بندہ صحرائی کیا کرتا ہے؟ مرد کہستانی کا زور قوت کیا ہے؟ خیال ہے۔ یقین ہے یا اہل تجربہ کا تبصرہ ہے۔ سب خام ہے اور بغیر یقین کے توخام بھی بے سود ہے اور بے قیمت ہے۔ بندۂ حق ہے جو فطرت کے سفر میں فطرت کی طے کردہ منزل کی جانب گام در گام یوں بڑھتا ہے جیسے کسی نے ہرآن ایسی دستگیری کی ہے کہ کسی مقام پر ٹھوکر نہ لگے۔ یہ خیال و واہمہ تو ہرگز ہو ہی نہیں سکتا۔ خدائی وعدہ ہے کہ ایمان کی حفاظت میں، مقصد حیات کی تکمیل میں، کردار کی تعمیر میں اور نجات کی نوید میں، وہ اہل حق کی دستگیری فرماتا ہے۔ وہ اپنے بندہ خاص کو ابلیسی چالوں کی نحوست سے محفوظ رکھتا ہے۔ قصہ آدم و ابلیس میں بہت سے اسباق، بالکل خاموش اسباق مخفی ہیں۔ ان اسباق تک رسائی انہیں میسر ہے جو اخلاص و تقویٰ کی امتحانی گھاٹی سے گزرتے ہیں۔ ایسے مخلصین اور متقین کو صادقین کا درجہ بلند عطا ہوا ہے۔ یہ ابلیس کو پہنچانتے ہیں، اس کے کاری وار کو دفع کرنے کا مومنانہ ہتھیار ان کے بدن میں حمائل رہتا ہے۔ یہ لوگ بڑے کام کے لوگ ہیں۔ اپنی ذات و صفات کو توحید و رسالت کے نور سے ہمہ لمحہ روشن کر رکھتے ہیں اور جوان کے حلقہ محبت میں آ جائے تو اس کے قلب میں ایمان کا چراغ روشن کردیتے ہیں۔ استقامت فی الدین کی توانائی ایسے شبنمی قرینے سے منتقل کرتے ہیں کہ ملائکہ رشک بداماں ہوئے جاتے ہیں۔ یہ پاکیزہ وجود مصلحین اپنے حلقۂ مریداں میں اپنی روح کا یوں تصرف کرتے ہیں کہ شیطان پسپائی پر آجاتا ہے۔ یہ کیسے زندگی بخش منشور کو زبانی نہیں اپنی ذات کی روشنی میں دماغوں میں منتقل کرتے ہیں؟ سمجھنے کے لیے ابلیس زدہ عادت اعتراض کو ذرا دیر کے لیے جدا کرنا بہت ضروری ہے۔ زندگی کو زندہ اور تروتازہ رکھنے کے لیے اعتراض کی خارش زدہ چادر کو زیور عقل جاننے والے ہمیشہ ہی آب یقین کو ترستے ہیں۔ زندگی کو، زندگی کے فلاحی کردار کو اور زندگی کی منزل فوز عظیم کو ایک ہی وقت میں اور ایک ہی ربط میں یقین کی ڈوری میں کیسے پروئیں؟ سوال در سوال کی وادی ہے، گہرائی کا کچھ اندازہ نہیں ہے۔ دانشمند نے کاندھا ہلایا اور اس زور کی جنبش سے فقیر سنبھل کر بیٹھا۔ دانش روحانی سے معمور ایمان کے خمار میں گویا تھا کہ بس سوال بن جا۔ سوال کو اعتراض کے بوجھ سے آزاد کر، سوال کو طلب کے کشکول میں ڈال اور خود پر سوال طاری رکھ، زبان اور دل کو سائل بنا کہ مالک لا شریک نے سوالی کو محبوب بنایا ہے اور قاسم نعمت ﷺ سے فرمایا ہے کہ سائل کو دھتکارنا تو کجا سخت لہجے میں گفتگو بھی مت کیجئے گا۔ زندگی کا حسن، احسان، نجابت اور ضمانت اسی جواب سے وابستہ ہے کہ اپنی زندگی کے تمام سوال سپرد خدا کردے۔ خدامست مومن اسی اصول دائمی پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ مالک و معبود جل مجدہ نے واللہ الغنی وانتم الفقراء ’’بس بے نیاز و غنی تو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تم ہاں تم سب کے سب فقیر‘‘ اسی لیے عباداللہ، بندگان خاص، یعنی دوجہان میں کامران لوگ اپنی علامت فخر کے لیے لفظ فقیر استعمال کرتے ہیں۔ بہت رموز ہیں اس لفظ فقر میں کہ غیروں کے رہبان اور احبار تکبر کا سراپا ہیں اور یہ وراثت نصیب ہے انہیں اپنے اگلوں سے۔ فقر غیور کی کائنات میں روشنی کی چکاچوند ہے، کیوں نہ ہو، خدائی نور کا نزول ہے۔ پھیلائو ہے، جو اس دنیا سے آشنا ہوا۔ خود فراموش ہو گیا اور خود پرست بن گیا۔ یہی رمز توحید ہے اور سرحیات ابدی ہے، جھوٹے لوگ ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں، چوری کے خیالات، الفاظ پر ڈاکہ اپنی دانش وری کا محل تیار ہیں، کاغذی نائو ہے، بھیگے گی اور ڈوب جائے گی۔ ایک عرصے سے غیرت فقر کے آستان بلند پایہ پر حاضری نصیب ہے۔ مزار اقدس کی روشن جالیوں میں آرام فرما حیات طیبہ کی ابدی کائنات میں استراحت فرما سیدنا محی الدین، ناصرالاسلام، دستگیر مومناں کے احاطہ دربار میں ایک جذب دروں کی قوت ہے۔ لپکتی ہے اور اپنی آغوش میں لے کر ایمان کی حرارت ودیعت کرتی ہے۔ نفس کا زنار ٹوٹتا ہے۔ روح سے مشقت کا بوجھ اترتا ہے۔ اولیائی تحت قبائی معبود مالک کا فرمان ہے کہ ہمارے دوست ہماری قبائے رحمت میں رہا کرتے ہیں۔ یہ باطن کی شمسی ضیاء ہے، ایقان کے سمندر میں تیرنا محسوس ہوتا ہے۔ اب نصیحت کو قبول کرتا ہے۔ شعور پر برزخی حقیقتیں کھلتی ہیں۔ حشر سامانی ، لطف حیات کا ایک ایک مرحلہ مخموز نظر آتا ہے۔ بارگاہ غوث جلی ہے، پورعلی ہے، ابن نبی ہے۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائماً ابداً) روح حاضر ہے، قلب مائل ہے، نفس منکسر بنا پوری طرح سے متوجہ ہے۔ حیات طیبہ کی نوری محراب میں میز سلونی کی وراثتی بلند نشست پر جلوہ فرما فقیر محی الدین، غوث محی الدین عبدالقادر جیلانی عالم بالا و دنیائے اسفل کا نقشہ بیان فرما رہے ہیں کہ اگر تونے کلمہ حق لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو زبان و دل سے قبول کرلیا ہے تو سن کہ ہر جگہ، ہر وقت تیرے لیے ضروری ہے کہ حکم خدا بجا لائے اور جن باتوں سے تجھے تیرے مالک نے منبع کردیا ہے، ان سے اجتناب کر، اور جو تیرے لیے اہتمام حیات کیا، اس پر خوش رہا کر۔ اب عمل اور فکر کے ربط کی بات فرماتے ہیں محمد مصطفی ﷺ کے بنائے ہوئے نقشہ حیات کو زندگی کا رہنما بنالے۔ اپنی کج مج بیانی اور عقل ناقص سے خیال کی جدت اور عمل کی قدرت کے بارے میں بالکل خاموش رہا کر۔ پھر کیا کیا کریں؟ الفاظ نصیحت کی ایک لغتِ بے کراں کو کیسے سنبھالیں؟ ہر ہر کلمہ پر گردن میں ہدایت گلبہائے مربوط حمائل ہیں۔ بتایاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم ﷺ کے دائرہ فرمان میں رہا کراور اس دائرہ حکم سے باہر مت نکل (گرگ بہر شکار بھرتے ہیں) قوموں کے لیے صبح یقین کی نوید احیائے دین کے دبستان حضرت محی الدین عبدالقادر الجیلانی الغوث الاعظم ہی سے میسر آئے گی۔ کل کا روشن مستقبل شاہ بغداد کی چوکھٹ پر کھڑا اقوام کی امامت کی دستار مانگ رہا ہے۔