ممتاز بھٹو کے بعد سندھ کے سابق وزیر اعلی لیاقت جتوئی نے بھی تحریک انصاف کو الوداع کہنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ اگر لیاقت جتوئی کے خاندان کو سینیٹ کی سیٹ ملتی تو وہ پی ٹی آئی سے اپنے آپ کو الگ کرنے کا اعلان نہ کرتے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب سندھ میں تحریک انصاف ایک چڑھتا ہوا نہیں بلکہ ڈھلتا ہوا سیاسی سورج ہے۔ جس طرح مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں سندھ سے تعلق رکھنے والے لیڈرز اور ورکز بہت پریشان تھے، اب وہی حال سندھ میں پی ٹی آئی والوں کا ہے۔ وقت نے بہت جلد ثابت کردیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تو ایک معاہدہ تھا کہ اگر پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تو مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت سندھ میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان کوئی بھی کھلا یا چھپا معاہدہ نہیں ہے۔ پھر آخر کیا سبب ہے کہ سندھ میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے لیڈر اور ورکرز مایوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں؟ تحریک انصاف سے نکل جانے والے اور تحریک انصاف سے نکلنے کی تیاری کرنے والے افراد کا موقف ہے کہ وزیر اعظم اندرون سندھ کو اہمیت نہیں دے رہے۔ ان کی نظر میں اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ صرف کراچی کی اہمیت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف شہری مزاج رکھنے والے جماعت ہے، مگر ملک صرف شہروں سے تو نہیں چلتے۔ تحریک انصاف کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ انہیں صرف شہروں سے نہیں بلکہ دیہی علاقوں سے بھی ووٹ ملے ہیں ۔ پنجاب کا وہ دیہی علاقہ جہاں سرائیکی بولی جاتی ہے وہاں عمران خان ایک نئی امید کا نام تھے۔ اگر سندھ میں بھی بڑے بڑے نام تحریک انصاف میں شامل ہوئے، تو اس کا سبب صرف یہ نہیں تھا کہ ان کے پاس تحریک انصاف کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ جب سندھ کے وڈیروں نے دیکھا کہ سندھ کے نوجوانوں میں عمران خان ایک ہیرو کی طور پر ابھر رہے ہیں تب انہوں نے تحریک انصاف میں غیرمشروط شمولیت اختیار کی۔ جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تب سندھ کے سارے سابق وزرائے اعلیٰ یعنی ممتاز بھٹو؛ لیاقت جتوئی اور ارباب رحیم کو امید تھی کہ عمران خان انہیں سندھ کی گورنری کے منصب پر بٹھائیں گے مگر یہ کس طرح ممکن تھا؟ سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی سندھی اسپیکنگ اور سندھ کے گورنر بھی سندھی اسپیکنگ تو پھر وہی احساس محرومی کا راگ بجنا شروع ہو جاتا۔ اس بات کا احساس بہت جلد ان افراد کو بھی ہوگیا جو گورنری کے چاند سے کھیلنے کے خواہشمند تھے۔ اس کے بعد ان کا خیال تھا کہ اگر گورنر نہ سہی تو کم از کم عمران خان انہیں وفاقی حکومت میں مشیر تو بنا سکتے ہیں۔ پرانے طرز کی سیاست کرنے والے سندھ کی سیاست کے چلے ہوئے کارتوس عمران خان کو مشورہ تو کیا دیتے؟ مگر انہیں کم از کم پروٹوکول تو مل جاتا۔سندھ کے وڈیروں کے لیے مشہور ہے کہ ا نہیں جھنڈے والی گاڑی اور ایک عدد پولیس موبائل میسر نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ سندھ میں تحریک انصاف سے مایوسی کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے اور ہوسکتا کیا؟ ہے!! سند ھ میں اگر تحریک انصاف مایوسی کی علامت بنتی جا رہی ہے تو پھر ایک سبب کا ہونا کافی نہیں ہوتا۔ ہر عمل کے پیچھے چھوٹے یا بڑے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں۔سندھ میں تحریک انصاف کو مضبوط نہ کرنے کاسوال صرف عمران خان سے کیوں پوچھا جائے؟ کیا سندھ میں اس کی پارٹی نہیں ہے؟ عمران خان کو تو سارا ملک چلانا ہے۔ وہ اگر اسلام آباد کو چھوڑ کے حیدرآباد میں کیمپ قائم کریں، توملک کے داخلی اور خارجی معاملات کا کیا ہوگا؟ لیڈر تو یہی کرتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے حکومت حاصل کرتا ہے اور حکومت کے اہم عہدوں پر اپنے ساتھیوں کو بٹھا کر ان سے توقع کرتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت بھی کریں اور پارٹی کو نچلی سطح تک مضبوط اور منظم کریں۔ عمران خان نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے کراچی سے نہ صرف صدر مملکت کا انتخاب کیا بلکہ گورنر ہاؤس میں ایک ایسے شخص کو بٹھایا جو اقتدار میں آنے سے قبل بہت سنجیدہ اور بیحد کام کرنے والا شخص تھا۔ گورنر کے پاس اتنے اختیارات نہیں ہوتے مگر گورنر پھر بھی گورنر ہے۔ دنیا کی کون سی طاقت گورنر کو عوام سے رابط رکھنے سے روک سکتی ہے؟ اگر گورنر چاہیں تو وہ پورے سندھ میں عوام کے دکھ درد معلوم کر سکتے ہیں اور انہیں کافی حد تک حل بھی کرسکتے ہیں۔ گورنر سندھ کے ساتھ اگر تحریک انصاف کے صوبہ سندھ کے عہدیداران عوام سے ملاقاتیں کریں اور انہیں اپنی پارٹی میں شامل کریں تو تحریک انصاف میں نئی قوت پیدا ہوسکتی ہے مگر گورنر سندھ کافی عرصے سے غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ وہ اندرون سندھ تو کیا کراچی کے محلوں میں نہیںجاتے اور نہ سندھ یا کراچی والوں کو اپنے بڑے گھر میں مدعو کرتے ہیں اور ان کے دکھ سکھ معلوم کرتے ہیں۔ وہ ایسا کچھ نہیں کرتے۔ راقم کی معلومات کے مطابق وہ اپنے ذاتی دوستوں کے چھوٹے حلقے تک محدود ہو گئے ہیں۔ وہ عام لوگوں کو تو کیا میڈیا کو بھی اظہار خیال کی دعوت نہیں دیتے۔ اگر کسی سبب سے ان کی پارٹی کا لیڈر حلیم عادل شیخ گرفتار ہوتا ہے تو وہ وفاقی حکومت کو سندھ کے آئی جی کو تبدیل کرنے کے سلسلے میں ایک عدد خط بھیج دیتے ہیں۔ سندھ میں سیاسی طور پر وہ خلا پھر سے پیدا ہونے لگا ہے جس خلا کو پورا کرنے کے لیے تحریک انصاف اندرون سندھ میں سرگرم ہوئی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر جو تحریک چلا رہی ہے اس کا جواب بھی تحریک انصاف سندھ میں سرگرم ہوکر دے سکتی ہے۔ اگر تحریک انصاف چاہے تو آج بھی سندھ میں سرگرم ہوکر انصاف کی صدا بن سکتی ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کا بارہ برس سے زیادہ سندھ پر اقتدار رہا ہے مگر اس پارٹی نے سندھ کے لیے کون سے کام کیے ہیں؟ اگر اس سوال کو ہی تحریک انصاف سندھ میں اٹھائے تو اسے عوامی سطح پر بھرپور حمایت میسر ہو سکتی ہے۔ مگر تحریک انصاف والے شہر کی فضاؤں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور عوامی حمایت عوام کے پاس جانے اور ان سے جڑ جانے کے علاوہ حاصل نہیں ہوتی۔ سندھ کے لوگ برسوں سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی سیاسی نعم البدل آئے اور ان کی پیپلز پارٹی کی سیاسی اجارہ داری سے جان چھڑائے۔ سندھ میں تحریک انصاف کی صورت میں یہ امید سیاسی سورج کی طرح طلوع ہوئی تھی مگر اب وہ صورتحال نہیں ہے۔ بات صرف سندھ کے طالع آزماؤں اور چلے ہوئے کارتوسوں کی نہیں ہے۔ اصل بات سندھ کے عوام کی ہے۔ بات ارباب رحیم کی نہیں ہے۔ اصل بات تھر کے ان لوگوں کی ہے جو اس دور میں بھی جینے کے حق سے محروم ہیں۔ ان کی مجموعی کیفیت تھر کی غریب لوک فنکارہ مرحوم مائی بھاگی کے اس مشہور گیت جیسی ہے جس کے بول ہیں: کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی یعنی: میں نیم کے درخت کے نیچے اکیلی تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ وہ پوچھنا یہ تھا کہ اس سندھ کا سیاسی انتظار کب ختم ہوگا؟