انگلینڈ کا شمار دنیا کی قدیم ترین کرکٹ ٹیموں میں ہوتا ہے، دراصل کرکٹ نے جنم ہی وہاں لیا، طویل عرصہ تک انگلینڈ اور آسٹریلیا ہی کرکٹ کھیلنے والے نمایاں ممالک تھے، آج یہ تعداد درجن سے زائد ہوچکی ہے۔ انگلینڈ کے لئے 2015ء کا ورلڈ کپ بہت تکلیف دہ، افسوسناک تجربہ رہا۔ انگلینڈ کی ٹیم تب بکھری ہوئی منتشر تھی، ورلڈ کپ سے چند دن پہلے اس کا کپتان تبدیل ہوا ۔ انگلینڈ کا کپتان تب ان کے مشہور اوپننگ بلے باز الیسٹر کک تھے، مگر کک کی بیٹنگ تکنیک ٹیسٹ میچز کے لئے زیادہ موزوں تھی ، ون ڈے کے لئے جس جارحانہ اپروچ کی ضرورت تھی ،اس کی انگلش ٹیم کو شدید کمی محسوس ہو رہی تھی۔ بائیں ہاتھ سے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے آئن مورگن کو کپتان بنایا گیا، مگر وقت بہت کم تھا، انگلش ٹیم کلک نہ کر سکی، اس کی کارکردگی اتنی مایوس کن رہی کہ کوارٹر فائنل کھیلنے والی آٹھ ٹیموں میں بھی نہ آ سکی۔یہ بڑا دھچکا تھا، مگر انگلش کرکٹ بورڈ اور مینجمنٹ نے اس سے سبق سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ انگلینڈ کی وائٹ بال کرکٹ میں بڑی انقلابی تبدیلی لائی گئی۔ یاد رہے کہ ون ڈے میچز جہاں پچاس پچاس اوور کھیلے جاتے ہیں اور ٹی ٹوئنٹی جہاں بیس بیس اوورز کا میچ ہوتا ہے، ان دونوں فارمیٹ کے لئے سفید گیند استعمال ہوتی ہے۔ ’’وائٹ بال کرکٹ‘‘ سے محدود اوورز کے دونوں فارمیٹ(ون ڈے ، ٹی ٹی ٹوئنٹی) مراد لئے جاتے ہیں جبکہ ٹیسٹ کرکٹ (پانچ روزہ میچ)کے لئے روایتی سرخ گیند استعمال ہوتی ہے اور سفید یونیفارم۔ ویسے اب اکا دکا نائٹ ٹیسٹ میچز بھی ہونے لگے ہیں، ان کے لئے گلابی گیند استعمال ہوتی ہے۔ انگلینڈ نے وائٹ بال کرکٹ کے لئے آئن مورگن کو کپتان بنایا جبکہ ٹیسٹ میچز کے لئے دیگر آپشنز اختیار کی گئیں۔مورگن کی کپتانی میں انگلینڈ نے تیز ، جارحانہ کرکٹ کا ٹرینڈ شروع کیا۔ اوپنر سے لے کر مڈل آرڈر اور پھر لوئر رینکس تک ہر کھلاڑی کو جارحانہ انداز میں بھرپور ہٹنگ کی ہدایت اور تربیت دی گئی ۔ اس کے لئے اوپر سے نیچے تک مکمل تبدیلیاں لائی گئیں، جونیئر ٹیموں میں بھی اسی انداز کے کھلاڑی منتخب کئے گئے، انگلینڈ کافرسٹ کلاس کرکٹ سٹرکچر(کائونٹی کرکٹ)بڑا مضبوط ہے، وہاں بھی جارحانہ انداز اپنایا گیا۔ بعض کھلاڑیوں جیسے براڈ اورجیمز اینڈریسن کوصرف ٹیسٹ کرکٹ تک محدود کر دیا گیا۔جارحانہ کرکٹ کے لئے اچھی بیٹنگ پچز کی ضرورت پڑتی ہے۔ انگلینڈ میں اس مقصد کے لئے بہترین بیٹنگ پچیں بنائی گئیں، ایسی جہاں ساڑھے تین سو رنز بنانے اور ان کا تعاقب کرنا ممکن ہو۔ انہی پچز پر انگلش ٹیم نے نئے انداز سے خوفناک قسم کا اٹیکنگ کھیل شروع کیا تو انہیں بڑی کامیابیاں ملیں ۔ اس وقت وائٹ بال فارمیٹ میں یہ پوزیشن ہے کہ انگلینڈ ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون ہے جبکہ ون ڈے فارمیٹ میں یہ نمبر ون نیوزی لینڈ سے معمولی سے فرق کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ انگلینڈ نے دو سال پہلے ہونے والا ون ڈے ورلڈ کپ تاریخ میں پہلی بار جیت لیا۔ صرف تین ماہ بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لئے بھی انگلینڈ فیورٹ ٹیم ہے۔ انگلش ٹیم میں جیسن روئے، جوزبٹلر، جونی بیئر سٹو،آئن مورگن، ڈیوڈ ملان، بین سٹوکس، لیام لونگ سٹون جیسے تباہ کن جارحانہ ہارڈ ہٹرز موجود ہیں جو دنیا کی کسی بھی بائولنگ لائن کے پرخچے اڑا دیں۔ بائولنگ میں انہیں جوفراآرچر، ڈیوڈ ولی، ثاقب محمود، کرس ووکس،کرس جورڈن، عادل رشید، معین علی،مارک وڈ وغیرہ کی خدمات حاصل ہیں۔ انگلینڈ کی ٹیم اتنی مضبوط ہے کہ ابھی پاکستانی ٹیم کے دورے میں انگلش کوچنگ سٹاف اور بعض کھلاڑیوں کو کورونا ہو گیا تو انہوں نے پوری ٹیم ہی بدل دی اور جو متبادل ٹیم آئی، اس نے نہایت آسانی سے پاکستانی ٹیم کو شکست دے دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں کئی ایسے کھلاڑی موجود تھے جو عالمی ٹی ٹوئنٹی لیگز اور کائونٹی کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھاتے رہے ہیں، جیمز وینس، فل سالٹ ، گریگوری ، پارکنسن وغیرہ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگلش ٹیم ناقابل تسخیر ہے۔انگلینڈ ہار بھی رہا ہے، مگر اپنی پچھلی گیارہ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں سے اس نے نو جیتی ہیں، ایک انڈیا میں ہاری، مگر صرف تین دو کے فرق سے جبکہ ایک ڈرا رہی۔ انگلینڈ کی کامیابی اس لحاظ سے متاثر کن ہے کہ ایک تباہ حال ٹیم کو اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا، ایک نئی اپروچ اپنائی گئی، بورڈ نے مکمل سپورٹ کیا اور کوچنگ سٹاف سے لے کر پچیں تک ہر چیز اسی انداز کی بنائی گئی۔ ابتدا میں کچھ میچز ہارے گئے، میڈیا نے تنقید کی، جی ہاں دنیا بھر کا میڈیا ایسے ہی تنقید کرتا ہے ، انگلش بورڈ نے مگر اس تنقید کو نظرانداز کیا اور سکون سے اپنی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ اس کے نتیجے میںورلڈ کپ کی نصف صدی کی تاریخ میں انگلینڈ پہلی بار ورلڈ چیمپین بنا ۔ یہ درست سمت میں کی گئی محنت کا ثمر ہے۔ اب ہم پاکستانی ٹیم کی طرف لوٹتے ہیں، ہماری قومی ٹیم کئی ایسے دھچکے سہہ چکی ہے، پچھلے دس پندرہ برسوں میں کئی بار ٹیم کی قیادت اور مینجمنٹ بدلی گئی، دو تین بار بورڈ کے سربراہان بھی تبدیل ہوئے۔ ہر ورلڈ کپ ہارنے کے بعد کپتان اور ٹیم مینجمنٹ بدل جاتی ہے، 2003ء میں وسیم اکرم گئے، چار سال بعد انضمام الحق کی باری آئی، دو ہزار گیارہ میں شاہد آفریدی کو ہٹنا پڑا، دوہزار پندرہ ورلڈ کپ کے بعد مصباح الحق جبکہ 2019ورلڈ کپ کے بعد سرفراز احمد کا نمبر لگا۔ تب ہیڈ کوچ مکی آرتھر کو بھی ہٹا یا گیا۔قومی ٹیم کی حالت مگر پہلے کی طرح پتلی ہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ماڈرن کرکٹ کو اپنایا ہی نہیں۔ جو تبدیلیاں کرنی چاہئیں تھیں، وہ نہیں کر پائے۔ جو تھوڑا بہت ہوتا ہے ،میڈیا کے معمولی سے دبائو یا سوشل میڈیا کی تنقید پر تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ سب سے بڑی غلطی تو ہم نے مصباح الحق کو کرکٹ کے تینوں فارمیٹس کا چیف کوچ بنا کر کی۔ مصباح ٹیسٹ کے اچھے کھلاڑی رہے، ان کی سربراہی میں پاکستان نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بنا، مگر مصباح کی بطور کھلاڑی ماڈرن ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی تھی۔ اب یہ دیکھ لیں کہ مصباح ٹیسٹ کرکٹ سے 2017ء میں ریٹائر ہوئے، ون ڈے سے دو سال پہلے انہیں علیحدہ ہونا پڑا جب دو ہزار پندرہ کے ورلڈ کپ میں پاکستان کوارٹر فائنل ہار کر واپس آیا۔ ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے مگر 2012 ہی میں ریٹائر ہونا پڑا تھا۔ جو کھلاڑی اپنے کیرئرکے آخری پانچ برسوں میں ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا حصہ ہی نہیں رہ پایا، اسے ہم نے ٹی ٹوئنٹی کے لئے قومی ٹیم کا کوچ بنایا۔ بائولنگ کوچ وقار یونس ہیں، جنہوں نے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سرے سے نہیں کھیلی، وہ اس سے پانچ سال پہلے ریٹائر ہوگئے تھے۔ یونس خان کو ہم نے پچھلے سال بیٹنگ کوچ بنایا، یونس کی قیادت میں اتفاق سے ہم نے ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا ، مگر کرکٹ کو جاننے والا سکول کی سطح کا بچہ بھی جانتا ہے کہ یونس خان بڑے بلے باز ہونے کے باوجود ٹی ٹوئنٹی سٹائل کے کھلاڑی نہیں تھے، اس لئے انہیں بھی اپنے آخری برسوں میں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ سے باہر ہونا پڑا۔ حال یہ تھا کہ کسی عالمی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں وہ سلیکٹ ہوجاتے تو پورا ٹورنامنٹ باہر بنچ پر بیٹھ کر گزارنا پڑتا۔ ایسے بلے باز کو ہم نے ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کا بھی بیٹنگ کوچ بنایا۔ جس نے زندگی میں دو چار ہی چھکے لگائے ہوں گے، اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ بلے بازوں کو میچز میں چھکوں کی بارش کرنا سکھائے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہم آج کے دور میں بھی دس سال پرانی دفاعی کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ بہتر یہ ہوتا کہ مصباح کوٹیسٹ ٹیم کا کوچ بناتے اوروائٹ بال فارمیٹ کے لئے جدید کرکٹ کے ماہر کوچ کو لیا جاتا۔ یہ اس لئے عجیب بات نہیں تھی کہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں پہلے ہی سے چھ سات کھلاڑی ایسے ہیں جو وائٹ بال فارمیٹ کا حصہ نہیں، عابد علی، عمران بٹ، فواد عالم، اظہر علی، نعمان علی، یاسر شاہ، ساجد خان وغیرہ ۔ جب الگ سے ٹیسٹ ٹیم موجود ہے تو اس کا کوچ بھی الگ ہوتا تو یہ نارمل بات سمجھی جاتی۔ اب تو وقت اتنا کم رہ گیا کہ کوچ بدلنے کی گنجائش بھی نہیں ۔ ڈھائی تین ماہ بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ ہے۔ پاکستانی ٹیم میں کئی بنیادی قسم کی خامیاں موجود ہیں، ایسی جو عجلت میں دور نہیں ہو سکتیں۔ اس میں تمام قصور بورڈ یا ٹیم مینجمنٹ کا نہیں، ہمارا فرسودہ ڈومیسٹک سٹرکچربھی مجرم ہے جو اگرچہ اب بدل چکا ہے، مگر کورونا کی وجہ سے نئے سسٹم کی افادیت سامنے نہیں آ سکی۔ اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کا نان پروفیشنل رویہ اور اپنی تکنیکی کمزوریاں دور نہ کرنا بھی بڑی وجہ ہے۔ ایسے کھلاڑی جن پر دو تین سال محنت کی، وہ اب پرفارمنس کے وقت میں کچھ کر دکھانے کے بجائے اوسط سے بھی کم نتائج دے رہے ہیں۔ کالم کی گنجائش ختم ہوئی، مگر موضوع کے کئی پرتیں ابھی باقی ہیں، ان شااللہ اس پر بات جاری رکھیں گے ۔