غمگسار چچا اور وفا شعار رفیقہ حیات کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد ،مکہ والوں کے تیور یک لخت بدل گئے ، شائستگی اور احترام کی بجائے بے مروتی اور سنگدلی غالب آگئی ،مکہ میں اسلام کے شجر طیبہ کے بار آور ہونے کے امکانات مشکل نظر آئے، توحضورﷺ نئے اُفق دریافت فرمانے کی طرف متو ّجہ ہوئے ،جس کے لیے فوری طور پر طائف کا سفر اختیار فرمایا ، طائف مکہ سے 120میل دور ایک خوشگوار اور پُر فضا پہاڑی مقام، جہاں کی آبادی خوشحال اور آسودہ حال تھی ، یہ علاقہ بنو ثقیف کی ملکیت تھا ،جن کیساتھ آنحضرتﷺ کی کچھ قرابت داری بھی تھی ، لیکن اہلِ طائف کا ظالمانہ سلوک ، سیرتِ طیبہ کا ایک انتہائی کربناک اور تکلیف دہ باب بن گیا ،جس کے بارے میں از خود نبیؐ نے حضرت عائشہؓ کے استفسار پر فرمایا تھا کہ اہلِ طائف نے جو سلوک میرے ساتھ روا رکھا وہ بڑا روح فرسا تھا ۔قرن الثعالب کے قریب پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہوا، عرض کی ، آپؐ فرمائیں تو طائف کی بستی کو ان دونوں پہاڑوںکے درمیان پیس دوں ،آپ ؑ نے فرمایا :’’میں امید کرتا ہوں ان کی پشتوں سے ایسی اولاد پیدا ہوگی،جو اللہ کی واحد انیت کے علمبردار ہو ںگے ۔‘‘ جسم اطہر سے رستا ہوا لہو---چشمِ گریاں اور زبانِ لرزاں کیساتھ اپنے رب کے حضور ، جو دعا اور التجا لبوں پہ آئی -اس نے اجابت کے ایسے دَر وَا کئے،کہ کائنات آپ کے قدموں کے نیچے ڈھیر کر دی گئی ، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کی دلجوئی اس طرح فرمائی کہ عظمتوں ، رفعتوں ،بلندیوں کے مقامِ رفیع کا جو بھی تصوّر-انسانی ذہن میں ابدالاباد تک آسکتا تھا، اس سے بھی ورأ الورأ۔ دے ولولہ شوق جسے لذتِ پرواز کرسکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج تو معنی ’’والنجم‘‘ نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج ’’معراج‘‘--- معجزاتِ رسول میں نمایاں اور خصوصی اہمیت کا حامل ---تاریخِ ارتقائے انسانی کا سنگِ میل اور قصرِ ایمان کا بنیادی پتھر--- جس کے آگے عقلِ انسانی قیامت تک خَم رہے گی ۔معجزہ کہتے ہی اُسے ہیں ،جس کے سامنے انسانی فہم عاجز آجائے ،انسانی زندگی میں دو طرح کے افعال وقوع پذیر ہوتے ہیں ، ایک وہ ،جو معمول کے مطابق انجام پاتے ہیں ، اور ان کی توجیہہ ممکن ہوتی ہے ، دوسرے وہ ، جو خلافِ عادت ہوں ، جن کی عقلی توجیہہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہوتی ،انہیں ’’خارقِ عادت‘‘کہاجاتا ہے۔صاحب منجد نے کہا: کہ’’ معجزہ اُس’’ خارقُ العادت‘‘ چیز کو کہتے ہیں ،جس کی مثل پیش کرنے کی طاقت فردِ بشر میں نہ ہو۔‘‘ پانی اپنی سطح برقرار رکھتا ہے ،یہ مروجہ قانون ہے ۔لیکن جب موسیٰ ؑ اپنی قوم کو لیکر نکلے ، سامنے دریائے نیل اور پیچھے فرعون کا لشکر---آپ ؑ نے حکم ربانی کے تحت ، پانی کی لہروں پر عصا مارا اور وہ پھَٹ گیا، قرآن نے سورہ الشعرأ کی آیت 63میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ اسی طرح آگ کے بارے میں قانو ن یہ ہے کہ جلاتی ہے ، لیکن حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ڈالے گئے تو ’’نارِ نمرود‘‘ آپ کے لیے گلزار بن گئی ۔ایسے واقعات ، جو مختلف لوگوں سے مختلف شکلوں میں صادر ہوتے ہیں ، ان کوچار مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے : i۔معجزہ : کسی نبی یا رسول سے ، دعویٰ نبوت کی صداقت کے لیے ،جو خارقِ عادت واقعہ رونما ہو، وہ معجزہ کہلاتا ہے ۔ii۔ ارہاص : کسی نبی یا رسول کی ولادت کے موقع ، جن عجائبات کا ظہور ہوتا ہے ،اُسے ’’ارہاص‘‘ کہتے ہیں ۔جیسے نبیﷺ کی ولادت کے موقع پرروشنی کا ظہور اور اس میں ، مکہ سے شام کے محلات کا نظر آنا ، بتوں کامنہ کے بَل گڑ پڑنا ،آتش کدئہ فارس کا سرد ہو جانا۔iiiکرامت: اللہ کے مقربین ،صلحاء اور اولیاء کے لیے ، خلافِ معمول وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو کرامت کہتے ہیں۔