یروشلم کے قرب و جوار کے بے آباد اور بے آب و گیاہ علاقوں میں ایک منصوبے اور مذہبی جذبے کے تحت یہودیوں کی منتقلی جدید انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہے، جو بغیر قطرۂ خون بہائے عالمی طاقتوں کے زیر سایہ شروع ہوئی اور تیس سال اسرائیلی ریاست کے اعلان تک پورے زور و شور سے جاری رہی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اس پورے نیم صحرائی علاقے کے دو شہروں جافہ اور تل ابیب میں صرف چودہ ہزار یہودی انتہائی خاموشی سے آباد تھے۔ صہیونی تحریک کی داغ بیل ڈالے ہوئے بیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ 1896ء میں لکھے جانے والے ’’پروٹوکولز‘‘ (Protocols)کے مطابق دنیا بھر کے یہودیوں کے لئے ایک واضح نصب العین طے کر دیا گیا تھا، کہ اب یروشلم کی ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی ہوگی، آنے والے مسیحا کا انتظار اور پھر ہیکل سلیمانی سے ایک عالمی حکومت کا قیام۔ برطانیہ کو اس جنگ میں امریکی مدد کی ضرورت تھی، جو وہاں پر آباد طاقتور یہودی لابی کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اسی جنگ کے دوران خلافتِ عثمانیہ سے یروشلم کی علیحدگی کی تحریک جافہ اور تل ابیب کے انہی چند ہزار یہودیوں نے برطانیہ کے ایما پر شروع کی۔ ان چند ہزار یہودیوں نے وہاں کی عرب آبادی کو بھی ساتھ ملالیا اور مخالف اتحادی افواج کے ساتھ ساز باز شروع کردی۔ بحیرہ روم کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے ترکوں نے سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ان دونوں علاقوں سے تمام آبادی کو نکل جانے کا حکم دیا، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی اکثریت ان کے خلاف جاسوسی کر سکتی ہے۔ اس وقت تک وہاں آباد یہودیوں نے ’’عرب نیشنلزم‘‘ کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ چھ اپریل 1917ء کو تمام آبادی وہاں سے نکال دی گئی، جن میں مسلمان اور یہودی دونوں شامل تھے۔ اس دن یہودیوں کا تہوار ’’پاس اور‘‘ (Passover)تھا۔ تمام یورپ، یہاں تک کہ ترکوں کے ساتھی جرمنی کے اخبارات نے بھی اسے صرف یہودیوں پر ایک ظلم عظیم قرار دیا، وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک عالمی میڈیا یہودی قبضے میں آچکا تھا۔ مسلمان تو اسکندریہ میں جا کر آباد ہو گئے لیکن یہودیوں کو برطانیہ نے اپنے ہاں پناہ دے دی۔ جیسے ہی برطانیہ اور فرانسیسی افواج نے مل کر جنوبی شام اور مصر کے سیناء صحرا پر قبضہ کیا تو برطانوی وزیر خارجہ ’’آرتھر بالفور‘‘ (Arthur Balfore)نے عالمی یہودی کمیونٹی کے رہنما اور بینکاری نظام کے بانی خاندان کے چشم و چراغ ’’لارڈ روتھ شیلڈ‘‘ کو ایک خط تحریر کیا کہ ’’برطانیہ پوری دنیا میں آباد یہودیوں کو ایک قوم تصور کرتا ہے اور ان کا ارض مقدسہ میں واپسی کا حق تسلیم کرتا ہے‘‘۔ اس خط کو مشہور عام ’’بالفور ڈیکلریشن‘‘ کہتے ہیں۔ جیسے ہی 1918ء کی گرمیوں میں برطانیہ نے عرب علاقوں پر قبضہ مکمل کیا تو یہ نکالے گئے یہودی واپس اپنے علاقے میں لاکر آباد کردئیے گئے۔ یہ علاقہ جسے آج فلسطین، اردن اور اسرائیل کہتے ہیں، بندربانٹ کے بعد برطانیہ کے حصے میں آیا۔ اس فتح سے پہلے دنیا بھر سے یہودی صرف مذہبی رسومات ادا کرنے یروشلم، چند دنوں کے لئے آیا کرتے تھے۔ برطانیہ کا مینڈیٹ آیا تو یروشلم کی پہاڑیوں پر یہودیوں نے قلعہ نما گھر بنانا شروع کر دئیے، جو دور سے کسی حصار کی طرح نظر آتے تھے اور پہاڑ کے دامن میں غریب فلسطینیوں کے سفید چونے کے پتھر سے بنے ہوئے گھر ایک واضح فرق سے نظر آنے لگے۔ اس کے بعد پورے خطے میں یہودیوں کی واپسی کا مسلسل سفر شروع ہوا۔ یروشلم اور اس کے گردونواح میں آباد ہونے کے اس سفر کو یہودی مذہبی اصطلاح میں ’’ایلیا‘‘ (Aliyah)کہا جاتا ہے۔ یہودی جو 70عیسوی میں رومن جرنیل ’’ٹائٹس‘‘ (Titus) کے ہاتھوں یروشلم سے نکالے گئے تھے، تقریباً دو ہزار سال بعد اب 1881ء سے 1903ء تک چھپ چھپ کر واپس جا کر آباد ہونا شروع ہو ئے تھے۔ یہ زیادہ تر مشرقی یورپ کے یہودی تھے، جو اس وقت تک خلافتِ عثمانیہ کا حصہ تھا۔ یہ سب کھاتے پیتے اور امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جب فلسطین میں روز گار، سخت موسم اور غربت کا سامناکرنا پڑا تو سب واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ تقریباً پینتیس ہزار یہودی تھے، جن میں صرف تین ہزار فلسطین میں رہ گئے، یہ وہ تھے جنہیں اپنے مسیحا کا شدت سے انتظار تھا۔ اسے یہویوں کی تاریخ میں پہلا ایلیا یا پہلی واپسی کہا جاتا ہے۔ اسی ایلیا کے دوران یمن کے یہودی بھی آہستہ آہستہ وہاں آکر آباد ہونے لگے۔ یمن کے یہودیوں اور مشرقی یورپ کے فلسطین میں باقی رہ جانے والے یہودیوں نے پورے نیم صحرائی علاقے میں چند گھروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی آبادیاں بنانا شروع کر دیں۔ پہلی آبادی ’’ریشن لی زائن‘‘ (Rishon Li Zion) تھی جو تل ابیب سے 8 کلومیٹر ساحل سمند پر 1882ء میں بنائی گئی۔ ایک درجن سے بھی کم یہودی وہاں آباد ہوئے تھے، مگر آج وہ اسرائیل کی چوتھا بڑا شہر ’’گش دان‘‘ (Gush Dan) ہے جس کی آبادی دو لاکھ ساٹھ ہزار ہے۔ پہلے ایلیا میں ایسی تیس چھوٹی چھوٹی آبادیاں پورے صحرا میں میخوں کی طرح گاڑی گئیں، تاکہ کل کو ان سب کو ملا کر علاقے میں ایک پورا جال بچھا دیا جائے۔ پہلے ایلیا کی آخری آبادی 1904ء میں ’’کفر صبا‘‘ (Kfar Saba)تھی۔ چند یہودیوں پر مشتمل یہ علاقہ آج اسرائیل کا بہت بڑا ضلع ہے، جس کی آبادی ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ ان تمام چھوٹی چھوٹی بستیوں کو عبرانی زبان میں ’’موشوا‘‘ (Moshva)کہا جاتا ہے۔ یوں اس پورے خطے میں چند ہزار یہودی کینسر کی چھوٹی چھوٹی گلٹیوں کی طرح پھیل کر آباد ہوگئے، جن کا مقصد ایک دن پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لینا تھا۔ یہ تمام یہودی جو آج تک فلسطین کی سرزمین پر آباد ہوتے چلے آئے ہیں، وہ کسی معاشی مقصد، کاروباری مصلحت یا خوشگوار ماحول کے لئے وہاں نہیں آئے تھے۔ وہاں تو اسوقت پینے کو پانی بھی میسر نہ تھا۔ یہ تو لق دق صحرا، بے آب و گیاہ سرزمین اور شہری زندگی سے عاری علاقہ تھے۔ یہ وہاں ایک عالمی حکومت کے قیام کے لئے آئے تھے۔ دوسری واپسی یادوسرا ایلیا 1904ء میں خالصتاً نظریاتی اور مذہبی تصور لئے ہوئے تھا۔ صہیونی تحریک نے دنیا بھر کے یہودیوں کو حکم دیا تھا کہ اب کوئی یہودی کسی ایسے ملک میں نہ رہے جہاں ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہو۔ روس میں کیمونسٹ انقلاب کی آمد آمد تھی اور یہودیوں سے نفرت عروج پر تھی۔ یہودیوں کی اکثریت وہاں سے بھاگ کر امریکہ میں جا کر آباد ہوئی، لیکن چالیس ہزار یہودی اپنے ’’مسیحا‘‘ کی عالمی حکومت کا خواب لے کر تل ابیب کے علاقے میں آکر آباد ہوگئے جو اس وقت ایک چھوٹا سا صحرائی گائوں تھا۔ انہوں نے وہاں ایک عام سی مہاجربستی آباد نہیں کی، بلکہ ایک چھائونی کی طرح اپنی ایک نجی اجتماعی و دفاعی فوج بھی بنائی جسے ’’ہاشومر‘‘ (Hashomar) کہتے ہیں۔ برطانیہ نے علاقہ کا انتظام سنبھالا تو تیسرا ایلیا شروع ہوا، جو 1923ء تک جاری رہا اور فلسطین میں جہاں جہاں یہودیوں نے چند گھروں والی بستیاں بنائی تھیں، یہ سب وہاں جا کر مکھیوں کے چھتے کی طرح آباد ہونے لگے۔ تیسرے ایلیا کے آخر یعنی 1924ء تک نوے ہزار یہودی مزید آباد ہو گئے۔ اب امریکہ کے یہودیوں نے ایک چال چلی۔ انہوں نے امریکہ میں ایک قانون منظور کروایا کہ چونکہ یہودیوں کا امریکہ میں داخلے کا کوٹہ ختم ہو گیا ہے، اس لئے مزید یہودی یہاں نہ آئیں۔ اس کے بعد چوتھے اور پانچویں ایلیا میں دنیا بھر سے یہودی صرف فلسطین میں برطانوی سرپرستی میں آباد ہونے لگے۔ یہ تمام انہی چھوٹی چھوٹی پرانی بستیوں کے گرد آباد ہوتے چلے گئے۔ ہر آبادی کے لئے اپنی ایک مسلح نجی فوج بنائی جاتی۔ یوں یہ بستیاں نہیں چھائونیاں تھیں۔ یورپ میں ’’ہولوکاسٹ‘‘ شروع ہوا تو وہاں رہنے والے یہودی بھی یہاں آنے لگے۔ جب ایک اکثریتی تعداد اس علاقے میں اکٹھی ہو گئی تو برطانیہ نے 12اپریل 1947ء کو اقوام متحدہ سے کہا کہ ہم فلسطین کو چھوڑنا چاہتے ہیں، اس لئے آپ اس کا کوئی حل نکالیں۔ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد 181(۱۱) 29نومبر1947ء کومنظور کی جس کے تحت تل ابیب، جافہ اور بیر شابہ وغیرہ پر مشتمل یہودی ریاست بنا دی گئی، جبکہ غزہ اور مغربی کنارہ فلسطین کے پاس رہنے دیا گیا، جبکہ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ یروشلم کا پورا شہر اقوام متحدہ کی نگرانی میں رہے گا۔ مئی 1948ء کے آغاز میں برطانوی افواج وہاں سے نکلیں اور 14مئی کو اسرائیل کی ریاست قائم ہو گئی۔ ایک ایسی ریاست جس کا مقصد یہودیوں کے لئے ’’ہوم لینڈ‘‘ نہیں بلکہ پوری دنیا پر عالمی حکومت قائم کرنا تھا۔ (جاری ہے)