جنوری کے مہینے میں ویسے ہی کشمیر میں ہر چیز جم جاتی ہے، مگر شمالی کشمیر کے سوپور قصبہ میں 1972کی سردیاں گرمی کا احساس کروا رہی تھیں، ایک تاریخ رقم ہو رہی تھی۔ جب ماضی کو کریدتے ہوئے میں معلوم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اباجی یعنی سید علی گیلانی کو میں نے پہلی بار کب اور کہاں دیکھا تھا، تو یادوں کی دھند صاف کرتے ہوئے مجھے ایک چار سالہ بچہ نظر آیا، جو اپنے چاچا ڈاکٹر مشتاق گیلانی (جو ان دنوں سرینگر میڈکل کالج میں طالب علم تھے) کے کندھے پر سوار رات گئے میر سید علی ہمدانی کی درگاہ یعنی خانقاہ کے صحن میں ایک پر جوش ہجوم کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایک دراز قد ، بارعب مگر شفیق اورخوش لباس شخص درگاہ کے دروازے سے نمودار ہوتا ہے اور نعروں میں مزید ارتعاش آجاتا ہے ۔ جوں جوں یہ شخص قد م بہ قدم سیڑھیوں سے نیچے اترتا ہے، ہجوم بے قابو ہوکر اس کے قریب جانے اور مصافحہ کرنے میں سبقت لینے کے لئے بیتاب ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ شخص گیلانی صاحب ہیں، جو ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے ہیں اور خانقاہ میں نماز شکرانہ ادا کرنے کیلئے آئے تھے۔ وہ ہمار ے قر یب آئے اور میرے چاچا سے علیک سلیک کرکے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر گالوں کو تھپکی دی۔ ان کے خاندان کے ساتھ ہمارا بس اتنا تعلق تھا کہ وہ میرے تایا پروفیسر سعید (جو انہی دنوں امریکہ منتقل ہو گئے تھے)کے استاد تھے۔ بعد میں اباجی بتاتے تھے کہ سوپور انٹر میڈیٹ اسکول میں جب وہ سعید صاحب کو پڑھاتے تھے، تو انکو اپنا بچپن اور غربت میں پڑھائی کیلئے تگ و دو یاد آجاتی تھی۔ اسی وساطت سے وہ میرے دادا غلام نبی ، جو ابن حسام کے نام سے شاعری کرتے تھے اور عربی فارسی کے عالم بھی تھے، کو بچوں کو پڑھانے کی ترغیب اور حوصلہ دیتے تھے۔ اس الیکشن میں انہوں نے دھاندلیوں کے باوجود اس خطے سے کانگریس کے ایک بت کو پاش پاش کردیا تھا۔ سوپور قصبہ اور اسکے اطراف میں 60اور 70ء کی دہائی میں پیدا ہونے والے افراد کیلئے شعلہ بیان سید علی گیلانی، انقلابی شخصیات چی گویرا، ہوچی منہہ،آیت اللہ خمینی تھے۔ وہ اپنے خطاب سے بدن میں بجلیاں بھر دیتے تھے۔ چاہے مقامی مسائل ہوں، یا 1979 میں افغانستان پر سوویت فوجوں کی چڑھائی یا اس کے ایک سال بعد اسرائیل کا یروشلم شہر کوضم کرنے کا واقعہ ہو، وہ اپنی سٹریٹ پاور کا استعمال کرتے ہوئے ریاست کے تجارتی مرکز کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ چی گویرا نے کہا ہے ’’کہ انقلاب کوئی پکا ہوا سیب نہیں ہوتا ہے، جو خود ہی جھولی میں آکر گرے، اس کو گرانے کیلئے مشقت کرنی پڑتی ہے،‘‘ 1989میں کشمیر میں جو بھارت مخالف انقلاب برپا ہوا، وہ اسکے اہم محرک تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ انکی اپنی پارٹی نے اس سیب کو حاصل کرنے میں خاصی ہچکچاہٹ دکھائی۔ 1975کے بعد کشمیر کی اکثر آزادی پسند تحریکیں انڈر گراونڈ ہوچکی تھیں۔ ویسے 1947کے بعدمسلم کانفرنس کی اعلیٰ لیڈرشپ چودھری غلا م عباس اور میر واعظ یوسف شاہ کی ہجرت کے بعد شیخ محمد عبداللہ کو سیاسی میدان میں چیلنج کرنے کیلئے کوئی موجود نہیں تھا۔ 1975 کے اندرا گاندھی اور شیخ عبداللہ کے سمجھوتے کے بعد بھارت مخالف سیاست کو گیلانی صاحب کی صورت میں بلا شبہ ایک نظریہ، ایک چہرہ،ایک آوازاور سرپرست ملا۔ گوکہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو انقلاب کے سیب کو پکڑنے اور عسکری جدوجہد کا آغاز کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، اس کے بیج گیلانی نے ہی بوئے تھے۔ 