احتساب سے تہی دامن جمہوریت کے کیا معنی رہ جاتے ہیں۔ ایسی جمہوریت نہ تو انسانی حقوق کی پاسداری میں کام آ سکتی ہے اور نہ ہی اس سے الیکشن میں مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔مسلم لیگ ن کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ ایون فیلڈ فلیٹز اور حدیبیہ پیپر مل سے شروع ہوا اور اس ڈرامے کا خاتمہ نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے امکانات ختم کرنے، نواز، شہباز، مریم اور حمزہ سمیت بیشتر قیادت کو بیرون اور اندرون ملک کرپشن کے الزام میں جیل بھیجنے اور مریم نواز اور نواز شریف پر پیسے کی بیرون ملک ترسیل کے شواہد پیش نہ کرنے کی پاداش میں فرد جرم عائد کرنے پر ہوا۔ دوران تفتیش بیرون ملک پیسوں کی ترسیل کے حوالے سے جو شخص سب سے زیادہ مطلوب تھا اسے اسحاق ڈار کہتے ہیں۔ یہ اس وقت کے وزیر خزانہ تھے۔ ان پر حدیبیہ پیپر مل سے حاصل شدہ پیسوں کو بیرون ملک ترسیل کرنے کا الزام تھا۔وہ متعدد اور مقدمات میں بھی مطلوب تھے جیسے کہ فراڈ، کک بیکس اور قومی خزانے کا غلط استعمال۔ لیکن، اس سے پہلے کہ قومی احتساب عدالت ان پر ہاتھ ڈال پاتی، وہ بیماری کا علاج کروانے ملک سے باہر چلے گئے۔لیکن اس غیر حاضری کے باوجود وہ سینیٹر منتخب ہوئے اور چار سال تک سینیٹر رہے۔ انہوں نے گزشتہ منگل پاکستان واپسی پر بطور سینیٹر حلف اٹھایا۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام مقدمات کا کیا ہوا جن میں ڈار عدالتوں کو مطلوب تھے؟ جواب ہے: ہم نہیں جانتے۔ مفروضہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے معاہدے کے ذریعے آئے ہیں جو انہیں ان تمام جرائم سے بری کر دیتا ہے۔ حالانکہ نہ تو ابھی اسحاق ڈار نے ان مقدمات میں اپنی معصومیت کے حوالے سے کوئی پٹیشن دائر کی ہے اور نہ ہی عدالتوں نے اس حوالے سے انہیں جھوٹا ثابت کیا ہے۔ یہ ضرور ہوا تھا کہ ان کی پاکستان میں کچھ جائیدادوں کو ریاست کی تحویل میں دے دیا گیا تھا جو مبینہ طور پر پاکستانی خزانے سے حاصل شدہ رقم سے بنائی گئی تھیں۔ اسی طرح ڈار صاحب پر دبئی میں جائیدادیں رکھنے کا الزام بھی تھا۔ اس کا کیا بنا ہمیں کچھ پتا نہیں۔ ہمیں اگر کچھ پتا ہے تو صرف یہ کہ وہ پاکستان کے نئے وزیر خزانہ ہیں اور انہیں اس بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس کے بدلے اگر کرپشن پر پردہ ڈالنا پڑے تو وہ ہمیں منظور ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کہیں پاکستان کی معیشت درست کرتے کرتے ہم ملک کی بچی کھچی اقدار اور عزت کو تو نہیں داو پر لگا رہے۔ کیا ہم اس تمام کھیل میں پاکستان کے عدالتی نظام کی افادیت، کارکردگی اور انصاف دینے کی صلاحیت پر مزید سوال تو نہیں اٹھا رہے۔ نیب نے تو شاید وہ ہی کیا جس کا انہیں حکم دیا جاتا تھا۔ طاقت کے مرکز سے باہر کھیلنے والوں کو شائد انکا انجام دکھانا منظور تھا۔ سووہ ہو گیا۔ پاکستان کے عوام، خاص طور پر عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرنے والوں کو شریفوں کو جیل میں ڈالنے میں اتنی دلچسپی نہیں تھی جتنی کہ لوٹے ہوئے پیسے کو اس کی صحیح جگہ یعنی خزانے میں واپس لانے میں۔لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ منصوبہ سازوں کا روڈ میپ خان سے مختلف تھا۔ عمران کا منتخب کردہ راستہ انہیں صرف اقتدار تک لے جا سکا۔ لیکن وہ اس مشن کی تکمیل کو بھول گئے جس کے لیے انہوں نے 22 سال قبل بطور ایک سیاسی ریفارمر آغاز کیا تھا۔ ایک صفحے پر رہنے کی کوشش میں خان صاحب نے پاکستان کو مافیاز کے چنگل سے نکالنے کا خواب کھونا شروع کر دیا۔ اگرچہ انہوں نے ایک مضبوط عدالتی نظام کی افادیت پر بیش بہا بحث کی اور اسے اپنے ویژن کا حصہ بھی بنایا لیکن ان کے پاس کوئی ایسا فارمولا یا کہہ لیجیے ہمت نہ تھی جس سے وہ عدلیہ کو منظم اور خود مختار بنا سکتے۔ اسی طرح پولیس کے حوالے سے اصلاحی پروگرام بھی خان نہ لا سکے۔ ان تمام بڑی ناکامیوں کی بنیادی وجہ خان کی نا تربیت یافتہ ٹیم تھی۔ جس کا تذکرہ خان خود بھی کرتے تھے۔لیکن ان کی توجہ کا بڑا حصہ اقتدار بچانے کی کشمکش میں گزرتا۔انہیں یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ تبدیلی کے جس نعرے کی پشت پناہی میں وہ وزیر اعظم بنے ہیں اس کا لا حاصل انجام انہیں سیاسی طور پر یتیم کر رہا ہے۔ خان تو بس اس سائے کا پیچھا کر رہے تھے جس نے انہیں تخت دیا تھا۔ جیسا کہ انہوں نے پہلے بہت سے دوسرے افراد کو دیا بھی اور ان سے چھین بھی لیا۔ خان نے اپنے حامیوں کو دھوکہ دیا۔ یہی وہ تاثر تھا جو ان کے پیروکار 10 اپریل تک لے رہے تھے۔ دس اپریل کی رات تک خان کا ووٹر خان سے نالاں تھا اور یہ یقین کر بیٹھا تھا کہ خان بھی دوسروں کی طرح اقتدار کا بھوکا نکلا۔لیکں 10 اپریل کی شب بارہ بجے کہانی کا رخ ہی بدل گیا۔ عدم اعتماد کی تحریک کا انجام ایسے ہوا کہ اس ڈر سے کہ کہیں خان اور اسکے ساتھی اس تحریک کی کامیابی میں رخنہ انداز ہوں ،کیا عدلیہ، کیا مقننہ اور کیا اسٹیبلیشمنٹ سب نے اپنی اپنی چھریاں تیز کر لیں۔ اور جب بلآخر خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اس وقت تک ہر ادارہ بری طرح بے نقاب تھا۔ اور ہر ادارے کے جسم سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ خان کا رخصت ہونا پی ڈی ایم کی شکست ثابت ہوا۔ خان کی جس عجلت کے ساتھ برطرفی کی گئی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ طاقت کا مرکز پاکستان کے سیاسی نظام کو اپنی انگلیوں پر نچانا چاہتا ہے اور عوام کی فلاح و بہبود انکے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پھر کیا تھا لوگ جوق در جوق عمران اور اس نظام کی مخالفت میں ہر شہر میں نکلے۔ سچ یہ ہے کہ خان نے کبھی بھی شریف خاندان کو سزا نہ دینے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ خان کا بنیادی قصور یہ تھا کہ وہ مقدموں کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ بطور وزیر اعظم ان کی کارکردگی، خاص طور پر پنجاب میں بہت ہی بری رہی۔ معتبر ذرائع کے مطابق خان کے دور حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا تھا جس میں پنجاب پیش پیش تھا۔ اسی طرح بلوچستان میں سمگلنگ بلا روک ٹوک جاری رہی۔اور پی پی پی اور ایم کیو ایم کی بددیانتی کی وجہ سے کراچی بھتہ خوری کا مرکز بنا رہا۔معزولی کے وقت خان کا واحد سہارا ان کے مذہبی تصورات اور مالی طور پر دیانتدار رہنما کی ساکھ تھی۔ حالانکہ اقتدار میں رہتے ہوئے یہ خوبیاں خان کے لیے کسی بوجھ سے کم نہ تھیں کیونکہ یہ تاثر لیا جاتا تھا کہ خان ان کے پیچھے اپنی نالائقی چھپا رہا ہے۔ لیکن جب راتوں رات چور، مفرور اور منی لانڈرنگ میں مطلوب سزا یافتہ ملزمان سیاسی لیڈر بن گئے تو پاکستان کی 70 فیصد آبادی جو اٹھارہ سے 35 سال کے درمیان ہے کو خان ہی میں وہ واحد نجات دہندہ نظر آیا جو انہیں اس کرپٹ مافیاز سے نجات دلا سکتا ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی سے میرا اور ملک کے 220 ملین عوام کا ملک کے عدالتی نظام پر اعتماد مجروح ہوا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ شریفوں، اسحاق ڈار، زرداریوں اور اسٹیبلیشمنٹ کے لیے انصاف کی الگ تعریف ہے۔ ان کی نظر میں انصاف وہ ہے جو انہیں اقتدار تک لے جائے ، باقی سب سیراب ہے، پھر چاہے وہ آئین پاکستان ہی کیوں نہ ہو۔ اس تمام واردات میں خان کے لیے سبق یہ ہے کہ انھیں تاریخ کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا نہ کہ سائیوں کے تعاقب میں اپنی کوشش ضائع کرتے۔رہ گئی پاکستان کی عدلیہ تو اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد اس کی کیفیت اس شخص سی ہے جس کے پیچھے کھائی اور آگے گڑھاہے۔