تو کیا وہی ہونے جا رہا ہے جو ہوتا آیا ہے؟ اب بھی عبادات سرکاری خزانے کے بل بوتے پر ہوں گی؟ اور وہی کریں گے جو آسانی کے ساتھ اپنی جیب سے کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ نیکی کے پردے میں لپٹی ہوئی یہ لوٹ مار مرد مومن مردِ حق نے ابتدا کی! قومی خزانے کی مرحوم کی نظر میں وہی وقعت تھی جو آئین کی تھی! آئین ان کے نزدیک کیا تھا؟ کاغذ کا ایک بے جان ٹکڑا ! قومی خزانہ ان کے لئے کیا تھا؟ جیسے ایک بادشاہ کے لئے ہوتا ہے! کبھی تختِ طائوس بنوا لیا‘ کبھی تاج محل! کبھی حرم کی حدود میں سربفلک محلات کھڑے کر لئے کہ نماز کہنے کو حدود حرم میں ادا ہو! درجنوں مثالیں ایسی ہیں جن سے جنرل ضیاء الحق کا قومی خزانے کے ساتھ شاہانہ رویہ ثابت ہوتا ہے۔ بہت کچھ اس پر لکھا جا چکا! کسی کو ابہام نہیں! جو انہیں بزعمِ خود افغان’’جہاد‘‘ کا مائی باپ گردانتے ہیں‘ وہ بھی یہ کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ جنرل صاحب وزارت خزانہ کو قواعد کے مطابق چلانے دیتے تھے! پھر وہ اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ ان کی عمر‘ ان کی خواہش یا دعا کے مطابق میاں نواز شریف کو جا لگی! میاں صاحب نے ستائیسویں رمضان کو جہاز سرکاری خرچ پر اپنے پسندیدہ افراد سے بھرنے اور حرمین شریفین جانے اور لے جانے کا سلسلہ جاری رکھا! لگتا ہے منہ کو لگی ہوئی یہ چاٹ پھر انگڑائیاں لینے لگی ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی گئی کہ۔ ’’پارلیمانی جماعتوں کے اراکین اور پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے امام پر مشتمل سرکاری وفد بھیجنے کے حوالے سے انتظامات کئے جائیں اور وفد کے لئے ارکان کی نامزدگی کی جائے جو حضورؐ کے روضہ پر جا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے انہیں سلام عقیدت پیش کرے‘‘ یہ قرار داد ایوان میں متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون! پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے خطیب پر لازم ہے کہ سمجھائے یہ غلط کام ہے! عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ رقم نفلی عبادت کے لئے دولت مندوں پر خرچ نہیںکی جا سکتی۔ فرض حج ہے وہ بھی اس پر جو مالی استطاعت رکھتا ہو! عمرہ نفلی عبادت ہے۔ جس نے کرنا ہے‘ سو بار کرے مگر اپنی جیب سے! اگر یہ لوگ بھوکے ننگے قلاش مفلس اور تہی دست ہیں تو عمرہ کرنے کے مکلف ہی نہیں! گمان غالب یہ ہے کہ سرکاری خطیب صاحب نہیں بتائیں گے۔ تقسیم ہند سے پہلے کسی نے کہا تھا ؎ اُچّے اچّے وعظ کریندا اے مُلّا سرکاری اے سرکاری ملائوں نے شیخ مبارک سے لے کر آج کے عمامہ پوشوں تک کبھی سچ کہا ہی نہیں! شرق اوسط میں دیکھ لیجیے۔ جب حکومت عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھی تو سرکاری ملا کہتے تھے کہ عورت ڈرائیونگ کرے تو بانجھ ہو جاتی ہے پھر جب حکومت نے موقف بدلا تو یہی سرکاری ملا نسوانی ڈرائیونگ کے فضائل بیان کرنے پر اتر آئے! تو پھر خطیب صاحب اور اسمبلی کے ارکان کو سرکاری خزانے کی مدد سے صاحب نصاب بھی بنا دیجیے تاکہ زکوٰۃ ادا کر سکیں! جس ملک کے ارب پتی وزیر‘ طوافِ کعبہ کے لیے بیس ریال کے چرمی موزے بھی سفارت خانے سے خریدوائیں‘ اس ملک کے ایم این اے سرکاری خرچ پر عمرے اور حج کیوں نہ کریں ع تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے وزیر اعظم عمران خان کے لئے۔ ایک طرف سرکاری خرچ پر چائے کے ساتھ بسکٹ نہیں دیے جا رہے۔ دوسری طرف اگر ضیاء الحق اور نواز شریف کے زمانے کا یہ بے درد اور ظالمانہ رواج ایک بار پھر زندہ کر دیا گیا تو پھر شریف خاندان ہی بہتر ثابت ہو گا کہ اس نے تبدیلی کا وعدہ اور دعویٰ تو نہیں کیا تھا۔ اگر اس قبیل کی‘ نفاق سے بھری ہوئی‘ شہ خرچیاں ہوئیں تو یہ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوں گی۔ سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان سے لاکھوں زائرین جو روضہ اقدس پر حاضر ہوتے ہیں‘ کیا اپنے ملک کی طرف سے سلام عرض نہیں کرتے؟ یقینا کرتے ہیں۔ اسی سلام کو شرفِ قبولیت بھی نصیب ہوتا ہو گا کیوں کہ یہ پاکستانی سرکاری خزانے کو لُوٹ کر نہیں‘ اپنی محنت کی کمائی خرچ کر کے حاضر ہوتے ہیں! ایک طرف خزانے میں نقب لگانے کی یہ کوشش ہو رہی ہے دوسری طرف مریم صفدر غیظ و غضب میں ہیں۔ طیش میں ہیں۔ تلملا رہی ہیں۔ کبھی وزیر اعظم کو نالائق اعظم کہتی ہیں‘ کبھی کہتی ہیں ووٹ چوری کر کے آئے ہیں۔ کبھی اعلان کرتی ہیں کہ جعلی حکومت سے حکومت کرنے کا حق چھین لیا جائے۔’’میں آخری حد تک جائوں گی اور عوام کے حقیقی نمائندے نواز شریف کو انصاف دلوا کر رہوں گی‘‘ صاف ظاہر ہے کہ یہ ردِ عمل کی سیاست ہے۔ اسے سیاست بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اپنے والد اور اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش ہے۔ غصہ اس قدر شدید ہے کہ کبھی چور کبھی نالائق اعظم کہہ کر دل کا غبار نکالا جا رہا ہے۔ آج اگر رہائی مل جائے اور لندن جانے کی اجازت ! تو سارا نام نہاد بیانیہ‘ ہوا میں تحلیل ہو جائے! شریف حکومت سے فائدے اٹھانے والے لکھاری مریم بی بی کے ہاتھ میں بیانیے کا جھنڈا پکڑانے کی جدوجہد کر رہے ہیں مگر اس نام نہاد بیانیے کا قوم سے کوئی تعلق نہیں! دلچسپ بات یہ ہے کہ مریم صفدر نے کہا ہے کہ نواز شریف کو مرسی نہیں بننے دیں گے!اب معلوم نہیں اس خاتون کو مرسی کے بارے میں کتنا کچھ معلوم ہے! اخوان کا نام بھی سنا ہے یا نہیں! خلیل حامدی کی کتابیں اور اس موضوع پر عامر ہاشم خاکوانی اور آصف محمود کے عالمانہ کالم کہاں پڑھے ہوں گے! سابق صدر مرسی شہید کے بچوں نے پریس کانفرنسوں میں والد کی ڈسچارج سلپ اور ڈاکٹری رپورٹیں دکھا دکھا کر ہمدردی حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی! تاہم جس ملک میں سابق صدر آصف زرداری کو نیلسن منڈیلا کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے اس ملک میں مرسی شہید کو نواز شریف کے ساتھ کیوں نہیں ملایا جا سکتا۔ یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے ؎ مال گودام سے لے گئی چیونٹی گندم کی اک بوری سکھر کا پُل جہلم کا دریا‘ دونوں ہو گئے چوری!! بلاول زرداری اور مریم صفدر دونوں نوجوان رہنمائوں میں بے پناہ امارت کے علاوہ ایک قدر اور بھی مشترک سامنے آئی ہے!اور وہ ہے تکبّر ! بے پناہ تکبّر ! ایک نے ’’روک سکتے ہو تو روک لو‘‘ کہہ کر تاریخ اور تقدیر دونوں کو چیلنج کیا تھا۔ دوسرے نے وزیر اعظم کو یہ کہہ کر اپنی جوانی پر غرور کیا ہے کہ ’’تم ستر سال کے بوڑھے ہو اور میں تیس برس کا نوجوان ‘‘!!غرور دولت پر کرنا چاہیے نہ حُسن پر نہ جوانی پر! ہائے میاں محمد بخشؒ کہاں یاد آ گئے ؎ مان نہ کر یو روپ گھنے دا، وارث کون حسن دا سدا نہ رہن شاخاں ہریاں، سدا نہ پُھل چمن دا سدا نہ لاٹ چراغاں والی سدا نہ سوز پتنگاں سدا اُڈاراں‘نال قطاراں‘رہسن کدن کلنگاں لکھ ہزار بہار حسن دی خاکو وچ سمانی لا پریت محمد جس تھیں جگ وچ رہے کہانی مگر شکاری کرے تیاری بار چریندیاں ہرناں جو چڑھیا اُس ڈھیناں اوڑک‘ جو جمیا اس مرناں سدا نہ باغیں بلبل بولے سدا نہ باغ بہاراں سدا نہ ماپے‘ حسن جوانی‘ سدا نہ صحبت یاراں