات کرنا بھوکے کو کھانا کھلانا۔ ایک مکمل تھراپی اور علاج ہے۔ زندگی ہمیشہ دھوپ چھائوں سے عبارت ہے ۔اپنے سے کم تر حالات میں زندگی گزارنے والوں کو دیکھیں اور زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں۔شکر کرنے میں شفائی اثرات موجود ہیں۔ شکرکرنے سے ہماری نظر اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر رہتی ہے اور سوچ بھٹکتی ہوئی تشنہ خواہشوں کی طرف نہیں جاتی یوں ذہن منفی سوچوں کے بوجھ سے آزاد ہو جاتا ہے۔