یقینا یہ وہ طالبان نہیں ہیں جو 1996ء میں افغانستان میں جاری لڑائی‘بھڑائی‘چھینا جھپٹی اور خانہ جنگی سے تنگ کر آ کر مدرسوں کے صحن اور مسجدوں کے ہجروں سے نکلے اور آپس میں دست و گریبان ہم وطنوں کو بزور قوت نہ صرف ایک دوسرے سے الگ کیا‘خون بہانے سے روکا بلکہ ان کا مکمل خاتمہ کر کے حکومت و اقتدار پر قبضہ کر لیا‘اگرچہ وہ حکومت و سلطنت کے فن آشنا نہیں تھے نہ ہی انہیں اسے سمجھنے‘سیکھنے کا زیادہ موقع مل سکا،پھر بھی انہوں نے اپنے ہم وطن شہر شاہ سوری‘کی طرح غیر معمولی لیاقت اور حسن عمل کا ثبوت دیا‘انہیں حکومت چلانے کے لئے صرف پانچ سال کی مدت میسر آئی یہ پانچ برس افغانستان کا پرامن زمانہ تھا‘یہی وہ مختصر دور تھا جب پاکستان افغانستان کی سرزمین سے بھارت کی چھیڑی گئی خفیہ جنگ اور سازشوں سے بچ رہا۔ افغان سرزمین کے یہ نئے حکمران اگرچہ فن جہاں گیری و جہاں بانی سے ناآشنا تھے‘اس کے باوجود انہوں نے شیر شاہ سوری کی طرح غیر معمولی لیاقت اور تیز رفتار پیش قدم کے ساتھ پورے ملک میں نہ صرف امن قائم کر دیا بلکہ وہ خطۂ ارض جہاں کئی صدیوں سے خطرناک اسلحہ اور ہلاکت خیز منشیات کی سمگلنگ کی جاتی تھی،یہی دونوں چیزیں ان کی معیشت کا غالب عنصر تھیں، انہیں بیک جنبش قلم موقوف کر کے افغانستان کو پہلی مرتبہ منشیات سے پاک‘ جتھہ بند مسلح گروپوں سے خالی کروا لیا۔ اس حسن عمل پر انہیں داد دینے اور سینے سے لگانے کی بجائے پوری دنیا ان سے منہ موڑ کر بیٹھی رہی۔پاکستان اور اس کے دو قریبی دوستوں یعنی عرب امارات اور سعودی عرب کے سوا کسی اسلامی ملک نے بھی ان کے حق حکمرانی کو تسلیم نہیں کیا‘حتیٰ کہ اس کی نو آزاد ہمسایہ مسلمان ریاستوں نے بھی جو افغانیوں کی بے پناہ قربانیوں کے عوض سوویت یونین کی غلامی سے نکل پائی تھیں، انہوں نے اپنے محسنوں کے خلاف جارحانہ سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ آپ تھوڑی دیر رک کر سوچیے اور غور کیجیے کہ مدرسہ و مسجد کے مولوی اور طالب علم جن کے پاس کھانے کو کچھ تھا نہ رہنے کو اپنا مکان‘حکومت و اختیار کا تجربہ‘نہ بیرونی مدد اور تعاون کا انتظار‘اپنی قومی معیشت جو اسلامی اخلاقیات و قانون کیخلاف ہونے کے باوجود ان کی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھی یعنی اسلحہ اور منشیات اسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیا‘اس سب کے باوجود ان کے 5 سالہ دور اقتدار میں افغانستان دنیا کا سب سے پرامن اور جرائم سے پاک ملک بنا رہا۔کھانے کو کچھ نہیں تھا اس کے باوجود اس عرصہ حیات میں افغانستان سے دوسرے ملکوں کی طرف نقل مکانی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا‘نہ ہی لوگوں کو بھوک کے ہاتھوں تڑپ تڑپ کر مرتے دیکھا گیا۔یہ سب ایک معجزہ ہی تھا،اللہ نے ان فقیر‘درویش حکمرانوں کے صبر و ثبات کی وجہ سے افغانستان پر سکینت طاری کر دی اور بھوک اور روٹی بانٹ لینے کے جذبے کی وجہ سے انہیں برکت آشنا کئے رکھا۔ امریکی ٹکڑوں پر پلنے والے نام نہاد تجزیہ کار دانش ور جو طالبان کی نئی حکومت کے غم میں دبلے ہوئے جاتے ہیں کہ اگر امریکی دبائو اور یورپی اثرورسوخ کی وجہ سے دنیا نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا،تو ان بے چاروں کا کیا بنے گا؟انہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہیں طالبان کے گزشتہ دور حکومت پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے کہ جو دنیا کی بے اعتنائی پر اس وقت زندہ تھے اور اب تک زندہ و بیدار کھڑے ہیں‘عالمی تنہائی‘جبر و تشدد‘جنگ و جدل کے 25برس کے بعد جو فاتح بن کر آج پھر کابل میں شاہ و شوکت کی بجائے عجز و انکساری کے ساتھ وارد ہوئے، وہ پچھلے پچیس برس کی مشقت کے مقابلے میں یقینا بہتر زندگی گزارنے کے فن جان چکے اور سمجھ چکے ہونگے۔