1987کے اسمبلی انتخابات میں بے انتہا دھاندلیوں سے قبل ہی بارہمولہ میں ایک درزی اور اسکے معاون کی فوج کے ذریعے حراستی موت کے خلاف ایجی ٹیشن کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے تین الف یعنی اتحاد، اسلحہ اور اسلام کا نعرہ دیا تھا ۔ ان کی تقریر کا مفہوم تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ رکھا جائے کیونکہ سیاسی دروازے بند کئے جا رہے ہیں۔ ان کا بچپن نہایت ہی عسرت اور مفلسی کی داستان ہے۔ کئی کئی دن فاقے کرنے پڑتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے والد بچوں کو پڑھانا چاہتے تھے۔ منجھلے بچے علی پر تو علم حاصل کرنے کا جنون طاری تھا۔ گائوں کے اسکول سے امتیازی نمبر حاصل کرکے ان کو نو کلومیٹر دور سوپور میں پرائمری اور مڈل میں داخلہ ملا۔ گائوں سے اسکول جانے کیلئے یہ بچہ روز پیدل 18کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتا تھا۔ شاید اسی بیک گراونڈ نے انکو سختیاں جھیلنے اور نظم و ضبط کی عادت ڈال دی تھی۔ 1963میں پہلی گرفتاری کے دوران ہی ان کے والد انتقال کر گئے۔ ان کو بعد میں بتایا گیا کہ ان کے والد ان کی یاد میں آنسو بہاکر کھڑکی پر بیٹھ کر سوپور کی طرف کی سڑک پر نگاہ جمائے رہتے تھے اور جب بھی دور سے سیاہ قراقلی پہنے کسی شخص کو آتے دیکھتے تو علی علی پکار کر کمرے سے باہر آجاتے۔ آخرکار یہی گھائولئے دارفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے والد ایک معمولی یومیہ مزدور تھے۔ وسائل کی کمی کے باوجود بچوں کوپڑھانے کیلئے کوشاں تھے۔ یہی وصف بعد میں شاید گیلانی صاحب میں بھی سرایت کر گیا۔ تمام تر مشکلات ا و رطعنے سہنے کے باوجود انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ جیل سے جو خطوط بیٹیوں کو لکھتے تھے، ان میں بھی ان کو تعلیم جاری رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ ویسے تو ان کے خاندان کے ساتھ میرا براہ راست تعلق 1996میں ہوا، جب ان کی صاحبزادی آنسہ میرے عقد میں آئی۔ لیکن ایک لیڈر کی حیثیت اور میرے قصبہ سوپور کے ایک باسی کی نوعیت سے یہ تعلق میرے آنکھ کھولتے ہی شروع ہوگیا تھا۔ شاید ہی کوئی ان کی تقریر یا جلسہ جو سوپور یا اسکے اطراف میںہوا ہو، جس میں، میں نے شرکت نہ کی ہو۔ اپنے دیگر بھائیوں کے برعکس میرے والد کوروایتی پیروں کی طرح جماعت اسلامی سے چڑ تھی ۔ ان کولگتا تھا کہ ان جلسے ، جلوسوں کی وجہ سے میری پڑھائی میں ہرج ہوتا ہے اور گمراہ ہوجاتا ہوں۔ کئی دفعہ میری پٹائی بھی کرتے تھے۔ مگر کبھی خود ہی جیب خرچ دیکر سرینگر عید گاہ میں جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں جانے کیلئے کہتے تھے۔ ان کا یہ تضاد میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر سرکاری ملازمت اختیار کی تھی اور اپنی محرومی کا ازالہ شاید مجھے زندگی میں کامیاب ہوتے دیکھ کر کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران ان کی ڈیوٹی گیلانی صاحب کے گاوٗں ڈورو میں ہوئی تھی اور وہاں ان کے گھر تک ان کی رسائی ہوئی تھی۔ چونکہ ان دنوں میں دہلی میں صحافت کی تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار ہوا تھا، لہذا انہوں نے ہی میرے عقد کی بات چلاکر طے بھی کر لی۔ میری ساس کو بھی ایسے داماد کی تلاش تھی، جس کا سیاست کے ساتھ دور دور کا واسطہ نہ ہو۔ اکثر افراد گیلانی صاحب کو طعنہ دیتے ہیں، کہ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو تحریک میں شامل نہیں کیا۔ ان کے ایک داماد ظہور جو ان کے بھتیجے بھی ہیں، کشمیر کے اولین عسکریت پسندوں میں ہیں اور نوے کی ابتدا میں ہی گرفتار ہو کر نو سال قید میں رہے۔ ایک اور داماد الطاف احمد شاہ تو پہلے دن سے ہی سیاست سے وابستہ تھے۔ نیشنل کانفرنس فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجود جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی سے ان کی وابستگی رہی ہے۔ (جاری ہے)