افغانستان دنیا کی جدید ترین جنگی طریقِ کار کا میدان بن گیا ہے۔امریکہ نے یہاں مصنوعی ذہانت اور الگورتھم کے ذریعے نئی جنگ شروع کردی ہے۔ چند روز پہلے افغان طالبان پر امریکہ کے فضائی حملوں سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ نے اپنے فوجی افغانستان سے بحفاظت نکال لیے لیکن اُس نے افغانستان میں اپنی فوجی کاروائیاں ترک نہیں کیں بلکہ واشنگٹن انتظامیہ خلیجی ممالک کے اڈوں کے ذریعے کابل میںبراجمان اپنی کٹھ پتلی حکومت کی مدد کر ے گی اور جب ضرورت پڑے گی طالبان کی پیش رفت روکنے کی غرض سے اُن پرجنگی طیاروں ‘ میزائل اور ڈرونز کے ذریعے فضائی حملے کیے جائیں گے۔ امریکہ اپنے نئے‘ تازہ ترین جنگی ہتھیاروں اور جدید جنگی حکمت عملی کی مشقیں افغانستان میں کررہا ہے تاکہ انہیں ایک دُور افتادہ ملک میں عملی طور پر آزما کر پرکھ لیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ افغانستان پر اپنا قبضہ قائم رکھا جاسکے۔ افغان طالبا ن کی بڑی کمزوری ہے کہ اُنکے پاس فضائیہ نہیں ہے جس سے وہ کابل حکومت کوفضائی حملوں کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ نہ دنیا کا کوئی ملک امریکہ کے ڈر سے اُنہیں فضائیہ فراہم کرسکتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ انکا ملک اِس سال گیارہ ستمبر تک اپنی تمام افواج افغان سرزمین سے نکال لے گا۔ لیکن جُون کے مہینے میں بہت تیزی سے امریکی فوجی اور جنگی ساز و سامان کا انخلا کیاگیا ۔چند ہفتے قبل امریکی عملہ کابل کے نزدیک بگرام کا فضائی اڈّہ افغان حکام کو بتائے بغیر رات کی تاریکی میں چھوڑ کر چلا گیا۔ افغانستان میںامریکی فوج کے سپہ سالار بھی ملک چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ فوجی مشن کا سربراہ اسی وقت میدان سے واپس جاسکتا ہے جب اسکے تمام جوان بحفاظت وطن واپس چلے جائیں۔ جولائی کے پہلے ہفتہ میں امریکی انخلا مکمل ہوچکا تھا۔ یورپی اقوام پر مشتمل نیٹو افواج بھی اپنے اپنے ملکوں کو لَوٹ گئی ہیں۔ امریکہ کا اسطرح شیڈول سے پہلے ‘تیزی کے ساتھ افغانستان کو چھوڑ دینا باعثِ تعجب تھا۔ شبہ ہورہا تھا کہ شاید امریکہ نے اشرف غنی کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اپنے سابق افغان اتحادیوں کوطالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے دوسری طرف‘ ایک ماہ پہلے صدر اشرف غنی اورکابل حکومت کے دوسرے بڑے لیڈر عبداللہ عبداللہ نے وائٹ ہاؤ س میں صدر بائیڈن سے ملاقات کی۔ امریکہ نے اعلان کیا کہ اُس نے افغانستان چھوڑا ہے لیکن افغان عوام کو نہیں۔صدر بائیڈن گزشتہ ایک ماہ میں کم سے کم دو بارصدر اشرف غنی سے ٹیلی فون پر بات کرچکے ہیں۔ اسکا مطلب اُنہیں تھپکی دینا اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ امریکی انتظامیہ کابل حکومت کی پُشت پر ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں پاکستان‘ اُزبکستان اور کابل حکومت پر مشتمل ایک چار رُکنی اتحاد بنایا گیا ہے جسکا مقصد ان ممالک کو آپس میںمنسلک کرنا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف کابل کے حکمران پاکستان پر افغان طالبان کی عملی مدد کرنے کے الزام لگا رہے ہیں اور دوسری طرف امریکہ کی سربراہی میں بنائے گئے اس اتحاد میں اسلام آباد کے شریک کارہیں۔ افغان حکومت دوہا میں طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیہ کیلیے بات چیت میں بھی مصروف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان مذاکرات میں ابتک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ امریکہ نے افغان طالبان سے گزشتہ برس قطر کے دارالحکومت دوہا میں معاہدہ کیا تھا جس کی رُو سے کابل حکومت نے ہزاروں طالبان قیدی رہا کرنے تھے جن کی ایک بڑی تعداد اب بھی قید میں ہے۔ اشرف غنی کی حکومت ان قیدیوں کو سیاسی تصفیہ میں سودے بازی کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ امریکہ نے طالبان لیڈروں کو اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنا تھا لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ دوہا معاہدہ کے تحت افغانستان کے فریقوں میں تصفیہ کے تحت ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کی جانی تھی لیکن امریکہ نے اس بارے میں دلچسپی نہیں دکھائی ۔ صدر اشرف غنی کسی قیمت پر کابل کا اقتدار چھوڑنے کیلیے تیار نہیں۔ اگر امریکہ تمام فریقوں کے بارے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے تو طالبان جلدپورے افغانستان پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ اس بات کا اعتراف امریکی جنرل بھی کرچکے ہیں۔ طالبان اب تک نصف افغانستان پر مکمل قابض ہوچکے ہیں اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ لگنے والی اکثر و بیشتر سرحدی چوکیاں انکے کنٹرول میں آچکی ہیں۔ جس تیزی سے طالبان نے ایک کے بعد دوسرے ضلع پر قبضہ کیا وہ امریکہ کیلیے حیران کُن تھا۔ جب اس بات کا امکان پیدا ہُوا کہ چند ہفتوں میں طالبان کی فتح مکمل ہوجائے گی توواشنگٹن انتظامیہ نے کُھل کر اشرف غنی کاساتھ دینا شروع کردیا‘ طالبان کے ٹھکانوں پرایک خلیجی اڈہ سے فضائی حملے کیے۔ افغان خانہ جنگی امریکی مفاد میں ہے۔ ایسی صورت میں چین سی پیک کا دائرہ افغانستان تک نہیں پھیلاسکے گا۔ یہی امریکہ کی خواہش ہے۔ رُوس بھی امریکہ سے تعاون کیلیے تیار ہے۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکی صدر جو بائیڈن سے سربراہی ملاقات میں انہیں پیش کش کی تھی کہ روسی حکومت امریکہ کو وسطی ایشیا میں فوجی اڈہ کی سہولت فراہم کرسکتی ہے جہاں سے امریکی فوج افغانستان میں کارروائیاں کرسکے۔ تاہم بائیڈن نے انکی بات پر کوئی جواب نہیںدیا۔ شائد اسلیے کہ امریکہ اپنے طویل مدتی مفادات کی تکمیل کیلیے رُوس پر انحصار نہیں کرنا چاہتا۔ جیسے ہی افغان طالبان کی پیشقدمی مغرب اورشمال کی طرف بڑھی ‘ رُوس نے تاجکستان کی سرحد پرفوجی مشقیں شروع کردیں۔ کیونکہ طالبان کو تاجکستان اور رُوس بھی اپنی سلامتی کیلیے خطرہ تصوّر کرتے ہیں۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ جہاں تک زمینی جنگ کا تعلق ہے اسکی اتحادی اشرف غنی زیادہ دیر تک طالبان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ سیاسی تصفیہ اسلیے نہیں ہورہا کہ اشرف غنی حکومت نہیں چھوڑنا چاہتے۔طالبان واضح کرچکے ہیں کہ سیاسی سمجھوتہ اسوقت ہوگا جب اشرف غنی مستعفی ہوجائیں۔ امریکہ کے پاس طالبان کو دباؤ میں لانے کیلیے دو ہتھیار ہیں۔ ایک تو فضائی حملہ کرکے طالبان کی طاقت کو کمزور کیا جاسکے اور جنگ کو اتنا طول دیا جائے کہ طالبان تھک ہار کر اپنی شرائط نرم کرلیں۔ دوسرے‘ طالبان کو علم ہے کہ افغانستان کی معیشت دیوالیہ ہے ۔ اسے بین الاقوامی مالی امداد کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا جو امریکہ‘ چین اور جرمنی فراہم کرسکتے ہیں۔ اگر امریکہ اجازت دے گا تب ہی عالمی برادری طالبان کی سربراہی میں بننے والی کسی حکومت کو جائز قبول کریں گے۔ مشکل یہ ہے کہ اگر طالبان اشرف غنی کو صدر قبول کرکے سیاسی تصفیہ کرتے ہیں تویہ انکی نظریاتی موت اور طویل جدوجہدکی نفی ہوگی۔متبادل راستہ یہ ہے کہ طالبان جس طرح بیس سال سے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ اپنی جنگ جاری رکھیں اور امریکی شرئط اور دباؤ کو ماننے سے انکار کردیں۔یہ اعصاب کی جنگ ہوگی۔ جو پہلے آنکھ جھپکے گا وہی شکست مانے گا۔خانہ جنگی جاری رہنے کی صورت میں پاکستان کیلیے مشکلات ہوں گی کہ اسے مزید لاکھوں افغان مہاجرین کابوجھ برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔صدر اشرف غنی کی حکومت کو انڈیا کی بھرپورعملی مددحاصل ہے۔ بھارت کابل حکومت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی ‘ بدامنی کو فروغ دیتا رہے گا۔