کسی ویران سڑک کے کنارے جس پر درختوں کے خشک اور زرد پتے پڑے ہوں۔ چلتے چلتے بیٹھ جانا میری عادت ہے۔ میں دیر تک یوں ہی بے مقصد بیٹھا رہتا ہوں۔ تب ذہن دھند میں ڈوبنے ابھرنے لگتا ہے۔ پرانی دھرائی باتیں یاد آنے لگتی ہے۔ دل میں کچوکے لگاتی ہیں تو اداسی اتر کر رگ و پے میں تیرنے لگتی ہے۔ آج دوپہر کا واقعہ میں اسی طرح چلتے چلتے ایک سنسان سی سڑک پر جس کے دونوں طرف سبز گھاس کے تختے بچھے تھے۔ ایک پستہ قامت درخت جس نے سایہ کر رکھا تھا میں اس کے سائے تلے بیٹھ گیا۔ اکا دکا موٹر سائیکل گزر جاتی یا کوئی مزدور سائیکل پر گھنٹیاں ٹنٹناتی نکل جاتا۔ بیٹھ کے درخت کے سائے میں اچھا لگ رہا تھا مجھے۔ ذہن ڈوبنے لگا ‘ احساسات جاگ پڑے اور میں کسی انجانے خیالوں میں ڈوبنے سا لگا۔ ’’اسلام علیکم‘‘ایک زور دار آواز نے مجھے چونکا دیا۔ یہ ہمارے علاقے کے ایک دین دار بزرگ تھے۔ شرعی حلیے میں‘ آنکھوں پر سیاہ رنگت کی دھوپ کی عینک لگائے نہایت محبت سے انہوں نے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ ہاتھ ملا کر وہ بھی سڑک پر اکڑوں بیٹھ گئے۔ میں انہیں ایک نمازی کے طور پر پہلے سے جانتا تھا اور ایک ادا پر فریفتہ بھی تھا۔ مغرب کے وقت جب اذان ہو چکی ہوتی تھی وہ سڑک پر تیز تیز قدموں بلکہ تقریباً دوڑتے ہوئے مسجد کی طرف جاتے نظر آتے تھے کہ کہیں تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو جائے۔ اگر میں گاڑی پہ ہوتا توروک کے انہیں بٹھا لیتا تھا۔ نماز جماعت سے ادا کرنے کی ان کی خواہش میرے لئے قابل رشک تھی۔ تو جب وہ بیٹھ گئے تو انہوں نے مجھ سے تعارف حاصل کرنا چاہا۔ میں نے مختصراً انہیں اپنا حدود اربعہ بتا دیا۔ تب انہوں نے پوچھا کہ اچھا کیا تو آپ مجھے بتاسکتے ہیں کہ ایمان کی کتنی شاخیں ہیں؟‘‘میں چکرا گیا۔ کتابوں میں پڑھا تھا مگر اس وقت مستحضر نہ ہو سکا تو میں نے نفی میں جواب دیا تب وہ بولے ’’یاد رکھیے ایمان کی 77شاخیں ہیں‘‘ پھر انہوں نے باری باری تقریباً پچیس شاخوں کی بابت مجھے بتایا۔ تمام شاخیں شاید انہیں بھی یاد نہ تھیں یا ممکن ہے کوئی اوروجہ ہو۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے میرے دینی علم میں اضافہ کیا۔ میرے شکریے سے حوصلہ پا کر انہوں نے اپنے مبلغ علم کو آواز دی اور پھر وہ رواں ہو گئے۔ آدھ پون گھنٹے میں انہوں نے جو کچھ بیان کیا وہ تو اب مجھے پوری طرح یاد نہیں‘ ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ اس میں احکام الٰہی ‘ احادیث مبارکہ اور نصیحتیں ہی نصیحتیں تھیں ۔ ان ہی میں ایک سوال نفس کی بابت تھا کہ تزکیہ نفس کیا ہے؟ اور خود نفس کیا ہے؟ اس کا انہوں نے بس یہی جواب دیا کہ دل کے اندر جو خواہش پیدا ہوتی ہیں وہ نفس کہلاتی ہیں۔ ان خواہشات کی نفی کر کے اللہ کے احکامات پر عمل کرنا ہی تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔جب وہ اپنا مقدس فریضہ ادا کرکے رخصت ہونے لگے تو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی کہا کہ حضور! آج آپ نے میرے علم دین میں بہت اضافہ کیا۔ تو یہ بولے’’کل بھی میں نے مسجدمیں بیان دیا تھا‘ بہت لوگ تھے۔ آپ بھی آیا کیجیے‘‘ میں نے وعدہ کیا کہ حاضرہونے کی کوشش کروں گا۔ فرمانے لگے میں تبلیغ کے لئے اندرون سندھ جاتا رہتا ہوں اور میں نے کئی ہندوئوں کو مسلمان کیاہے۔ عرض کیا پھر تو آپ جنتی ہوئے۔ یہ سن کرتھوڑی سی حیا چہرہ مبارک پر نمودار ہوئی۔ کوئی قرآنی آیت پڑھ کر موضوع بدلنا چاہا اور پھر دوبارہ رواں ہو گئے۔ پھر وہی کلام الٰہی اور احادیث مبارکہ ۔میں نے شرمسار ہو کر سر جھکا لیا۔ اپنی بات ختم کرتے ہوئے فرمایا:بیان میں آیا کیجیے۔ بہت نفع ہو گا۔ میں نے ایک بار پھر اتفاق کیا۔ اس پہ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب وہ مصافحہ فرما کر تشریف لے گئے تو میرا جی سڑک کے کنارے بیٹھنے سے نہ جانے کیوں اچاٹ سا ہو گیا۔ اب کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ میں کسی مجرم کی طرح وہاں سے اٹھا اور گھر کی طرف آہستہ آہستہ قدموں چلنے لگا۔ چلتے ہوئے سوچتا رہا کہ بزرگ کی تمام باتیں ٹھیک ہی تھیں تو پھر ان باتوں کا مجھ پر خوشگوار اثر کیوں نہ ہوا؟ بہت غور کیا لیکن سمجھ میں نہ آ سکا۔ گھر پہنچا تو اہلیہ نے پوچھا‘ آپ کہاں رہ گئے تھے؟ آہستگی سے کہا: ایک بزرگ مل گئے تھے ان کی نصیحتیں سننے بیٹھ گیا تھا‘‘کیا کہہ رہے تھے‘ اہلیہ نے پوچھا۔ کچھ نہیں کہہ رہے تھے کہ چلہ پہ میرے ساتھ چلیے ۔ کچھ دن لگائیے دین محنت سے آتا ہے۔ اہلیہ بھڑک اٹھیں کہنے لگیں ہرگز نہیں۔ آپ مسجد میں نماز پڑھتے ہیں یہی بہت کافی ہے۔ ہمارے نبی کریمؐ کوئی چلہ نہیں کاٹا تھا اور نہ رستہ چلتے آدمی کو روک کر پون گھنٹے تک نصیحتیں کرتے تھے‘‘ میں نے مزاحمت کی نیک بخت قرآن و حدیث جوسنائے اس کی بابت ایسے خیالات نہیں رکھتے۔ بیوی بولیں۔ اچھا میرا چولہا جل رہا ہے کیا آپ ٹماٹر لے کر آئے؟ یکدم میں نے پیشانی پہ ہاتھ مارا کہ ٹماٹر تو لانا ہی بھول گیا۔بھول گئے نا اور نصیحتیں سنیں۔ ان بزرگ نے آپ سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کسی کام سے تو نہیں جا رہے؟ ممکن ہے اگر وہ یہ پوچھ لیتے اخلاقاً تو کم از کم آپ کو ٹماٹر لانا یاد رہتا‘‘ بیوی کی نصیحت ایسی تھی کہ انکار نہ کر سکا ۔ٹماٹر لانے دوبارہ مارٹ جانا پڑا۔ مگر اس موڈ کا ستیا ناس ہو گیا تھا جسے لے کر تھوڑی دیر پہلے گھر سے نکلا تھا۔ ٭٭٭٭٭