سیاست اگر ریاست کو منظم اور متحد رکھنے کے نقطہ نظر سے کی جانی ہے تو اس کا مرکز و محور عدل (حقدار کو اسکا حق ملے یوں کہ حق مارنے والے کے ساتھ بھی زیادتی نہ ہو )کے سو ا کچھ نہیں ہو سکتا۔ عوام کو بنیادی ضروریات زندگی (معیاری خوراک، صاف پانی ، صحت ، تعلیم اور روزگار ) کی فراہمی سے لے کر ٹیکسوں کے نظام (ترقی پسندانہ ہے یا پھر استحصالی ؟کس سے اور کہا ں سے ٹیکس لیا جاتا ہے اور اور کن مدات میں یہ خرچ کیا جاتا ہے؟ ) تک سب عدل کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ یہ معاملات اگر احسن طریقے سے انجام پائیں تب ہی معاشرہ امن و استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ اب اگر مدتوں بعد ایک سیاسی پارٹی عدل کا جھنڈا لیکر میدان میں آئی ہے تو یقیناً یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ اس کی پیشرو پارٹیاں نظریاتی طور پر کچھ اور ہی مقاصد سے وابستہ تھیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے انتخابی منشور پر کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہ دے سکنے کے باوجود، اپنا انقلابی لب و لہجے قائم رکھے ہوئے ہے۔ اسکی یہ شناخت برقرار ہے کہ یہ تبدیلی کی پارٹی ہے اور حالات کو جوں کے توں ہیں، جو یقیناً اچھے نہیں ہیں۔ وزیر اعظم گاہے بگاہے عوام کو یاد کرتے رہتے ہیں اور انہیں مہنگائی، بھوک اور بیماری سے چھٹکارے کی امید دلاتے رہتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد مہنگائی صوبوں کی ناقص کارکردگی اور ضلعی انتظامیہ کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔ اشیائے ضروریہ ، خوراک مہنگی ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ یا تو زرعی پالیسی ناقص ہے یا پھر رسد و طلب میں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی طرف سے لایا گیا بگاڑ۔اگر صوبوں کو وفاق کی طرف سے ملنے والے وسائل بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ممکن نہیں بناسکتے تو اسکا مطلب وسائل کا رخ کسی اور طرف ہے۔ کورونا وائرس کے مخصوص حالات میں جب مہنگائی بڑھ رہی ہے تو عام آدمی کو ٹیکس کی مد میں ریلیف کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت چاہے تو ریلیف دے سکتی ہے اور مخصوص ٹیکس لگانے کے اختیار کو بروئے کار لا کر محصولات کا متبادل راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ یعنی، غریب اور متوسط طبقے کی بجائے امرا پر ٹیکس لگائے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت پالیسی ریٹ (شرح سود) اونچے رکھے ہوئے ہے اور اشیائے ضروریہ کو ٹیکسوں کے حصول کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ یوں عام آدمی پر خزانے کا بوجھ لا دنے کی پرانی روش برقرار ہے۔ کفائت شعاری دوسرا وعدہ تھا لیکن وزیروں اور مشیروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اضافہ ارباب غلام رحیم ہیں جنہیں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سندھ بنایا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے سندھ میں قدم جمانے میں معاونت کریں گے۔ اگرچہ وہ کوئی وظیفہ نہیں لیں گے لیکن مراعات کے حقدار تو ٹھہریں گے ہی۔ اب یہ کوئی سرکاری کام تو نہ ہوا، پارٹی کا کام ہے تو اسے پارٹی ہی سرانجام دے، حکومت کا اس میں کیا لینا دینا ہے؟ ایک اور وعدہ آئین کی روح کے مطابق مقامی حکومتوں کا قیام تھا تاکہ صوبوں کے اندر وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو اور غیر ترقی یافتہ علاقوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ مضافاتی علاقے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ چلیں سندھ کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دیتے ، باقی تین صوبوں میں تو یہ سب کرنا آسان تھا۔ اگرسندھ نے وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے صوبائی فنانس کمیشن نہ بنا یا تو دوسرے صوبوں نے کب یہ قدم اٹھایا ؟ اس معاملے میں لیکن تحریک انصاف اور روایتی سیاسی پارٹیوں کے رویے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بھی اپنی آئینی ذمہ داری کو تو سمجھتی تھیں لیکن روڑے اٹکاتی تھیں، موجودہ حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔ تازہ ترین استدلا ل خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کا آیا ہے جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن سے یہ انتخابات اگلے سال مارچ تک ملتوی کرنے کی استدعا کی ہے کیونکہ افغانستان میں شورش ہے! یوں تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے انتخابی منشور کے حوالے سے نہ ہی وفاق میں کوئی نمایاں کارکردگی دکھا سکی ہے اور نہ صوبوں میں۔ اگر کچھ اس نے کیا ہے تو وہ ہے زبانی جمع خرچ۔ یعنی پاکستان کو ریاست مدینہ کے طرز پر چلائے گی، امیروں سے ٹیکس لیکر غریبوں پر خرچ کرے گی اور معیار زندگی بلندکیا جائیگا۔ کب اور کیسے ہوگا ، کوئی نہیں جانتا۔ مہنگائی بڑھتی جارہی ہے۔ نئے وزیر خزانہ آئے تو انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس عفریت کو ترجیحاتی بنیادوں پر قابو کریں گے لیکن مہینوں ہو چکے ہیں ، ان سے اس حوالے سے کچھ بھی نہیں بن پایا۔ بجلی ، گیس ، کوکنگ آئل ، آٹا اور دالیں بدستور مہنگے ہیں تو عوام کو سکھ کا سانس کیسے ملے گا؟ ملک کی بھلائی کے لیے کوئی بات ذہن میں سوچیں ، وزیراعظم کو اس کا حامی پائیں گے لیکن کارکردگی صفر۔ انتخابات سے پہلے وہ چٹکی بجا کر کہتے تھے کہ اگر انہیں اقتدار مل جائے تو وہ ملکی معیشت کو یوں تبدیل کر سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا کمال ان کی حکومت نے یہ کیا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں اس نے سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کیا ہے۔ اس نظام کو جس کو اپناتے اپناتے میثاقی پارٹیاں ناکام ہوئی تھیں ۔ انہوں نے عالمی مالیاتی اداروں سے معاشی اصلاحات کیلئے قرضے تو لیے تھے لیکن انکی شرائط (ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانے، سبسڈییز کے خاتمے اور ادارہ جاتی کارکردگی کو بہتر کرنے ) پورا نہ کر پائیں۔ انہوں نے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں سے ہاتھ کھینچ کر اسے نجی شعبے کے حوالے کیا۔ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی سے حکومت نے ہاتھ کھینچا تو عوام بلبلا اٹھے تھے اور تبدیلی کے نعرے کی طرف دوڑ پڑے تھے ۔ لیکن موجودہ حکومت نے کیا کیا ہے ؟ بجٹ سے پہلے ہی وزیر اعظم نے مہنگائی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ قیمتیں واپس نہیں لائی جاسکتیں البتہ حکومت لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے بارے میں اقدامات اٹھاسکتی ہے!