نئی حکومت کیا آئی ہے ایسا لگتا ہے جیسے گنز بک آف ریکارڈ کا نیا اڈیشن شائع ہو گیا ہے۔ ہر روز ایک نیا ریکارڈ بن رہا ہے۔ اس حکومت کا سلوگن ہے پاکستان میں پہلی بار ۔۔ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے پہلی بار ہو رہا ہے اس کی نظیر نہ پہلے تھی اور امید ہے نہ مستقبل میں ہو گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے ٹی ٹونٹی کے آخری دو اوور کا کھیل باقی ہے۔ دو ماہ میں پٹرول 150 سے 210 تک ہو گیا ہے۔ ڈیزل 145 سے 205 پے ہے۔ بجلی کی قیمت 45 فی صد بڑھ گئی ہے۔ گیس کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ کوکنگ آئل 400 سے 600 کی جانب گامزن ہے۔ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی بار 200 کراس کر گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ اب اس میں سے جو بلا نکلی ہے وہ ناں تو عوام کے قابو میں آسکتی ہے اور ناں ہی حکومت کے بس کا روگ ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ صاحب فرماتے ہیںکہ موجودہ صورتحال میں حکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی مہنگائی کے اس سیلاب پر چپ ہے۔وہ بھی تاویلیں دے رہا ہے اس وقت ملک معاشی بحران سے دوچار ہے اس لئے حکومت کو سخت فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں ان فیصلوں کی سختی کس پر ہے۔ ان فیصلوں سے ملکی اشرافیہ کا کیا بگڑے گا؟۔ کیا عدلیہ، سول بیورو کریسی، ملٹری اسٹیبشمنٹ اور سیاست دان طبقے پر ان سخت فیصلوں کا اثر ہوگا؟ کیا ان کی بے مہار خواہشات پر کوئی ضرب پڑے گی؟۔ کیا اعلی طبقے کو دی جانی والی مراعات کم ہونگی؟۔ اگر ان میں کسی بات کا جواب ہاں میں ہے تو میں کہوں گی یہ سخت فیصلے ہیں۔ جو بھی اقدامت کئے گئے ہیں انکے اثرات صرف غریب طبقے پر ہیں۔یہاں تو وہ مثال ہے حلوائی کی دکان اور نانا جی کی فاتحہ۔ عوام سے دلچسپی کس کو ہے۔ یہ تو حشرات الارض ہیں۔ مراعات یافتہ طبقہ ہاتھیوں کی مانند ہے جو اپنے راستے میں آنے والے کیڑے مکوڑوں کو کچلتا جا رہا ہے۔ سخت فیصلے تو وہ ہوتے کہ عوامی نمائندوں کی مراعات ختم ہو ں۔ ان کا فری پٹرول ختم ہو ، ان کی تنخواہ میں کمی ہو۔ ججوں کی پنشن کم ہو ان کی ریٹائر منٹ کے بعد کی مراعات ختم ہو ں۔ کیا لگژری آئٹمز کی درآمد پر پاپندی لگا دی گئی ہے۔ اگر کسی گھر پر قرضہ چڑھ جائے تو اسکے افراد اپنا خرچہ کم کرتے ہیں۔ فضول خرچوں کو بند کیا جاتا ہے یہاں تو وہ عالم ہے کہ گھریلو ملازم کی دو روٹیوں کو ایک میں بدلا جا رہا ہے اور گھر کا سربراہ کہتا ہے میں یہ فیصلہ دل پر پتھر رکھ کر کررہا ہوں۔ اس وقت خاندان بحران میں ہے۔ کوئی اس کو بتائے چوہدری صاحب اپنی اولاد کے اخراجات کو کنٹرول کرو۔ جو بیٹا نشہ کرتا ہے اسکول گام ڈالو۔ جو تماش بینی میں مشغول ہے اسکا خرچہ پانی بند کرو۔ملازم کی ایک روٹی کے پیچھے نہ پڑو۔ یہاں تو یہ عالم ہے دکھ جھیلیں بی بی فاختہ اور انڈے کھائیں کوے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے تریل چٹیاں تریہہ نہیں لیندی۔ جس کا مفہوم ہے شبنم کو چاٹنے سے پیاس کم نہیں ہوتی۔ ابھی تک ہمارے طبقے کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ کہ آپ کچھ لوگوں کو ساری عمر بیوقوف بنا سکتے ہیں یا سب لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ آپ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ اب 2022ء ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اب پرانی ڈگڈگی والہ تماشہ نہیں چلے گا ۔اب عوام پرفارمنس مانگتی ہے۔ٹیم سکور کا تقاضا کرتی ہے وہ آپ کے تجربے اور انداز کو خاطر میں نہیں لائے گی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ تیسرا اہم وقت ہے۔ پہلی بار جب پاکستان بنا تو نیا ملک وسائل کے بغیر تھا مگر قائداعظم کی بے لوث قیادت میں پاکستانی قوم نے اس کڑے وقت میں ہر سختی کو برداشت کیا۔ دوسرا موقع 1971 میں آیا جب ملک دو لخت ہو گیا۔ اس وقت قوم نے اس صدمہ کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔16 دسمبر 1971 آج بھی بہت پاکستانیوں کے لئے اس دن جیسا ہے جس دن انکا کوئی عزیز فوت ہوا تھا۔ ہمارے لیڈر اور طاقتور لوگ بھول گئے ہوں گے مگر پاکستان کے عوام اس دن کو آج بھی نہیں بھولے۔ ہماری اشرافیہ کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ اپنے کرتوتوں سے تائب ہو جائے۔ ابھی شام ہونے میں کچھ وقت ہے بھولے ہوئے لوگوں کے پاس ابھی وقت ہے وہ گھر آجائیں۔ ورنہ شام کے بعد تو جنگل میں جنگلی جانور ہونگے اورموت کا رقص ہوگا۔ اب سب جو اس کھیل میں شامل ہیں ان کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیں ہر ادارہ اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ مقتدر حلقے اپنا بھرم قائم رکھیں۔ عدالتیں انصاف کی فراہمی کو آسان بنائیں اور سیاستدان افہام تفہیم سے کام لیں۔ اپنی ذاتی اغراض کو پس پشت ڈالیں اور ملک کو اس بحران سے نکالیں ورنہ نہ تو ہم روس ہیں جس کے 15 سے زائد ٹکرے ہو گئے تھے۔ روس کے پاس فوج بھی تھی اسلحہ بھی تھا رقبہ بھی تھا مگر کمزور معیشت سب کچھ کھا گئی۔ اب اکابرین کو چاہئے کہ اس ڈوبتے جہاز میں اور سوراخ نہ کریں۔ ملک میں افراط زر کا جو عالم ہے وہ حالت جنگ کا ہے یہ نارمل حالات نہیں ہیں۔ گرمیوں میں انڈا 20 روپے کا ہے سردیوں میں کیا عالم ہوگا۔ چاول اس وقت 250 روپے کے قریب ہیں اور ڈیزل کی قیمت کا جو حال ہے اور بجلی جس طرح سے مہنگی ہوئی ہے چاول کے قابل کاشت رقبہ میں بہت کمی ہوگی اور چاول 350 روپے کلو تک ہو سکتے ہیں۔ گندم ایک ماہ میں 2900 سو کی حد کراس کر گئی ہے۔ مکئی 2000 سے اوپر ہے۔ چکن کا ریٹ اور بڑھنے کا امکان ہے۔ گندم اس سال 3000 تک جاسکتی ہے عالمی منڈی سے 4000 میں لیکر ہم کسان کو 2200 دیں گے تو وہ کسی دن مشکل فیصلہ کر سکتا ہے کہ گندم اپنی ضرورت کی کاشت کرے۔ ہمارے حکمران طبقہ کو حقیقت کی دنیا میں آنا پڑے گا ورنہ عوام ان کا اس دنیا میں جینا دوبھر کر دیں گے۔ بلی بند کمرے میں گردن کی طرف لپکتی ہے۔ عوام کو اس حد تک دیوار سے نہ لگائیں کہ وہ سخت اور مشکل فیصلے کرنے پر مجبور ہو جائے۔