میں تو کرکٹ میچ دیکھتا رہا۔ کیا ہوا زمبابوے کے خلاف تھا، اتنی ہی مسرت کافی ہے۔ اتنے دنوں کی ٹینشن سے تو پل دو پل کے لیے نجات مل گئی۔ ٹینشن اس بات کی نہیں ہے کہ میرے پسندیدہ امیدوار جیتیں گے یا نہیں، یا میری حسب منشا نتائج آئیں گے یا نہیں۔ یہ تو ان کا کام ہے جو ضیاء الحق کے زمانے کی اصطلاح میں مثبت نتائج کے متمنی ہوا کرتے تھے۔ درست کہا جاتا ہے کہ جہنم نیک نیتوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم نے کئی بار بڑی نیک نیتی اور خوشدلی سے بعض اقدام کئے اور جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ 1971ء کے سانحے ہی کو دیکھئے۔ ایوب خان کو ہم نے خود رخصت کیا۔ بڑی محنت کی۔ میری نسل کے لوگ تو سڑکوں پر تھے۔ اس سے پہلے مادر ملت کے انتخاب میں انہیں یہ صدمہ پہنچا تھا کہ ان کا مینڈیٹ ان سے چھین لیا گیا تھا۔ آمریت نے طاقت کے زور پر اقتدار پر شب خون مارا تھا، کسی نے ان کے نتائج کو تسلیم نہ کیا تھا۔ پھر جنگ ستمبر کے سائے تلے بات دب سی گئی تھی۔ ہم تیغوں کے سائے میں نغمہ زن تھے، خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا۔ ملی نغموں نے پوری فضا کو گرما دیا تھا۔ بقول اقبال، فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جل ترنگ۔ اس زمانے کا ایک ایک نغمہ آج بھی قوم کے دلوں کو گرماتا ہے۔ میں نے اپنے ایک فوجی دوست سے سنا ہے کہ 71ء کی جنگ کے بعد فوج میں ایک مذاق چلتا تھا کہ جب کوئی نیا جوان ذرا غلطی کرتا تو اس کا انسٹرکٹر اسے کڑک کر کہتا تھا: نورجہاں کی بھرتی، یہ کیا کر رہے ہو۔ مطلب یہ تھا کہ نورجہاں کے نغمے سن سن کر تم لوگ فوج میں تو آ گئے ہو، اب جان لو یہ کوئی رومانوی دنیا نہیں ہے۔ حقائق کی دنیا ہے۔ فطرت لہو ترنگ ہے، غافل نہ جل ترنگ کا یہاں یہی مفہوم بنتا ہے۔ خیر ایوب خان کے خلاف طوفان ذرا تھم گیا تھا کہ قوم لڑنے مرنے کے جذبے سے سرشار ہو کر سب بھول گئی، مگر جب تحریک چلی تو شہر شہر، نگر نگر ایک ہی جذبہ تھا کہ ایوب خان کو نکالو۔ اس کے نتیجے میں یحییٰ خان آ گئے، کسی نے کوئی خاص برا نہ مانا۔ یوں لگا عوام کی جیت ہو گئی ہے کیونکہ ایوب خان بازی ہار گئے تھے۔ کیا ہوا، فیلڈ مارشل کے جاتے جاتے اقتدار اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے تحت سپیکر کے سپرد کرنے کے بجائے اپنے ہی نامزد کردہ آرمی چیف کے حوالے کردیا تھا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، قوم اس پر بھی خوش تھی۔ یحییٰ خان نے اس پر ایک ترپ کی چال چلی۔ ون یونٹ توڑ دیا اور مغربی پاکستان کے صوبے بحال کردیئے۔ ون یونٹ کے خلاف کم از کم چھوٹے صوبوں میں بڑا ردعمل تھا۔ یوں گویا مغربی پاکستان کی ایک بڑی آبادی خوش ہو گئی۔ یوں لگا جمہوریت بحال ہو گئی ہے۔ یحییٰ خان نے دوسرا اعلان یہ کیا کہ ون مین ون روٹ کے تحت مشرق و مغرب کے درمیان پیریٹی کا اصول ختم کردیا۔ یوں مشرقی پاکستان میں خاص طور پر اس کی داد وصول کی۔ اس کے ساتھ ہی نئے سال کے آغاز سے انہوں نے انتخابی مہم کی اجازت دے دی جو سارا سال جاری رہی ہم اس میں مست رہے اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ مجھے یاد ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ امن زمانے کے جہاندیدہ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ، مفتی محمود، ممتاز دولتانہ وغیرہ سبھی یہ کہتے تھے کہ یحییٰ کے چکر میں نہ آئیے۔ یحییٰ نے 62ء کا آئین تو توڑ دیا تھا۔ اس پر بھی قوم خوش تھی کہ آمر کے بنائے آئین سے جان چھوٹ گئی۔ مگر اس کے ساتھ 56ء کا آئین بحال کرنے کے بجائے نئے انتخابات کو نئی دستور ساز اسمبلی کاانتخاب قرار دے دیا۔ ون یونٹ توڑنا، پیریٹی کا خاتمہ کرنا یہ سب 56 کے آئین کی دھجیاں اڑانا تھا۔ گویا نہ صرف آئین توڑا بلکہ یہ کہہ دیا کہ نیا آئین 62 ء والا تو ہو گا نہیں، 56ء والا بھی نہیں ہوسکتا۔ ہمارے سب جید سیاستدان سمجھاتے رہے کہ اس چکر میں نیا آئین نہیں بن سکے گا اور ملک ٹوٹ جائے گا۔ 56ء کا آئین بڑی محنت اور بڑی مشکل سے بنایا گیا تھا اور اس پر دونوں صوبوں کی رضا مندی حاصل کی گئی تھی۔ یہ جہاندیدہ سیاستدان کہتے تھے، اب نیا اتفاق ممکن نہیں۔ ہم نے ون یونٹ توڑ کر اور پیریٹی کا اصول ختم کر کے پنڈورا باکس کھولا ہے جو بلائیں اس سے نمودار ہوں گی، وہ سنبھالے نہ سنبھلیں گی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ اس وقت ہماری حد سے زیادہ خوش فہم اسٹیبلشمنٹ سمجھ رہی تھی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق انتخابات کے نتائج طے کر آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ سیاسی جماعتوں کے جو ٹکڑے کردیئے گئے ہیں، اس کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ آئے گی۔ اس معلق پارلیمنٹ کے ساتھ جوڑ توڑ کر کے ایسا بندوبست کیا جائے گا کہ یحییٰ خان کے اقتدار کا بول بالا رہے۔ البتہ اس کے زیر سایہ ایک جمہوری حکومت سکون سے چلتی رہے گی، کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ نہ من پسند نتائج آئے جسے ضیاء الحق کے زمانے میں مثبت نتائج کہا جانے لگا، نہ یحییٰ خان کا اقتدار باقی رہا اور اس پورے عمل میں ملک بھی چلا گیا اور ہماری بے بسی دیکھئے کہ ہم نے اسی یحییٰ خان کی قیادت میں مشرقی پاکستان کی جنگ لڑی۔ اس سرزمین پر اپنے مشرقی بازو میں ہونے والے حکومت کے ہر اچھے برے اقدام کو سراہا۔ ہرگناہ میں پوری یکسوئی کے ساتھ شامل رہے۔ یحییٰ خان نے جب عالمی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا تو ہم نے تالیاں پیش کہ کیا شاندار پرفارمنس تھی۔ ہر بات اچھی لگتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ 65ء کا لمحہ پھر آن پہنچا ہے۔ افسوس یہ سب ہمارے خواب تھے جو بری طرح ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد ہم نے کتنی بار ایسے خواب دیکھے۔ جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو پاکستان کے تین شہروں میں جزوی مارشل لا لگانا پڑا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور نعرے لگانے لگے۔ آدھا نہیں، پورا مارشل لا۔ جی ہاں، یہ ہماری تاریخ ہے۔ سچ کہیے تو ’’جمہوریت‘‘ کے لیے ہماری جدوجہد ہے۔ جمہوریت کے اس زمانے میں سب سے بڑے چیمپئن اصغر خان جن کا میں خود بھی بڑا معتقد ہوں، فوج کو خط لکھ رہے تھے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں۔ بڑا شور اٹھا کہ یہ فوج کو بلا رہے ہیں۔ کیسے جمہوریت پسند ہیں۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب یہی دفعہ 144 لگا کر شہر کو فوج کے سپرد کردیا گیا۔ ایک سرخ لکیر کھینچ دی جاتی اور اعلان ہو تاکہ جو شخص اس کو عبور کرے گا، اسے گولی مار دی جائے گی۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ 4,4 لوگوں کی ٹولیاں سر پر قرآن رکھ کر، کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس سرخ پٹی کو عبور کرتی اور کوئی گولی نہ چلائی جاتی بلکہ اس پٹی کو اٹھا کر پیچھے کردیا جاتا۔ ایسے کئی واقعات میں عین شاہد ہوں۔ پھر کیا ہوا، آدھا نہیں پورا پاکستان مانگنے والوں نے مارشل لا کو خوش آمدید کہا۔ مرد مومن، مرد حق، ضیاء الحق، ضیاء الحق کے نعرے لگے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ نعرہ پہلی بار کیسے لگا تھا۔ پھر ضیاء الحق ہم ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کا دوست تھا کہ اس کے قوم کو ’’بھٹو کی فاشزم‘‘ سے بچایا تھا۔ ضیاء الحق کا استقبال کرنے والے سب نیک نیت تھے۔ اس وقت حیدر آباد میں ایک مقدمہ چل رہا تھا، جب بھٹو اور پی این اے کے مذاکرات ہو رہے تھے تو ایک دن بھٹو آرمی چیف کو لے آئے اور بتایا کہ یہ آپ سب سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن نے انکار کیا، ہمارا ان سے کیا کام۔ بہرحال انہیں اپنی بات کہنے کا موقع دیا گیا جس میں ضیاء الحق نے واضح کیا کہ آپ جو چاہیں طے کرلیں مگر ایک بات نہیں مانی جائے گی اور وہ یہ کہ ولی خان اور بلوچ قیادت کے خلاف حیدر آباد ٹریبونل میں جو بغاوت کا مقدمہ چل رہا ہے، وہ ختم نہیں کیا جائے گا۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ضیاء الحق نے اقتدار میں آتے ہی جو پہلا کام کیا، وہ حیدر آباد ٹربیونل کو توڑ کر یہ مقدمہ ختم کرنا تھا۔ ولی خان نے بھی قید سے چھوٹتے ہی نعرہ لگایا کہ پہلے احتساب پھر انتخاب۔ ضیاء الحق کے ہاں ہمارے دانشوروں کی ایک لابی تیار ہورہی تھی کہ انتخابات ملتوی کردیئے جائیں کیونکہ انتخابات ہوئے تو بھٹو جیت جائے گا۔ اس کے لیے احتساب کا ڈول ڈالا جائے۔ کتنا اچھا لگتا ہے یہ نعرہ۔ جو بھی کرنا ہے، احتساب کا نعرہ آستینوں میں چھپا کر لاتا ہے۔ یہی اس کا یدبیضا ثابت ہوتا ہے۔ کیا کیا نہیں ہوا ہمارے ساتھ۔ مشرف کا زمانہ تو خیر رہنے دیجئے۔ ہم ہر بار چکر میں آ جاتے ہیں اور یہ چکر کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ یہاں تو ہم صرف ایک طرح کے چکروں کا رونا لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ وگرنہ ہم نے کہاں کہاں ٹھوکریں نہیں کھائیں ہیں اور مسلسل کھاتے جا رہے ہیں۔ اب بھی ان ٹھوکروں کے ہچکولوں میں انتخاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس دعا کے ساتھ کہ اے خدا، خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں۔ کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوبؐ کی امت میں ہیں۔ ہم سے بہت غلطیاں ہوئیں، ہم نے بہت ڈبکیاں کھائیں۔ مولا، اب ہمیں ساحل مراد پر پہنچا دے۔ ہم نے اپنی عقل پر بہت اعتبار کیا مگر ہر بار سراب کا شکار ہوئے، اب کوئی راستہ ایسا دکھا کہ اس سراب سے بچ سکیں اور سیدھا راستہ پا سکیں، اے خدا ہم پر کرم فرما۔