برطانوی تاریخ چرچل کے ذکر کے بغیر آگے نہیں بڑھتی چرچل پر آکر مورخ کا قلم کسی اڑیل گھوڑے کی طرح رک جاتا ہے۔ چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں اپنا دفتر کیمبرج یونیورسٹی کے ایک کمرے میں منتقل کرلیا تھاایک صبح اسکا ماتحت دوڑتا ہواآیایا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں،جرمن طیارے خوفناک بمباری کر رہے ہیں، برطانیہ کی سلامتی کو شدید خطرہ ہے۔چرچل بہت مضبوط اعصاب کامالک تھا اس نے اطمینان سے یہ سب سنا اورسگار کا طویل کش لیتے ہوئے برطانوی آرمی چیف کا پوچھانہ ائیر فورس چیف کو فون کیا اس نے بظاہر بہت ہی غیر متعلق سوال پوچھا کہاکہ یہ بتاؤ عدالتیں کام کررہی ہیں؟ماتحت افسرکے لئے یہ سوال خلاف توقع تھااس نے اپنی حیرت سمیٹی اور اثبات میں جواب دیا،جس پر چرچل کا اگلاسوال تھاکہ کیا وہ انصاف فراہم کررہی ہیں،ماتحت نے جنگی طیاروں کی گھن گرج میںکہا جی ہاں عدالتیں انصاف کررہی ہیں، جس پر چرچل نے اطمینان بھرے لہجے میں وہ تاریخی جملہ کہا جس کا حوالہ دینے سے شائد ہی کوئی رہا ہو،چرچل نے کہا کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں اس کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ چرچل سے صدیوں پہلے دنیا کے سب سے بڑے قانون داں اور معاشرے کے نبض شناس سرکار دو عالم ﷺ نے ایک مجرم عورت کی سفارش کرنے والے صحابی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا تم سے پہلی قومیں اس لئے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی بڑا امیر و کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی ،یہاں سمجھیں کہ بات ہی ختم ہوگئی واضح کردیاگیا کہ انصاف عدل نہ ہوتو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں ۔ میرے سامنے سیالکوٹ کے بیچ چوراہے میں جلتی، سری لنکن مہمان کی لاش کی سوشل میڈیا میں گردش کرتی تصویر ہے اور میرے سامنے سانحات کی ایک طویل فہرست ہے ،پریانتھا سے پہلے 2010 میں سیالکوٹ ہی کے نواحی علاقے بٹر میں پولیس کی موجودگی میں مشتعل ہجوم نے دو سگے بھائیوں حافظ مغیث اور منیب کو رسیوں سے باندھ کر ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کردیا یہی نہیں ہجوم نے دونوں بھائیوں کی لاشوں کو پہلے الٹا لٹکایا اور بعد میں ان لاشوں کو شہر میں گھمایابھی،باچا خان یونیورسٹی خیبر پختونخواہ میں ہجومی تشدد کے ہاتھوں مشال خان کاقتل زیادہ پرانی بات نہیں ،ہجومی تشدد کے واقعات تو خیر کچھ دن میڈیا میں رہ لیتے ہیں ،ماورائے عدالت قتل ،جبری گمشدگیاں اور بااثر افراد کے ہاتھوں قتل قانون کی پامالی ہمارے یہاں اتنی عام ہیں کہ خبروں کے انبار میں دب کر رہ جاتی ہیں ایڈیٹر متوجہ ہی نہیں ہوتا یہ بھی ایک سانحہ ہی ہے حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر اس ملک میں سانحات روکنے کی کبھی فطری کوشش نہیں کی گئی ،قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر ملک کے دو لخت ہونے اورسانحہ اے پی ایس تک سانحات کی طویل سوگوار قطار ہے جس میں ہر آنے والا دن اضافہ کر کے اگلے دن کے لئے جگہ چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے ایک سفاک معاشرے میں جی رہے ہیں عدالتوں کا حال یہ ہے کہ 21لاکھ 59ہزار 655 مقدمات زیر التوا ہیں ،سائل پیشیاں بھگت بھگت کر مرجاتا ہے، کل ہی ایک عدالت سے ایک مرحومہ خاتون کے حق میں ویلتھ ٹیکس کا فیصلہ ان کے انتقال کے تین سال بعد آیا۔ معاشرے میں بڑھتی شدت پسندی ہو یامذہبی طبقے میں پایا جانے ابال ،اسے صرف قانون سے ہی روکا جاسکتا ہے ،اگر عدالتیں مقدمات جلد نمٹائیں،پولیس کسی دباؤ میں آئے بغیر مقدمات کی تفتیش کرے اورعدالتی حکم پر مجرموں کو پھانسی گھاٹ تک پہنچایا جانے لگے تو لوگ خود ملزمان کو پکڑ کر پولیس کو فون کریں کہ جناب یہاں یہ وقوعہ ہوا ہے ہم نے بندہ پکڑ کر بٹھا رکھا ہے نفری بھیج دیں۔ سینٹر فار سوشل جسٹس کی رپورٹ کے مطابق ،ملک میں توہین مذہب کے 2000 مقدمات ہیں ،میں تلاش میں ہوں کہ ان میں سے کسی ایک بھی مجرم کو سزا ہوئی؟جواب نفی میں ہے۔ مقدمات کے اندراج سے لے کرپیروی تک کا سفرچیونٹی کی رفتار سے چلتا ہے ،ایک عدالت فیصلہ سناتی ہے تو اس کے بعد دوسری عدالت سامنے آجاتی ہے ،وہاں سے فیصلہ ہوتا ہے تو تیسری کا سامنا ہوتا ہے ،فیصلہ ہوجائے تو عمل درآمد نہیں ہوتا،دوسری جانب یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اگریہ مقدمات غلط تھے تو اندراج کرانے والوں میں سے کتنوں کو سزا ہوئی؟ جواب نفی میں ہے ایسے میں لوگ اداروں پر اعتبار کیسے کریں ،اعتماد کہاں سے لائیں ، جب لوگ دیکھتے ہیں کہ مقدمہ درج ہی نہیں ہوتا ہوجائے تو کیس آگے ہی نہیں بڑھتا ،سامنے کی مثالیں ہیں مقدمہ باپ درج کراتا ہے اور پیشیاں اولاد بھگت رہی ہوتی ہے کچھ دن پہلے ؎سوات کے ایک سفید ریش جھکی کمر کے بابا جی کے بارے میں کسی نیوز چینل نے رپورٹ نشر کی جنہیں مقدمہ لڑتے ہوئے چالیس برس ہوچکے ہیں ،رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی روشنی میں یہ دیکھنے کے لئے کہ ہم کہاں جارہے ہیں ہمیں کسی جنگل میں بیٹھ کر غور و فکر کی ضرورت نہیں ،حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ نے تو کھلے لفظوں میں بیان کردیا ’’کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں ‘‘افسوس کہ ہم موخر الذکر میں سے ہیں ۔سوچتا ہوں اگرکیمبرج یونیورسٹی کے بجائے اسلام آباد کی کسی یونیورسٹی میںسگار پیتے ہوئے چرچل کو اس کا کوئی ماتحت کوئی پریشان کن اطلاع دے رہا ہوتا اور چرچل سگار کی راکھ جھاڑ کر اطمینان سے پوچھتا جس کا کالم کے شروع میں ذکر ہوا ہے تومجھے یقین ہے کہ چرچل صاحب کے لبوں سے سگارگر جاتا ،ہاتھ دل پر پہنچتا اور ان کی نبض ساکت ہوجاتی۔