بے دام کے امریکی غلاموں کو افغانستان کے غم میں بے سکون ہونے کی بجائے اپنے آقا کی خبر لینی چاہیے، جس کا صدر تیرہ امریکیوں کے کابل ایئر پورٹ پر قتل کے بعد دشمنوں پر غرانے اور دھمکیوں دینے کی بجائے پوری دنیا کے سامنے بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے‘بغیر پچکارے امریکہ کے لئے دم ہلانے والے برطانیہ کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ اب امریکہ‘سپر پاور‘ نہیں رہا بلکہ اب وہ کسی بھی درجے کی سپر پاور کہلانے کا حق دار نہیں ہے۔ آج کل ہمارے ہر ٹی وی چینل پر ایک سوال بڑے تواتر سے دہرایا جا رہا ہے کہ ’’پاکستان کا رویہ نئی حکومت کے بارے میں کیا ہو گا؟‘‘ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کر لے گا یا باقی دنیا خصوصاً امریکہ یورپ اور چین کی طرف دیکھتا رہ جائے گا؟ پاکستان‘افغانستان کیلئے بڑا حساس ہے‘اس بارے میں اس کا رویہ ہر حکومت کے ساتھ دوستانہ اور ہمدردانہ رہا ہے۔جنگ ہو یا امن پاکستان نے اپنے مغربی ہمسائے کو کبھی نظرانداز نہیں کیا‘موجودہ حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے اپنا نقطۂ نظر پہلے ہی واضح کر چکے ہیں،وہ نئی حکومت کو تسلیم کریں گے‘البہ انہیں عجلت میں ایسا کرنے کی بجائے اپنے دوستوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے اور زخم کھائے یورپ کو تسلی‘دلاسے کیساتھ منانے کی کوشش کرنا اور انہیں نئی حکومت کی مشکلات پر قابو پانے کیلئے طالبان کی مدد پر آمادہ کرنا چاہیے۔پاکستان طالبان کی حکومت باضابطہ قائم ہو کر اعلان ہونے سے پہلے ہی اپنی کوششوں کا آغاز کر چکا ہے۔ امریکی فوج کے انخلا پر وزیر اعظم عمران خان کا کہنا کہ افغانستان نے آج غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔اس سے بہتر اور واضح اعلان اور کیا ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں جنگ و جدل ہو یا امن و خوشحال پاکستان ہر صورت حال میں اس سے متاثر ہوتا ہے۔افغانستان میں روس فوج کشی کرے یا امریکہ حملہ آور ہو‘پاکستان کو اپنے ہمسایہ کی مدد سے زیادہ اپنی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے،روس اور امریکہ باری باری افغانستان پر حملہ آور ہوئے دونوں کے مقاصد میں کوئی فرق نہیں تھا۔دونوں افغانستان کے راستے دراصل پاکستان اور ایران کا کانٹا نکالنے کو آئے۔پاکستان کو آنے والے خطرے کا پورا ادراک تھا اور اس نے ان خطرات کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔روس آیا تو بھی بھارت اس کا مددگار تھا اور جب امریکہ نے حملہ کیا تو یہ چمگادر اور اس کے ساتھ چمٹ کر پھر سے ہماری مغربی سرحد پر پہنچ گئی۔انجام جاننا ہے تو پاکستانیوں سے پوچھنے کی بجائے امریکی ذرائع ابلاغ سے جانئے اور بھارت کی سوگ میں ڈوبی چیخ و پکار سنئیے۔ سب خود آپ کی سمجھ میں آ جائے گا۔گزشتہ روز ایک دوست نے پوچھا روس کے خلاف پاکستان نے جو کیا اور ضیاء الحق کی قیادت میں جو ہوا وہ ہم سب جانتے ہیں لیکن دسمبر 2001ء میں جب امریکہ افغانستان میںگھس آیا، تو ہم نے اس کی فوج اور اسلحہ کو افغانستان تک جانے کے لئے اپنی بندرگاہیں اور شاہراہیں کھول دیں اور ہوائی حملوں کے لئے اپنے ہوائی اڈے تک فراہم کئے!ہم بھی امریکہ کے ساتھ تھے، طالبان کے لئے ہم نے کیا کیا ہے؟اس کے جواب میں اپنے دوست کو عظیم فلسفی‘سائنس ارشمیدس کا حوالہ دیا۔قدیم یونانی دانش کے عظیم فلسفی سائنس دان نے ’’لیور‘‘ کی بے پناہ طاقت کو دریافت کر لیا تھا۔اس نے کہا اگر مجھے زمین سے باہر پائوں دھرنے کی جگہ دے دی جائے، تو میں صرف ’’لیور‘‘ کی مدد سے پوری زمین کو اوپر اٹھا سکتا ہوں۔‘‘ پاکستان نے اور کچھ کیا نہ کیا…مگر افغانستان کی جنگ آزادی لڑنے والے طالبان کو افغانستان کے باہر پائوں دھرنے کی جگہ اور ایک مضبوط ’’لیور‘‘ ضرور فراہم کر دیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے بس اتنی سی مدد ’’علی گیلانی‘‘ کے کشمیر کو بھی چاہیے۔