جیسے حضرت سلیمان ؑ کے دربار میں آصف بن برخیا کا سینکڑوں میل دور سے ’’تخت بلقیس ‘‘ کو آنِ واحد میں پیش کردینا۔iv۔ استدراج : یہ وہ خلافِ عادت واقعات ہیں جو کسی مُشرک ،کافر ،فاسق اور ساحر سے صادر ہوتے ہیں ،جیسے سامری جادو گر کا سونے کا بچھڑا بنا کر اُس کے منہ سے آواز پیدا کرنا ، فرعون کے دربار میں جادو گروں کا اَژدھا بنانا وغیرہ۔ عقلِ انسانی جہاں گھنٹے ٹیک دے وہاں سے معجزات کی ابتداء ہوتی ہے ۔’’معراج ‘‘ معجزاتِ مصطفی کا نقطہ کمال ہے ، جس سے تسخیر کائنات کے مقفل دروازے کھلنے کی ابتدأ ہوئی ۔ جیسا کہ اقبال نے کہا : سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے کہ عالمِ بشریت کی زَد میں ہے گردُوں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒء نے’’سفرِ معراج‘‘ کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا ـ:i۔ اَسریٰ: مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ،’’ اَسریٰ‘‘ رات کی سیر کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی ہی آیت میں سفرِ معراج کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا :سبحن الذ ی اَسریٰ۔۔۔۔یعنی یہ سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہوا، گویا ساری رات اس میں صَرف نہیں ہوئی ۔ لَیْلاً پر تنوین تقلیل کیلئے ہے ۔ ii۔معراج :بیت المقدس سے ساتویں آسمان اور سدرۃ المنتہیٰ تک کے سفر کا معراج ہے ۔ iii۔اِعراج: سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک کا سفر’’ اعراج‘‘ہے ۔صوفیاء کے نزدیک حضور ﷺ کا اس عالمِ ارضی کی پستی سے ، عالمِ بالا کی بلندی کی طرف تشریف لے جانا ہی بہت بڑی بات ہے ،لیکن اس مقام عُلو سے دامن کَش ہو کر ،اس جہانِ آب وگل کی پستی میں ، ہم مسکینوں کی طرف لوٹ آنا، اس سے بھی بڑی بات ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے معروف خطبات The reconstruction of religious thought in islam کے پانچویں خطبے بعنوان "اسلامی ثقافت کی روح "میں شیخ عبدالقدوس گنگوہی کایہ قول پیش کیاہے کہ’’ آنحضرت عرشِ بریں پرپہنچ کر واپس تشریف لے آئے ،لیکن اگر مَیں اس مقام تک پہنچ جاتا تو کبھی واپس نہ آتا۔‘‘اقلیم تصوّف اور طریقت وروحانیت میں ’’معراج ‘‘عروج پر ختم ہوتی ہے ،کیونکہ مقصود اپنی ذات کی تکمیل ہے ،مگر معراج مصطفی ﷺ میںیہ سفر عروج کی بجائے نزول پر ختم ہوا، کیونکہ اگر نزول نہ ہوتا تو اُمت بے وسیلہ ہو جاتی ۔ علامہ اقبال کے نزدیک’’معراج‘‘ زندگی کے حَر کی اصول اور تسخیرِ جہات کاپیغام ہے ،جو آنحضرت ﷺ نے اپنی اُمت کو دیا ۔اور یہی پیغام اقبال کے فلسفہ حیات وکائنات کی بنیاد ہے ،جوکہ اپنے اندر بہت زیادہ وسعت اور گہرائی کا حامل ہے ۔ علامہ اقبال کے رفیقِ خاص چوہدری محمدحسین بیان کرتے ہیں کہ ’’مسئلہ معراج‘‘ مدتوں علامہ اقبال کے غور وفکر اور تدبر وتفکر کامرکز رہا۔ علامہ کے خیال میںمسلمانوں نے اسلام کی دیگر بہت سی باتوں کی طرح ،معراج کی حقیقت پر بھی بہت کم غور کیا ہے ۔ علامہ چاہتے تھے کہ مسلمان ،معراج کے روحانی ، فکری ،نفسیاتی اور ثقافتی اثرات کا جائزہ لیں اور یہ بھی کہ عقیدہ معراج کی دینی تعبیر کچھ بھی ہو ،اس کے ان ثقافتی اثرات کا سراغ لگایا جائے ، جو قرن ہا قرن سے مسلم قوم کے ذہن وفکر اور قول وعمل میں اجتماعی طور پر سے نمودار ہوتے رہے ۔ چنانچہ انہوں نے لاہور میں آل انڈیا اورینٹل کانفرنس کے اجلاس منعقدہ 1921ء میں اپنے صدارتی خطبے میں ،معراج کو ان مسائل مہمہ میں شامل کیا ، جن کی طرف مسلم حکماو محققین کو خا ص توجہ کی ضرورت تھی ، اس میں علامہ کہتے ہیں :’’حقیقت یہ ہے کہ واقعہ معراج سے مسلمانوں کے فکر اور جذبے کو بے حد تحرک اور تشفی ملی ہے ، اس واقعہ کے بغیر اسلام کے روحِ تمدن کو جا نچنا مشکل ہوتا ،اور اس کے مطالعے وتحقیق کی روشنی میں بہت سے تمدنی عقدوں کی گرہ کشا ئی آسان ہو جاتی ہے ۔‘‘